طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
نہیں جو عِشق میں رُتبہ امین رکھتا تھا
میں اپنا دِل تک اُسی کا رہین رکھتا تھا
رہی جو فکر تو نادان دوست ہی سے مجھے
وگرنہ دشمنِ جاں تک ذہین رکھتا تھا
خیال جتنا بھی اُونچا لیے پھرا ، لیکن
میں اپنے پاؤں کے نیچے زمین رکھتا تھا
خُدا کا شُکر کہ عاجز کِیا نہ دل نے کبھی
میں اِس کو دوست ہمیشہ حَسِین رکھتا تھا
کسی بھی شہر، کسی مُلک میں جہاں بھی گیا
جِلو میں اپنی میں عُمدہ ترین رکھتا تھا
نہیں یُوں یاد ہر اِک کو، کہ میں حَسِیں تھا، مگر
ہمیشہ ساتھ میں زہرہ جبین رکھتا تھا
چُنا اگر تو اِک ایسا ہی زندگی کو خلش
کمر گُلوں میں جو سب سے مہین رکھتا تھا
شفیق خلش