طارق شاہ
محفلین
غزل
پائی جہاں میں جتنی بھی راحت تمہی سے ہے
ہر وقت مُسکرانے کی یہ عادت، تمہی سے ہے
رکھتا ہُوں اب دُعا کو بھی ہاتھ اپنے میں بُلند
سب عِجز و اِنکسار و عِبادت تمہی سے ہے
ہر شے میں دیکھتا ہُوں میں، رنگِ بہار اب
آئی جہان بھر کی یہ چاہت تمہی سے ہے
ہوتا ہے ہر دُعا میں تمھارا ہی ذکر یُوں
لاحق ہماری جان کو حاجت تمہی سے ہے
لو آج تم سے کہتا ہُوں دِل میں چُھپائی بات
جو خود سے بڑھ کے ہے، وہ محبّت تمہی سے ہے
تم خوش ہو مجھ سے گر، تو خدا بھی ہے خوش مِرا
جو مجھ پہ ہے وہ رب کی عنایت، تمہی سے ہے
نازاں تمھارے حُسن، ملے پیار پر خلِش
اِس پر ہُوا جو سایۂ رحمت تمہی سے ہے
شفیق خلش
آخری تدوین: