طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ
نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ
گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ
لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ
اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں
لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ
نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے
لگی یہ دامنِ دِل میں مِرے سحر سے آگ
ہر ایک شخص کو معلوُم ہے یہ اچھّی طرح
لگائے کون اور آتی ہے یہ کِدھر سے آگ
جلا کے رکھ دی ہے نفرت نے ایک دوجے کو
نہ آئی گھر میں لگی یہ، کسی نگر سے آگ
دو طرفہ کیا ہی ُمصیبت ہے پیش شب میں خلش
کبھی تپش بڑھے دِل کی، کبھی جگر سے آگ
شفیق خلش
شفیق خلش
چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ
نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ
گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ
لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ
اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں
لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ
نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے
لگی یہ دامنِ دِل میں مِرے سحر سے آگ
ہر ایک شخص کو معلوُم ہے یہ اچھّی طرح
لگائے کون اور آتی ہے یہ کِدھر سے آگ
جلا کے رکھ دی ہے نفرت نے ایک دوجے کو
نہ آئی گھر میں لگی یہ، کسی نگر سے آگ
دو طرفہ کیا ہی ُمصیبت ہے پیش شب میں خلش
کبھی تپش بڑھے دِل کی، کبھی جگر سے آگ
شفیق خلش
آخری تدوین: