شمسی بجلی گھر یا پن بجلی گھر

شمسی توانائی نظام قدرت کا عطیہ
سعیدہ شبنم | ٹیکنولوجی ٹاٴمز کی طرف سے "مضامین" جلد 04 شمارہ 51 میں پوسٹ کیا گیا
توانائی کے موجودہ بحران کی وجہ سے آج ہر کوئی پریشان ہے کہ بجلی آخر کہاں سے اور کیسے آئے گی؟ ہم کسی بھی قسم کی معلومات اور سوچے سمجھے بغیر بس بھاگم بھاگ چلے جا رہے ہیں۔ سوچ بس یہی ہے کہ کسی طرح ہمارے گھر روشن ہو جائیں۔ پورے ملک میں شمسی توانائی کا ڈھنڈورہ پیٹا جا رہا ہے لیکن اس کی سائنس سمجھنے کی کوشش کوئی نہیں کر رہا۔ جس کی وجہ سے ہم فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا نقصان کی طرف جا رہے ہیں اور وقتی فائدے کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل کا نقصان کر رہے ہیں۔ ہم اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہے کہ آخر پوری دنیا ہمیں ہی کیوں شمسی توانائی کے حصول کے لئے مراعات دے رہی ہے؟ آج کل ٹی وی چینلز پر بہت سے پروگرام چل رہے ہیں جن میں یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں شمسی توانائی کے وسیع مواقع موجود ہیں اور پرنٹ میڈیا میں بھی کالم پر کالم چھاپے جارہے ہیں جن میں یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں شمسی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ پاکستان میں شمسی توانائی کے حصول کے بہترین مواقع موجود ہیں، لیکن بھارت بھی تو اسی خطے میں رہتا ہے۔ اس کے بارے میں کالم لکھنے والوں اور رپورٹس بنانے والوں کا کیا خیال ہے؟ کیا بھارت کی سرزمین پر سورج نہیں چمکتا؟ کیا وہاں دن کا اجالا نہیں ہوتا؟ یا پھر وہاں سولر اسٹیشن لگانے کے لئے وسیع میدان موجود نہیں؟ بھارت بھی شمسی سیل بنا رہا ہے تو پھر وہ کیوں اس بات پر زور نہیں دیتا کہ ملک میں ڈیمز کو چھوڑ کر شمسی اسٹیشن لگائے جائیں؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایک بہت بڑی سائنس کو سمجھے اور قوم کو سمجھائے بغیر اس طرف راغب کر رہے ہیں جس کا مستقبل میں صرف نقصان ہی نقصان ہے۔ شمسی توانائی عام بجلی کی مددگار تو ہو سکتی ہے لیکن نعم البدل نہیں۔ کہتے ہیں کہ ایشیاء کا سب سے پہلا شمسی بجلی گھر صدر ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کے شہر نارووال کے قریب واقع بیگم پور نامی گاؤں میں لگایا گیا تھا۔ اس بات کی تصدیق مشکل ہے کہ یہ ایشیاء کا پہلا شمسی اسٹیشن تھا یا نہیں لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ یہ پاکستان کا پہلا شمسی بجلی گھر تھا۔ پھر یہ ہوا کہ بیگم پور میں بجلی آگئی اور ارد گرد کے دیہات کو فراہم کی جانے لگی۔ جب یہ بجلی کم پڑ گئی تو لوگوں نے طیش میں آکر شمسی بجلی گھر میں توڑ پھوڑ شروع کردی، جس کے نتیجہ میں بیگم پور شمسی اسٹیشن قصہ پارینہ بن گیا۔ آج جب لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے تو بیگم پور کے وہی لوگ جنہوں نے یہ شمسی بجلی گھر توڑا تھا، اب ان کی موجودہ نسل شمسی توانائی کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
سیانے یہی کہتے ہیں کہ کوئی ٹیکنولو جی بری نہیں ہوتی اور نہ ہی ناقابل عمل ہوتی ہے، بلکہ اس کا استعمال مکمل دیکھ بھال کا تقاضا کرتا ہے، جس کی مثال راولپنڈی میں راشد منہاس روڈ پر لگائی جانے والی سولر لائٹس ہیں، جو صرف ۲ سال میں مکمل طور پر خراب ہوچکی ہیں اور ان پر اٹھنے والی لاکھوں روپے کی رقم بھی ضائع ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ٹیکنولوجی بری ہے، بلکہ وجہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور یہ نہیں بتایا گیا کہ اس ٹیکنولوجی کو استعمال کیسے کرنا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لائٹس کی بیٹریاں ختم ہوگئیں اور پورا سسٹم ناکارہ ہوگیا۔ جب ایک ایسی چھوٹی سی جگہ کو، جہاں چند سولر لائٹس لگائی گئی تھیں، صرف ۲ سال تک کارآمد نہیں رکھا جاسکا تو کروڑوں روپے سے لگائی جانے والے شمسی بجلی گھروں کا کیا بنے گا؟
آج شمسی توانائی کو مستقبل میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف نجات دہندہ ثابت کیا جارہا ہے اور اسے عوام کے سامنے اس طرح پیش کیا جارہا ہے جیسے وہ عام بجلی کا نعم البدل ہو، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ شمسی توانائی ہمارے لئے کبھی عام بجلی کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتی اور یہی حقیقت ہے۔ جب شمسی توانائی وہ توقعات پوری نہیں کرپائے گی تو ہمارے عوام ایک بار پھر جذبات میں آئیں گے اور اپنے ہی ملک کا نقصان کریں گے۔
شمسی توانائی سے ایک میگا واٹ بجلی حاصل کرنے کی غرض سے شمسی پینل لگانے کیلئے جو جگہ درکار ہوگی وہ تقریباً ۶ سے ۸ ایکڑ بنتی ہے۔ اس کا اسٹیشن کیسے لگے گا اور اس پر لاگت کا تخمینہ کیا ہوگا، یہ اعدادوشمار تو کوئی شمسی توانائی کا ماہر ہی بتا سکتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سورج کی کمی بیشی سے بھی اس پر اثر پڑتا ہے۔ اب اگر ہم کئی ہزار میگا واٹ کی بات کرتے ہیں تو ایک میگا واٹ کو ۸ ایکڑ سے ضرب دے کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف پینل لگانے کے لئے کتنی زمین درکار ہوگی اور اس کا زراعت پر کیا منفی اثر پڑے گا۔ اس عمل پر اٹھنے والے اخراجات پر بھی نظردوڑائیں تو وہ بھی اربوں روپے میں نکلیں گے، جبکہ یہ ذریعہ بھی مستقل نہیں اور اس پر صرف کی جانے والی رقم بھی بہت زیادہ ہے۔
دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جو پاکستان کو شمسی توانائی کے ذریعے بجلی فراہم کرنے پر رضامند نہ ہو؟ لیکن آخر کیوں؟ ہمیں اس کا جواب تلاش کرنا ہے کہ پاکستان پر ہی آخر کیوں اتنا زور دیا جارہا ہے کہ وہ شمسی بجلی گھر لگائے۔ جرمنی اور چند دیگر ممالک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شمسی توانائی کے ذریعے کئی میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، جبکہ تیل اور گیس سے چلنے والے بجلی گھروں کی تعمیر پر بھی زور دیا جارہا ہے، لیکن عام ذرائع جن میں پن بجلی بھی آتی ہے اس کے اعداد و شمار کوئی نہیں دے رہا، آخر کیوں؟ اس ’’آخر کیوں‘‘ کا جواب ہماری سمجھ میں تو یہی آسکتا ہے کہ اسی پاکستان میں عام بجلی پیدا کرنے کے ذرائع بھی موجود ہیں جن پر توجہ مبذول نہیں کروائی جارہی، صرف اس لئے کہ پاکستان ڈیمز بنانے کی طرف نہ جائے اور دوسرے ممالک کا محتاج ہوجائے۔ اگر پاکستان بجلی پیدا کرنے کیلئے اپنے روائتی طریقہ کی طرف قدم بڑھائے گا تو وہ ممالک جو شمسی پینل تیار کررہے ہیں ایشیاء میں نئی منڈی کہاں تلاش کریں گے اور بھارت اپنے ڈیمز کیسے مکمل کرے گا؟ محسوس یہی ہوتا ہے کہ یہ ایک سازش ہے جس کے تحت پاکستان میں ایسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے کہ عوام کی توجہ ہائیڈل سے ہٹا کر شمسی توانائی کی طرف پھیر دی جائے۔ اس سے یقیناً ۲ فوائد حاصل ہونگے، ایک تو یہ کہ بھارت ہمارے دریاؤں کا تمام پانی روک لے گا اور ہمارے کھیت خشک ہو جائیں گے، کیونکہ دریاؤں کا تمام پانی بھارتی ڈیمز کی جھیلوں میں جمع ہوچکا ہوگا جہاں دھڑا دھڑ بجلی بھی پیدا ہورہی ہوگی۔
ایسی صورت میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب ہم توانائی کے بحران کو بھول کر اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے بھارت سے پانی خرید رہے ہونگے یا اپنے رب کریم سے سیلاب کی دعا مانگ رہے ہونگے، کہ سیلاب آئے اور ہماری زمینوں کو بھی پانی ملے۔ نہ جانے ہمارے پالیسی ساز ادارے کہاں ہیں، جو اس بات پر دھیان نہیں دے رہے کہ اس ملک کے ساتھ اور آنے والی نسلوں کے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟
اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ صرف کاروبار کو وسعت دینے کی خاطر یہ سب ڈھونگ رچائے جارہے ہیں۔ پہلے اربوں روپے کے یو پی ایس منگوائے گئے، ان کی بیٹریاں برآمد کی گئیں اور فاضل پرزہ جات خریدے گئے۔ پھر یہ کھپت ختم ہوگئی تو اب شمسی پینلز کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔ یہ بھی دراصل اربوں روپے کے کاروبار کو چمکایا جارہا ہے۔ جتنی محنت اور بھاگ دوڑ شمسی توانائی کے حصول کیلئے کی جارہی ہے اور جتنی رقم اس پر خرچ کی جارہی ہے اگر اس سے آدھی محنت اور رقم بھی ڈیمز کی تعمیر پر صرف کی جائے تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔ مقامی ڈیمز کی تعمیر میں کروڑوں روپے کا زرمبادلہ بھی بچے گا کیونکہ اس پر نصب ہونے ولے ٹربائن کے علاوہ تمام کام وطن عزیز ہی میں ہوگا۔
کوئی ہے جو مناسب قانون سازی کرے اور ان کاروباری حضرات کو روکے جو اس ملک کے ساتھ اور اس کی آنے والی نسلوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے درپے ہیں؟
 
Top