طارق شاہ
محفلین
شفیق خلش
لچھّی نہیں پہ !
ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں میرے دئے ہوئے
کرتی تھی یاد سات وہ پھیرے لئے ہوئے
کیوں چوڑیاں نہیں پہ ہمیشہ یہی کہا !
پہنوں گی اپنی ہاتھوں میں تیرے دئے ہوئے
دل روز روز ملنے پہ ڈرتا بہت تھا تب
کیا کیا نہ خوف رہتے تھے گھیرے لئے ہوئے
شاخیں فسردہ یوں کہ پرندے تھے جو یہاں !
گم ہوگئے کہیں وہ، بسیرے لئے ہوئے
ہر سمت دُھول دُھول ہے، کچھ بھی نہیں سِوا
خوشیاں کہاں ہَوا بھی وہ میری لئے ہوئے
لچّھی نہیں پہ ، رات کہ ہٹتی نہیں مِری
سورج تو آئے روز سویرے لئے ہوئے
شفیق خلش
آخری تدوین: