طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو
مائل بہ عشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو
اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ انعام بھی تو ہو
دُشنام گو لبوں پہ خلش نام بھی تو ہو
عاشق ہو تم تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو
پتّھر برس رہے ہوں کہ، ہو موت منتظر
اُن کا، گلی میں آنے کا پیغام بھی تو ہو
کرلُوں گا طے میں عِشق کی پُر پیچ رہگُزر
اُس پار منتظر وہ خوش اندام بھی تو ہو
گردن زنی پہ میری تھا قاتل کا عذر یہ
کچھ ساتھ حُکم کے تِرے اِلزام بھی تو ہو
میخانے جائیں کیوں بھلا پینےکو پھرخلش
گھر میں مگر وہ ساقیِ گلفام بھی تو ہو
شفیق خلش