شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہم لوگ دُھوپ میں نہ کبھی سر کُھلے رہے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین




غزل


ہم لوگ دُھوپ میں نہ کبھی سر کُھلے رہے
سائے میں غم کی آگ کے اکثر دبے رہے

فرقت کے روز و شب بڑے ہم پر کڑے رہے
ہم بھی اُمیدِ وصل کے بَل پر اڑے رہے

دِل اِنتظار سے تِری غافِل نہیں رہا
گھر کے کواڑ تھے کہ جو شب بھر کُھلے رہے

راتوں نے ہم سے عِشق کا اکثر لِیا خِراج
ضبط و حیا سے دِن میں کبھی گر بَھلے رہے

چمکے نہ روشنی میں بھی ہم آفتاب کی
شب کی طرح یہ دِن بھی تو ہم پر کڑے رہے

ہارے ہیں شب سے یُوں، کہ نظر میں سَحر نہ تھی
دِل میں غُبارِغم تھے کہ، شب بھر بَھرے رہے

مُشکل ہے یہ خلش! کہ ہوں غم زیست سے جُدا
اِک عُمر سے یہ سِینے میں خود سر پَلے رہے

آوارگی کے قصد سے آخر نِکل گئے
تنگ آ گئے تھے ہم بھی بہت گھر رہے رہے

کیا جانیے خلِش اُنھیں کیسا ملال تھا
پہنچے نہ تم ، تو وہ سرِ بستر پڑے رہے

شفیق خلش


 
Top