طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
چراغِ دل تو ہو روشن، رسد لہو ہی سہی
' نہیں وصال میسّر تو آرزو ہی سہی '
کوئی تو کام ہو ایسا کہ زندگی ہو حَسِیں
نہیں جو پیارمقدّر، توجستجو ہی سہی
یہی خیال لئے، ہم چمن میں جاتے ہیں
وہ گل مِلے ںہ مِلے اُس کے رنگ و بُو ہی سہی
عجیب بات ہے حاصل وصال ہے نہ فِراق
جو تیرے در پہ پڑے ہیں وہ سُرخ رُو ہی سہی
ہم اُس کےطرزِعمل سے ہوئے نہ یوں عاجز
کہ جان جاں تو ہے اپنا، وہ تند خُو ہی سہی
خَلِش یہ دل نہ ہو مائل کسی بھی مہوش پر
مشابہت میں ہواُس کی وہ ہُوبَہُو ہی سہی
شفیق خلش