فاخر
محفلین
شكايت
افتخاررحمانی فاخرؔ
بُلا یا تھاتمہیں ہم نے کئی عرصے مہینوں بعد
بڑے ہی شوق و ارماں سے ،بہ امید تلطف اور مہربانی
فراق اور آتش ہجراں میں جل جل کے
ہوئے جب نیم جاں خستہ !
چراغ ہجر کے جیسا
تو مجبوراًتمہیں ہم نے بلابھیجا !
مگر اے نازنیں صورت ،ستم پیشہ ، جفا رو اور سراپا سنگ
اے ماہِ مبیں میرے!
مرے اِصرا ر و گریہ بے قراری کا
نہ رکھا کچھ بھرم تم نے
نہایت سخت لفظوں میں بہت ہی تند لہجے میں
تقدس اور پاکیزہ محبت کے علائق توڑ کر یہ کہہ دیا کیسے؟
کسی کے پاس آخر کار!
لہو کے اشک ِ پیہم سے وضو کرکے دِوانہ وار کرتی ہیں
تمہارے مصحف ِرخ کا
’’طوافِ عشق ‘‘!
مرے ہر اک، بُنِ مو سے ٹپکتا ہے
تمہارے واسطے تقویٰ ، طہارت اور’احساسِ لطافت ‘
مجھے اچھی طرح سے یادہے تم نے قسم کھا کے گواہی دی
مرے عشقِ مصفیّٰ کی، مری پاکیزہ الفت کی!
اور اِس ایثار و جذبے کی
تمہیں یہ بھی یقیں ہے میری الفت کا خمیر
گندھا ہے اشک،اور بے لوث چاہت سے!
تو........پھر کیا حا دثہ پیش آگیا تم کو
کہ تم نے تندخوئی سے ،بہ ازراہِ فراموشی
یہ کیوں کر کہہ دیا تم نے
کسی کے پاس آخر کار!
افتخاررحمانی فاخرؔ
بُلا یا تھاتمہیں ہم نے کئی عرصے مہینوں بعد
بڑے ہی شوق و ارماں سے ،بہ امید تلطف اور مہربانی
فراق اور آتش ہجراں میں جل جل کے
ہوئے جب نیم جاں خستہ !
چراغ ہجر کے جیسا
تو مجبوراًتمہیں ہم نے بلابھیجا !
مگر اے نازنیں صورت ،ستم پیشہ ، جفا رو اور سراپا سنگ
اے ماہِ مبیں میرے!
مرے اِصرا ر و گریہ بے قراری کا
نہ رکھا کچھ بھرم تم نے
نہایت سخت لفظوں میں بہت ہی تند لہجے میں
تقدس اور پاکیزہ محبت کے علائق توڑ کر یہ کہہ دیا کیسے؟
کسی کے پاس آخر کار!
’میں کیوں جاؤں ، میں کیوں جاؤں ‘!
تمہیں تو یہ خبر بھی ہے، ہماری مضطرب نظریں لہو کے اشک ِ پیہم سے وضو کرکے دِوانہ وار کرتی ہیں
تمہارے مصحف ِرخ کا
’’طوافِ عشق ‘‘!
مرے ہر اک، بُنِ مو سے ٹپکتا ہے
تمہارے واسطے تقویٰ ، طہارت اور’احساسِ لطافت ‘
مجھے اچھی طرح سے یادہے تم نے قسم کھا کے گواہی دی
مرے عشقِ مصفیّٰ کی، مری پاکیزہ الفت کی!
اور اِس ایثار و جذبے کی
تمہیں یہ بھی یقیں ہے میری الفت کا خمیر
گندھا ہے اشک،اور بے لوث چاہت سے!
تو........پھر کیا حا دثہ پیش آگیا تم کو
کہ تم نے تندخوئی سے ،بہ ازراہِ فراموشی
یہ کیوں کر کہہ دیا تم نے
کسی کے پاس آخر کار!
’میں کیوں جاؤں ، میں کیوں جاؤں ‘!
(جاری)