سید محمد عابد
محفلین
دنیا بھر میں سورج کی روشنی سے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اسپین کے علاقے نیورا میں بجلی کی ستر فی صد ضرورت کو شمسی توانائی اور پن بجلی کی مدد سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں کوئلے، گیس یا تیل کے ذخائر بالکل نہیں ہیں اس کے باوجود یہاں شمسی توانائی کے ذریعے بلا تعطل بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ علاقہ متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کی بہترین مثال ہے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ایسے علاقے میں بجلی کی پیداوارممکن ہے تو پاکستان میں بھی شمسی توانائی سے بجلی کے پیدواری مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
اگر پاکستان شمسی توانائی کے استعمال پر توجہ دے تو ہم دن میں شمسی توانائی اور رات میں گرڈ سسٹم کی بجلی کے استعمال کے ذریعے نہ صرف بجلی کے بحران پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ بجلی کو ذخیرہ بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی دن کے وقت پہلے شمسی توانائی اس کے بعد بیٹری اور پھر گرڈ سسٹم پر انحصار کیا جائے اور رات کے وقت گرڈ سسٹم اور بیٹری سے کام چلایا جائے۔ اس بات کو یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ سب سے پہلے شمسی توانائی کو براہ راست بجلی کے لئے استعمال کیا جائے جب شمسی توانائی سے بجلی کا حصول مشکل ہو تو بیٹری کا استعمال کیا جائے اور جب بیٹری سے بھی کار آمد نہ ہو تو پھرگرڈ سسٹم کی بجلی کااستعمال کیا جائے جبکہ رات کو بیٹری اور گرڈ سسٹم کا استعمال کیا جائے۔ اس طرح لوڈشیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی اور ملکی توانائی پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔
گزشتہ سال موسم سرما سے لوڈشیڈنگ ہوتی رہی تھی مگر اب گرمیوں میں لوڈشیڈنگ اور زیادہ شدید ہوگئی ہے۔ ایسے میں شمسی توانائی کو ایک ایسے متبادل کے طور پر دیکھنا جس کا بل ادا نہیں کرنا پڑے گا توجہ کا سبب بنتا ہے۔ شمسی توانائی دیگر توانائی کے ذرائع کی نسبت آلودہ بھی نہیں ہے۔ آج کل ایک چھوٹی سی گھڑی سے لے کر گاڑی تک سولر سسٹم کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ سولر سسٹم کے استعمال میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ توانائی کے ذخائر کے استعمال میںکمی لانا ہے جو کہ تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ آج کل بجلی کے بحران کے باعث شہروں میں آٹھ سے بارہ جبکہ دیہاتوں میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور آنے والے دنوں میںمزید بڑھنے کے آثار ہیں۔ سورج کی کرنیں خدا کا دیا ہوا وہ تحفہ ہیں جس سے پاکستانی عوام اور حکومت توانائی کے بحران جیسے مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔
اگرچہ لوگ شمسی توانائی کو پاکستان میں مختلف درجوں پر استعمال کر رہے ہیں، پھر بھی اس کا استعمال بہت کم جگہوں پر ہے۔ شمسی بجلی پانی اور دوسری توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی کی نسبت آلات کے لحاظ سے نسبتاً مہنگی ہے مگر یہ ایک دفعہ کا خرچ ہے۔ اس کے استعمال کی مدت کم از کم بیس وگرنہ پچیس سال ہے۔ اس دورانیہ کے ختم ہونے کے بعد بھی یہ بیس فیصد کمزور ہو کر دس سال چل سکتی ہے جو کہ دوسرے توانائی ذرائع کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ شمسی توانائی کو کئی لحاظ سے پانی اور جوہری توانائی کی بجلی کے مقابل رکھا جا سکتا ہے لیکن اس کا لگانا قدرے جلد اور آسان ہے، شمسی پینل لگانا ذرا نازک کام ہے انہیں توڑ پھوڑ سے بچانا ضروری ہے۔ یہی ان کے لئے احتیاط ہے۔ کیونکہ یہ شیشے کے بنے ہوتے ہیں۔ ان پینلز کو لگانے کے لئے حسب ضرورت کھلی جگہ درکار ہوتی ہے۔
ایک کمپنی کے سروے کے مطابق ایک ہزار واٹ کا شمسی یونٹ ایک چالیس واٹ تک کے درمیانے سائز کے پنکھے کو سارا دن اور رات اور تیرہ واٹ کے دو انرجی سیور تمام رات چلا سکتا ہے یا ایک بیس انچ کا ٹی وی یا کمپیوٹرآٹھ گھنٹے چلائے جاسکتے ہیں۔ جو کہ ایک چھوٹے سائز کے گھر کے لئے کافی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے بجلی کی بچت کے لئے ایک لاکھ زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی سے چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس منصوبے کے لئے عالمی بنک سے امداد بھی لی گئی ہے۔ پاکستان کو اس وقت توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایسے اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق سورج سے ایک گھنٹے میں حاصل ہو نے والی توانائی پوری دنیا کی کل سالانہ پیدا کردہ مجموعی توانائی سے زیادہ ہے۔ ایک جائزے کے مطابق دنیا کے صحرائوں کا اگر صرف آدھا فیصد بھی شمسی توانائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو اس سے دنیا میں توانائی کی طلب پوری کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں شمسی توانائی پیدا کرنے کے کافی مواقع موجود ہیں کیونکہ پاکستان سال بھر میں فی مربع میٹر انیس میگا جول سے زیادہ شمسی توانائی حاصل کررہا ہے جس سے پاکستان کے تقریباً پچاس ہزار دیہاتوں میں رہنے والی نوے فیصد آبادی کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کرکے توانائی کے بحران سے نمٹا جا سکتا ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک شمسی توانائی کا استعمال اپنی روز مرہ زندگی میں کر رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے آلودگی میں اضافہ کم کرنے اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شمسی توانائی کے استعمال پر زور دیا ہے۔ دہلی کے نزدیک گوالی پہاڑی میں شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے ایک بجلی گھر بنایا گیا ہے جہاں پیداوار اور تحقیقی کام کیے جا رہے ہیں۔ بھارت کے دیگرعلاقوں میں سولر فوٹو والٹک سنٹرز قائم کیے جا چکے ہیں جو ایک کلوواٹ سے ڈھائی کلوواٹ تک سولر سیل تیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اشیاءمثلاً موبائل، گیزر، کھانا پکانے اور دوسری چیزوں کے لئے بھی شمسی توانائی استعمال کی جا رہی ہے۔
امریکہ میں بھی ہزاروں کی تعداد میں شمسی گھر تعمیر کئے گئے ہیں۔ امریکہ میں انجینئر اور فن تعمیر کے ماہرین نے شمسی گھروں سے متعلق طرح طرح کے ڈیزائن نکالے ہیں۔ ان شمسی گھروں میں کسی نہ کسی طرح سورج کی گرمی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے اور ضرورت کے حساب سے استعمال کیا جاتا ہے۔
فرانس کے ماہرین تحقیقی مقام پیرانیز میں شمسی توانائی کی مدد سے بھٹیوں کو چلا رہے ہیں۔ یہ ساری بھٹیاں بہت بڑی ہیں ان میں سے ایک کا رقبہ تنتالیس مربع فٹ ہے اور اس میں پانچ سو سولہ عکسی شیشے لگے ہوئے ہیں۔ اس کے اسّی فٹ کے فاصلے پرایک شیشہ کا پیرا بولا ہے جو اکتیس فٹ چوڑا اور تیتیس فٹ لمبا ہے۔ اس نظام سے جو گرمی پیدا ہوتی ہے وہ فی گھنٹہ ایک سو تیس پاﺅنڈ لوہے کو پگھلا سکتی ہے۔
روسیوں نے سولر تھرمل کا استعمال کرتے ہوئے ایک بہت بڑا ہیلیو بوائیلر بنایا ہے۔ یہاںایک اسّی فٹ اونچا مینار ہے جس کے چاروں طرف تیئس ہم مرکز ریل کی پٹریاں ہیں۔ ان پٹریوں پر چلنے والے ڈبوں میں سولہ فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا عکسی شیشہ ہوتا ہے۔ ان شیشوں سے سورج کی شعاعیں مرکوز ہوکر مینار میں بوائلر پر پڑتی ہیںجس سے حرارت والی بھاپ اس قدر پیداہوتی ہے کہ ایک ایسے جزیٹر کو چلایا جاتا ہے جوایک ہزار کلوواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔
تائیوان کے جنوب مغرب میں سنہ 2009 میں ورلڈ کپ گیمزکے لیے دنیا کا پہلا ایسا اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے چلتا ہے۔ اٹو ٹویو نامی تعمیراتی ڈیزائن کمپنی کے تیار کردہ اس اسٹیڈیم میں پچپن ہزار شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہیں۔ انیس ہیکڑ وسیع رقبے پر محیط اس اسٹیڈیم کا مکمل ڈھانچہ فولاد سے بنایا گیا ہے جس کی شمسی چھت چودہ ہزار ایک سو پچپن اسکوائر میٹر ہے اور اس پر آٹھ ہزار آٹھ سو چوالیس شمسی پینل نصب کیے گئے ہیں۔ سورج سے حاصل کی گئی شمسی طاقت کی مدد سے اسٹیڈیم کے تین ہزار تین بلبوں کو روشن اور دو بڑی دیو ہیکل ٹی وی اسکرینز کے لیے توانائی کا حصول ممکن بنایا گیا ہے۔ یہ اسٹیڈیم سال بھر میں شمسی توانائی کے ذریعے ایک عشاریہ چودہ گیگا واٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کرتا ہے جس کے ذریعے سالانہ کاربن کے اخراج میںچھ سو دو ٹن کمی واقع ہوئی ہے۔
حال ہی میں ہمسایہ ملک ایران نے شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس گاڑی کا وزن ایک سو پچاس کلو گرام ہے اور اسے غزلی ٹو کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گاڑی عام گاڑی کی نسبت ایک سو کلو گرام ہلکی ہے۔ اس گاڑی میںایک سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جس میں نصب شمسی پینل بیٹریز میں توانائی جمع کر کے اسے چلنے میں مدد دیتے ہیں۔
دنیا کے بیشتر ممالک نے شمسی توانائی کو اپنا یا اور اس سے کسی نہ کسی صورت میں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستا ن میں بھی شمسی توانائی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے مگرتوانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
تحریر: سید محمد عابد
http://smabid.wordpress.com/2011/04/30/شمسی-توانائی-ایک-نعمت۔۔۔۔۔حصہ-آخر/
http://smabid.wordpress.com/2011/04/30/شمسی-توانائی-ایک-نعمت۔۔۔۔۔حصہ-آخر/
اگر پاکستان شمسی توانائی کے استعمال پر توجہ دے تو ہم دن میں شمسی توانائی اور رات میں گرڈ سسٹم کی بجلی کے استعمال کے ذریعے نہ صرف بجلی کے بحران پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ بجلی کو ذخیرہ بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی دن کے وقت پہلے شمسی توانائی اس کے بعد بیٹری اور پھر گرڈ سسٹم پر انحصار کیا جائے اور رات کے وقت گرڈ سسٹم اور بیٹری سے کام چلایا جائے۔ اس بات کو یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ سب سے پہلے شمسی توانائی کو براہ راست بجلی کے لئے استعمال کیا جائے جب شمسی توانائی سے بجلی کا حصول مشکل ہو تو بیٹری کا استعمال کیا جائے اور جب بیٹری سے بھی کار آمد نہ ہو تو پھرگرڈ سسٹم کی بجلی کااستعمال کیا جائے جبکہ رات کو بیٹری اور گرڈ سسٹم کا استعمال کیا جائے۔ اس طرح لوڈشیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی اور ملکی توانائی پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔
گزشتہ سال موسم سرما سے لوڈشیڈنگ ہوتی رہی تھی مگر اب گرمیوں میں لوڈشیڈنگ اور زیادہ شدید ہوگئی ہے۔ ایسے میں شمسی توانائی کو ایک ایسے متبادل کے طور پر دیکھنا جس کا بل ادا نہیں کرنا پڑے گا توجہ کا سبب بنتا ہے۔ شمسی توانائی دیگر توانائی کے ذرائع کی نسبت آلودہ بھی نہیں ہے۔ آج کل ایک چھوٹی سی گھڑی سے لے کر گاڑی تک سولر سسٹم کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ سولر سسٹم کے استعمال میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ توانائی کے ذخائر کے استعمال میںکمی لانا ہے جو کہ تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ آج کل بجلی کے بحران کے باعث شہروں میں آٹھ سے بارہ جبکہ دیہاتوں میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور آنے والے دنوں میںمزید بڑھنے کے آثار ہیں۔ سورج کی کرنیں خدا کا دیا ہوا وہ تحفہ ہیں جس سے پاکستانی عوام اور حکومت توانائی کے بحران جیسے مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔
اگرچہ لوگ شمسی توانائی کو پاکستان میں مختلف درجوں پر استعمال کر رہے ہیں، پھر بھی اس کا استعمال بہت کم جگہوں پر ہے۔ شمسی بجلی پانی اور دوسری توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی کی نسبت آلات کے لحاظ سے نسبتاً مہنگی ہے مگر یہ ایک دفعہ کا خرچ ہے۔ اس کے استعمال کی مدت کم از کم بیس وگرنہ پچیس سال ہے۔ اس دورانیہ کے ختم ہونے کے بعد بھی یہ بیس فیصد کمزور ہو کر دس سال چل سکتی ہے جو کہ دوسرے توانائی ذرائع کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ شمسی توانائی کو کئی لحاظ سے پانی اور جوہری توانائی کی بجلی کے مقابل رکھا جا سکتا ہے لیکن اس کا لگانا قدرے جلد اور آسان ہے، شمسی پینل لگانا ذرا نازک کام ہے انہیں توڑ پھوڑ سے بچانا ضروری ہے۔ یہی ان کے لئے احتیاط ہے۔ کیونکہ یہ شیشے کے بنے ہوتے ہیں۔ ان پینلز کو لگانے کے لئے حسب ضرورت کھلی جگہ درکار ہوتی ہے۔
ایک کمپنی کے سروے کے مطابق ایک ہزار واٹ کا شمسی یونٹ ایک چالیس واٹ تک کے درمیانے سائز کے پنکھے کو سارا دن اور رات اور تیرہ واٹ کے دو انرجی سیور تمام رات چلا سکتا ہے یا ایک بیس انچ کا ٹی وی یا کمپیوٹرآٹھ گھنٹے چلائے جاسکتے ہیں۔ جو کہ ایک چھوٹے سائز کے گھر کے لئے کافی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے بجلی کی بچت کے لئے ایک لاکھ زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی سے چلانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس منصوبے کے لئے عالمی بنک سے امداد بھی لی گئی ہے۔ پاکستان کو اس وقت توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایسے اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق سورج سے ایک گھنٹے میں حاصل ہو نے والی توانائی پوری دنیا کی کل سالانہ پیدا کردہ مجموعی توانائی سے زیادہ ہے۔ ایک جائزے کے مطابق دنیا کے صحرائوں کا اگر صرف آدھا فیصد بھی شمسی توانائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو اس سے دنیا میں توانائی کی طلب پوری کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں شمسی توانائی پیدا کرنے کے کافی مواقع موجود ہیں کیونکہ پاکستان سال بھر میں فی مربع میٹر انیس میگا جول سے زیادہ شمسی توانائی حاصل کررہا ہے جس سے پاکستان کے تقریباً پچاس ہزار دیہاتوں میں رہنے والی نوے فیصد آبادی کو شمسی توانائی سے بجلی فراہم کرکے توانائی کے بحران سے نمٹا جا سکتا ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک شمسی توانائی کا استعمال اپنی روز مرہ زندگی میں کر رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے آلودگی میں اضافہ کم کرنے اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شمسی توانائی کے استعمال پر زور دیا ہے۔ دہلی کے نزدیک گوالی پہاڑی میں شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے ایک بجلی گھر بنایا گیا ہے جہاں پیداوار اور تحقیقی کام کیے جا رہے ہیں۔ بھارت کے دیگرعلاقوں میں سولر فوٹو والٹک سنٹرز قائم کیے جا چکے ہیں جو ایک کلوواٹ سے ڈھائی کلوواٹ تک سولر سیل تیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اشیاءمثلاً موبائل، گیزر، کھانا پکانے اور دوسری چیزوں کے لئے بھی شمسی توانائی استعمال کی جا رہی ہے۔
امریکہ میں بھی ہزاروں کی تعداد میں شمسی گھر تعمیر کئے گئے ہیں۔ امریکہ میں انجینئر اور فن تعمیر کے ماہرین نے شمسی گھروں سے متعلق طرح طرح کے ڈیزائن نکالے ہیں۔ ان شمسی گھروں میں کسی نہ کسی طرح سورج کی گرمی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے اور ضرورت کے حساب سے استعمال کیا جاتا ہے۔
فرانس کے ماہرین تحقیقی مقام پیرانیز میں شمسی توانائی کی مدد سے بھٹیوں کو چلا رہے ہیں۔ یہ ساری بھٹیاں بہت بڑی ہیں ان میں سے ایک کا رقبہ تنتالیس مربع فٹ ہے اور اس میں پانچ سو سولہ عکسی شیشے لگے ہوئے ہیں۔ اس کے اسّی فٹ کے فاصلے پرایک شیشہ کا پیرا بولا ہے جو اکتیس فٹ چوڑا اور تیتیس فٹ لمبا ہے۔ اس نظام سے جو گرمی پیدا ہوتی ہے وہ فی گھنٹہ ایک سو تیس پاﺅنڈ لوہے کو پگھلا سکتی ہے۔
روسیوں نے سولر تھرمل کا استعمال کرتے ہوئے ایک بہت بڑا ہیلیو بوائیلر بنایا ہے۔ یہاںایک اسّی فٹ اونچا مینار ہے جس کے چاروں طرف تیئس ہم مرکز ریل کی پٹریاں ہیں۔ ان پٹریوں پر چلنے والے ڈبوں میں سولہ فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا عکسی شیشہ ہوتا ہے۔ ان شیشوں سے سورج کی شعاعیں مرکوز ہوکر مینار میں بوائلر پر پڑتی ہیںجس سے حرارت والی بھاپ اس قدر پیداہوتی ہے کہ ایک ایسے جزیٹر کو چلایا جاتا ہے جوایک ہزار کلوواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔
تائیوان کے جنوب مغرب میں سنہ 2009 میں ورلڈ کپ گیمزکے لیے دنیا کا پہلا ایسا اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے چلتا ہے۔ اٹو ٹویو نامی تعمیراتی ڈیزائن کمپنی کے تیار کردہ اس اسٹیڈیم میں پچپن ہزار شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہیں۔ انیس ہیکڑ وسیع رقبے پر محیط اس اسٹیڈیم کا مکمل ڈھانچہ فولاد سے بنایا گیا ہے جس کی شمسی چھت چودہ ہزار ایک سو پچپن اسکوائر میٹر ہے اور اس پر آٹھ ہزار آٹھ سو چوالیس شمسی پینل نصب کیے گئے ہیں۔ سورج سے حاصل کی گئی شمسی طاقت کی مدد سے اسٹیڈیم کے تین ہزار تین بلبوں کو روشن اور دو بڑی دیو ہیکل ٹی وی اسکرینز کے لیے توانائی کا حصول ممکن بنایا گیا ہے۔ یہ اسٹیڈیم سال بھر میں شمسی توانائی کے ذریعے ایک عشاریہ چودہ گیگا واٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کرتا ہے جس کے ذریعے سالانہ کاربن کے اخراج میںچھ سو دو ٹن کمی واقع ہوئی ہے۔
حال ہی میں ہمسایہ ملک ایران نے شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس گاڑی کا وزن ایک سو پچاس کلو گرام ہے اور اسے غزلی ٹو کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گاڑی عام گاڑی کی نسبت ایک سو کلو گرام ہلکی ہے۔ اس گاڑی میںایک سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جس میں نصب شمسی پینل بیٹریز میں توانائی جمع کر کے اسے چلنے میں مدد دیتے ہیں۔
دنیا کے بیشتر ممالک نے شمسی توانائی کو اپنا یا اور اس سے کسی نہ کسی صورت میں فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستا ن میں بھی شمسی توانائی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے مگرتوانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
تحریر: سید محمد عابد
http://smabid.wordpress.com/2011/04/30/شمسی-توانائی-ایک-نعمت۔۔۔۔۔حصہ-آخر/
http://smabid.wordpress.com/2011/04/30/شمسی-توانائی-ایک-نعمت۔۔۔۔۔حصہ-آخر/