سید محمد عابد
محفلین
شمسی توانائی خدا کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، دھوپ سے حاصل ہونے والی توانائی سولر انرجی یا شمسی توانائی کہلاتی ہے۔ دھوپ کی گرمی کو پانی سے بھاپ تیار کرکے جنریٹر چلانے اور بجلی بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سورج اپنی توانائی ایکسرے سے لے کر ریڈیو ویو کے ہر ویو لینتھ پر منعکس کرتا ہے۔ اسپکٹرم کے چالیس فیصد حصے پر یہ توانائی نظر آتی ہے اور پچاس فیصد شمسی توانائی انفرا ریڈ اور بقیہ الٹرا وائلٹ کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم جس چیز کی طلب کررہے ہوتے ہیں وہ ہمارے پاس ہی ہوتی ہے مگر اس کی طرف دیر سے متوجہ ہوتے ہیں۔ شمسی توانائی بھی انہی چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔اگر ہم آج سے دو چار سال پہلے ہی شمسی توانائی سے بجلی کے حصول پر کام شروع کر دیتے تو دور حاضر میں بجلی کے بحران کا شکار نہ ہوتے۔ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں ہوتا ہے جہاں سورج کی کرنیں زیادہ دیر تک پڑتی ہیں۔ پاکستان سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں ڈھائی سو سے لے کر تین سو بیس دنوں تک سورج کی دھوپ سے توانائی کی پیداوار کو یقینی بنا سکتا ہے۔ سورج کی کرنیں قدرت کا وہ عطیہ ہیںجو توانائی کے حصول کے لئے مفید ہیں۔ دیگر ذرائع سے حاصل توانائی کے مقابلے میں سورج کی کرنوںسے چھتیس گنا زیادہ توانائی حاصل ہوسکتی ہے، شمسی توانائی کے بغیر زمین پر زندگی ممکن نہیں۔ دنیا میں شمسی توانائی کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ان دو اقسام میں سولر تھرمل اور سولر فوٹو وولٹائی (سولر پی وی) شامل ہیں۔۔۔
سولر تھرمل بجلی پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔ اس طریقے میں پانی کو بھاپ کی شکل دی جاتی ہے اور بھاپ کی مدد سے ٹربائنز کو چلایا جاتا ہے جس سے بجلی پید ہوتی ہے۔ گیس یا کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں میں حرارت آگ سے لی جاتی ہے جبکہ سولر تھرمل میں حرارت آگ کے بجائے براہ راست سورج سے حاصل کی جاتی ہے۔ اِس طریقے میں دھوپ کی شعاعوں کو ایک ہی نقطے پر مرکوز کرتے ہوئے کسی پائپ میں موجود مائع کو گرم کیا جاتا ہے۔ آج کل جو کھانا پکانے کے لئے شمسی چولہوں کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ سولر تھرمل طریقہ ہی ہے۔
شمسی بیٹریوں کو سائنسی اصطلاح میں فوٹو وولٹک (پی وی) کہا جاتا ہے۔ فوٹو کا مطلب روشنی اور وولٹک سے مراد بجلی ہے۔ فوٹو وولٹائی سیل وہ ایجادات ہیں جو سورج کی روشنی کو مکینکیل جنریٹروں اور تھرمو ڈائنامیک سائیکلز سے گزار کر بجلی میں تبدیل کرتی ہیں۔ فوٹو وولٹائی کا مطلب ہے، ایسی روشنی جو بجلی میں تبدیل ہو جائے اس عمل میں سورج کی روشنی میں شامل فوٹونز سیلی کونز کے آزاد الیکٹرانز کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
کسی بھی عام آدمی کے لئے یہ بات قابل غور ہے کہ سورج کی روشنی سے توانائی کا حصول کیسے کیا جاتا ہے۔ شمسی توانائی سے توانائی کے حصول کے لئے بنیادی عنصر سولر سیل کہلاتا ہے۔ جب سورج کی شعاعیں پینل پر پڑتی ہیں تو سولر سیل کے ذریعے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک سولر پینل بیس سے پچیس برس کے لئے کارآمد ہو سکتا ہے۔ سولر پی وی کی مزید اقسام میں جن میں تھن فلم، کنسنٹریٹڈ اور ایکٹو سولر انرجی شامل ہیں۔
تھن فلم سولر سیل کو تھن فلم فوٹو وولٹک بھی کہا جاتا ہے۔ تھن فلم سولر سیل کو ایک یا ایک سے زیادہ فوٹو وولٹک مواد کی پتلی تہوں کو جمع کر کے بنایا جاتا ہے اور یہ شمسی توانائی کو بجلی بنا کر اپنے اندر محفو ظ کر لیتی ہیں۔ اس طرح کی بیٹری توانائی کی کم مقدار کو محفوظ کرتی ہے مگر اس کا سامان پاکستان میں کم قیمت پر دستیاب ہے۔ سلیکون تھن فلم بیٹری کے لئے ایمورپھس، پروٹو کرسٹلائن، نینو کرسٹیلائن اور بلیک سلیکون استعمال ہوتا ہے۔ تھن فلم بیٹریز کا وزن کم ہوتا ہے اس لئے ان بیٹریز کو باآسانی بڑی بڑی عمارتوں کی چھت پر لگایا جاتا ہے۔
کنسنٹریٹڈ سولر سسٹم میں لینز اور شیشوں کی مدد سے سورج کی توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ جب سورج کی کرنیں توانائی میں تبدیل ہوتی ہیں تو یہ سٹم ٹربائن یا برقی توانائی کے جنریٹر کو چلاتی ہیں اور برقی توانائی پیدا ہوتی ہے۔
آج کے دور میں کھانا پکانے، پانی گرم کرنے، مکانوں کو ٹھنڈا یا گرم رکھنے یا پھر پھلوں کو سکھانا ہو؛ ان تمام کاموں کےلئے شمسی تونائی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ جب سورج کی یہ کرنیں سٹیم ٹربائن کا استعمال کئے بغیر شمسی توانائی میںتبدیل ہو جاتی ہیں تو اسے کنسنٹریٹڈ فوٹو وولٹک (سی پی وی) کہا جاتا ہے۔ کنسنٹریٹڈ ٹیکنولوجی چار شکلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ان میں ڈش، ریفلیکٹر،شمسی ٹاور اور پائپوں سے شمسی توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ اس طرح کے سسٹم گرم علاقوں میں لگائے جاتے ہیں جہاں تیز دھوپ ہو۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کی عوام بجلی کے بحران میں الجھی ہوئی ہے اور پر قابو پانے کے لئے ہمیں ایسی توانائی استعمال کرنی ہو گی جوملکی توانائی کی بچت بھی کرے اور عوام کو بلا تعطل توانائی کی فراہمی بھی ممکن ہو شمسی توانائی اس اعتبار سے بہترین ہے۔ پاکستان میں بجلی کے حصول کے متبادل ذرائع کے لئے حکومت پاکستان کے خصوصی بورڈ نے گزشتہ چند برسوں میں ملک بھر میں متعدد دیہاتوں میں سولر پلانٹ نصب کئے ہیں۔ جن میں راولپنڈی، تربت، ڈیرہ غازی خان ، قلات،قلعہ سیف ، چیچر، گجرات کے نام معروف ہیں۔ پاکستان میں سب سے برا مسئلہ جس کی وجہ سے توانائی کے مسائل قابو نہیں ہو پاتے وہ یہ ہے کہ حکومت ایک دفعہ شمسی پینلز تو نصب کر دیتی ہے مگر پھر دوبارہ ان پینلز کی طرف توجہ نہیں دیتی جس سے وہ خراب ہو جاتے ہیں۔
توانائی کی کمی ، قدرتی ذخائر ، پٹرول ، بجلی اور گیس کی شکل میں اس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر 2004ءمیں حکومت پاکستان نے متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت دور دراز دیہاتوں کے لئے سورج کی روشنی اور صنعتوں کے لیے ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمدشروع کیا گیا۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کے اس منصوبے کا آغاز ملک میں متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول کےلئے حکومتی سطح پر ایک ادارہ الٹرنیٹیو انرجی ڈیویلپمنٹ بورڈ (اے ای ڈی ای بی) قائم کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد ملک میں متبادل توانائی کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔
اسلام آباد سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاﺅں ناریاں کھوریاں میں سو سولر پینلز نصب کئے گئے ہیں۔ ایک مقامی فرم نے یہ شمسی توانائی پیدا کرنے کے آلات بلا معاوضہ نصب کئے ہیں تاکہ ملک میں شمسی توانائی کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ ان ایک سو شمسی پینلز کی تنصیب کے بعد اس گاﺅں کے ایک سو سے زائد گھروں کو بجلی کی سہولت میسر آچکی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ انہیںامید نہیں تھی کہ ان کے علاقے میں کبھی اس طرح بجلی کا حصول ممکن بنایا جاسکے گا کیونکہ گرڈ سٹیشن سے کئی میل فاصلے پر ہونے کی بنا پر اس علاقے کو بجلی کی فراہمی پر کئی گنا زیادہ لاگت درکار تھی لیکن شمسی توانائی سے بجلی کا حصول نسبتاً کئی گنا آسان اور کم قیمت ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی سال سے بجلی کے شدید بحران کا شکار ہے اور آئندہ آنے والے چند برسوں میں اس صورتحال کے مزید بھیانک ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے بجلی پیدا کرنے والے متبادل ذرائع کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شمسی توانائی پاکستان میں بڑے پیمانے پر بجلی کے بحران پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں اگر مقامی طور پر سولر پینلز کی تیاری کا کام عمل میں لایا جائے تو یہ نہایت موزوں ثابت ہو سکتا ہے۔ کم قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ عوام تک ان کی رسائی بھی قدرے آسان ہو گی۔
اگر سولر سیل بیرون ملک سے درآمد کیا جائے تو ایک عشاریہ بارہ والٹ کے ایک سولر سیل کی قیمت ایک یو ایس ڈالر ہے جبکہ پینل کے لئے زیادہ سولر سیلز کی ضرورت ہوتی ہے۔، اگر ہم پورے ملک کو بجلی کی فراہمی کے لئے سیلز درآمد کرتے ہیںتو یہ لاگت کروڑوں بلکہ اربوں روپے تک پہنچ جاتی ہے ۔ دوسری جانب خستہ حال معاشی صورتحال کے پیش نظر اتنے بڑے پیمانے پر سولر سیلز درآمد نہیں کئے جا سکتے۔ اس لئے ہمارے پاس مقامی طور پر سولر سیلز کی تیاری کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں خام مال، ہنرمندوں اور انفراسٹکچر پر توجہ دینا ضروری ہے۔
سولر سیلز اعلیٰ معیار کے سلیکون سے تیار کئے جاتے ہیں،جسے کوارٹزکہا جاتا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے اس قدرتی نعمت سے مالا مال ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خام مال کو صفائی کے عمل سے گزارنے کے بعد قابل استعمال بنایا جائے اور اس سے سولر سیلز کی تیاری کی جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات میں اس قیمتی دھات سے مقامی افراد گھروں کی تعمیر کرتے ہیں۔فرش پر بطور ماربل جبکہ دیواریں کھڑی کرنے کے لئے اینٹوں کی طور پر اس دھات کے ٹکڑے استعمال کئے جاتے ہیں۔ سولر سیلز کی تیاری میں دوسرا اہم خام مال ریت کے ذرات ہیں۔ جنہیں سلیکا بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی ایک بڑی مقدار دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ سولر سیلز کی تیاری میں استعمال ہونے والے دونوں بنیادی عناصر کے ذخائر ہمارے ملک میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سولر پینلز تیار کرنے والی صرف ایک فیکٹری قائم ہے۔ جو کہ اسلام آباد کے قریب حطار میں واقع ہے۔ لیکن اس فیکٹری میں سولر سیلز تیار نہیں کئے جاتے جس کی بنیادی وجہ ملک میں اعلی پائے کی مشینری اور افرادی قوت کی کمی ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال کی ایک بہترین مثال موٹروے پر دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں بذریعہ فون ہیلپ لائن کی فراہمی کےلئے کھمبوں کے ساتھ سولر پینلز نصب کئے گئے ہیں۔ ہر سولر پینلز کے نیچے ایک بیٹری بھی نصب ہے جو رات کے لئے بھی بجلی محفوظ کر لیتی ہے۔ موٹر وے پر نصب فون کا مکمل نظام شمسی توانائی کی مدد سے کام کر رہا ہے۔
دنیا بھر میں سورج کی روشنی سے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اسپین کے علاقے نیوررا میں بجلی کی ستر فی صد ضرورت کو شمسی توانائی اور پن بجلی کی مدد سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں کوئلے، گیس یا تیل سے ذخائر بالکل نہیں ہیں اس کے باوجود یہاں شمسی توانائی کے ذریعے بلا تعطل بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
یہ علاقہ متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کی بہترین مثال ہے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ایسے علاقے میں بجلی کی پیداوار ممکن ہے تو پاکستان میں بھی سنجیدگی کے ساتھ اس حوالے سے غور کر کے عمل درآمد کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
اگر پاکستان شمسی توانائی کے استعمال پر توجہ دے تو ہم دن میں براہ راست شمسی توانائی کا استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس طرح لوڈشیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی اور ملکی توانائی پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ یعنی رات کے وقت حکومتی بجلی استعمال کی جائے اور دن کے وقت شمسی توانائی سے کام چلایا جائے۔
آج کل آٹھ سے بارہ گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے حوالے سے کوئی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں میں اضافہ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اس وقت جہاں معاشی بحران اور دہشت گردی جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہے وہیں عوام کی زندگیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ سورج کی کرنیں خدا کا دیا ہواتحفہ ہیں جس سے پاکستانی عوام اپنے مسائل حل کر سکتی ہے۔
تحریر: سید محمد عابد
http://smabid.wordpress.com/2011/04/25/شمسی-توانائی-ایک-نعمت/
http://www.technologytimes.pk/2011/04/23/شمسی-توانائی-ایک-نعمت/
سولر تھرمل بجلی پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔ اس طریقے میں پانی کو بھاپ کی شکل دی جاتی ہے اور بھاپ کی مدد سے ٹربائنز کو چلایا جاتا ہے جس سے بجلی پید ہوتی ہے۔ گیس یا کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں میں حرارت آگ سے لی جاتی ہے جبکہ سولر تھرمل میں حرارت آگ کے بجائے براہ راست سورج سے حاصل کی جاتی ہے۔ اِس طریقے میں دھوپ کی شعاعوں کو ایک ہی نقطے پر مرکوز کرتے ہوئے کسی پائپ میں موجود مائع کو گرم کیا جاتا ہے۔ آج کل جو کھانا پکانے کے لئے شمسی چولہوں کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ سولر تھرمل طریقہ ہی ہے۔
شمسی بیٹریوں کو سائنسی اصطلاح میں فوٹو وولٹک (پی وی) کہا جاتا ہے۔ فوٹو کا مطلب روشنی اور وولٹک سے مراد بجلی ہے۔ فوٹو وولٹائی سیل وہ ایجادات ہیں جو سورج کی روشنی کو مکینکیل جنریٹروں اور تھرمو ڈائنامیک سائیکلز سے گزار کر بجلی میں تبدیل کرتی ہیں۔ فوٹو وولٹائی کا مطلب ہے، ایسی روشنی جو بجلی میں تبدیل ہو جائے اس عمل میں سورج کی روشنی میں شامل فوٹونز سیلی کونز کے آزاد الیکٹرانز کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
کسی بھی عام آدمی کے لئے یہ بات قابل غور ہے کہ سورج کی روشنی سے توانائی کا حصول کیسے کیا جاتا ہے۔ شمسی توانائی سے توانائی کے حصول کے لئے بنیادی عنصر سولر سیل کہلاتا ہے۔ جب سورج کی شعاعیں پینل پر پڑتی ہیں تو سولر سیل کے ذریعے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک سولر پینل بیس سے پچیس برس کے لئے کارآمد ہو سکتا ہے۔ سولر پی وی کی مزید اقسام میں جن میں تھن فلم، کنسنٹریٹڈ اور ایکٹو سولر انرجی شامل ہیں۔
تھن فلم سولر سیل کو تھن فلم فوٹو وولٹک بھی کہا جاتا ہے۔ تھن فلم سولر سیل کو ایک یا ایک سے زیادہ فوٹو وولٹک مواد کی پتلی تہوں کو جمع کر کے بنایا جاتا ہے اور یہ شمسی توانائی کو بجلی بنا کر اپنے اندر محفو ظ کر لیتی ہیں۔ اس طرح کی بیٹری توانائی کی کم مقدار کو محفوظ کرتی ہے مگر اس کا سامان پاکستان میں کم قیمت پر دستیاب ہے۔ سلیکون تھن فلم بیٹری کے لئے ایمورپھس، پروٹو کرسٹلائن، نینو کرسٹیلائن اور بلیک سلیکون استعمال ہوتا ہے۔ تھن فلم بیٹریز کا وزن کم ہوتا ہے اس لئے ان بیٹریز کو باآسانی بڑی بڑی عمارتوں کی چھت پر لگایا جاتا ہے۔
کنسنٹریٹڈ سولر سسٹم میں لینز اور شیشوں کی مدد سے سورج کی توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ جب سورج کی کرنیں توانائی میں تبدیل ہوتی ہیں تو یہ سٹم ٹربائن یا برقی توانائی کے جنریٹر کو چلاتی ہیں اور برقی توانائی پیدا ہوتی ہے۔
آج کے دور میں کھانا پکانے، پانی گرم کرنے، مکانوں کو ٹھنڈا یا گرم رکھنے یا پھر پھلوں کو سکھانا ہو؛ ان تمام کاموں کےلئے شمسی تونائی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ جب سورج کی یہ کرنیں سٹیم ٹربائن کا استعمال کئے بغیر شمسی توانائی میںتبدیل ہو جاتی ہیں تو اسے کنسنٹریٹڈ فوٹو وولٹک (سی پی وی) کہا جاتا ہے۔ کنسنٹریٹڈ ٹیکنولوجی چار شکلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ان میں ڈش، ریفلیکٹر،شمسی ٹاور اور پائپوں سے شمسی توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ اس طرح کے سسٹم گرم علاقوں میں لگائے جاتے ہیں جہاں تیز دھوپ ہو۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کی عوام بجلی کے بحران میں الجھی ہوئی ہے اور پر قابو پانے کے لئے ہمیں ایسی توانائی استعمال کرنی ہو گی جوملکی توانائی کی بچت بھی کرے اور عوام کو بلا تعطل توانائی کی فراہمی بھی ممکن ہو شمسی توانائی اس اعتبار سے بہترین ہے۔ پاکستان میں بجلی کے حصول کے متبادل ذرائع کے لئے حکومت پاکستان کے خصوصی بورڈ نے گزشتہ چند برسوں میں ملک بھر میں متعدد دیہاتوں میں سولر پلانٹ نصب کئے ہیں۔ جن میں راولپنڈی، تربت، ڈیرہ غازی خان ، قلات،قلعہ سیف ، چیچر، گجرات کے نام معروف ہیں۔ پاکستان میں سب سے برا مسئلہ جس کی وجہ سے توانائی کے مسائل قابو نہیں ہو پاتے وہ یہ ہے کہ حکومت ایک دفعہ شمسی پینلز تو نصب کر دیتی ہے مگر پھر دوبارہ ان پینلز کی طرف توجہ نہیں دیتی جس سے وہ خراب ہو جاتے ہیں۔
توانائی کی کمی ، قدرتی ذخائر ، پٹرول ، بجلی اور گیس کی شکل میں اس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر 2004ءمیں حکومت پاکستان نے متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت دور دراز دیہاتوں کے لئے سورج کی روشنی اور صنعتوں کے لیے ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمدشروع کیا گیا۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کے اس منصوبے کا آغاز ملک میں متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول کےلئے حکومتی سطح پر ایک ادارہ الٹرنیٹیو انرجی ڈیویلپمنٹ بورڈ (اے ای ڈی ای بی) قائم کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد ملک میں متبادل توانائی کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔
اسلام آباد سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاﺅں ناریاں کھوریاں میں سو سولر پینلز نصب کئے گئے ہیں۔ ایک مقامی فرم نے یہ شمسی توانائی پیدا کرنے کے آلات بلا معاوضہ نصب کئے ہیں تاکہ ملک میں شمسی توانائی کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ ان ایک سو شمسی پینلز کی تنصیب کے بعد اس گاﺅں کے ایک سو سے زائد گھروں کو بجلی کی سہولت میسر آچکی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ انہیںامید نہیں تھی کہ ان کے علاقے میں کبھی اس طرح بجلی کا حصول ممکن بنایا جاسکے گا کیونکہ گرڈ سٹیشن سے کئی میل فاصلے پر ہونے کی بنا پر اس علاقے کو بجلی کی فراہمی پر کئی گنا زیادہ لاگت درکار تھی لیکن شمسی توانائی سے بجلی کا حصول نسبتاً کئی گنا آسان اور کم قیمت ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی سال سے بجلی کے شدید بحران کا شکار ہے اور آئندہ آنے والے چند برسوں میں اس صورتحال کے مزید بھیانک ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے بجلی پیدا کرنے والے متبادل ذرائع کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شمسی توانائی پاکستان میں بڑے پیمانے پر بجلی کے بحران پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں اگر مقامی طور پر سولر پینلز کی تیاری کا کام عمل میں لایا جائے تو یہ نہایت موزوں ثابت ہو سکتا ہے۔ کم قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ عوام تک ان کی رسائی بھی قدرے آسان ہو گی۔
اگر سولر سیل بیرون ملک سے درآمد کیا جائے تو ایک عشاریہ بارہ والٹ کے ایک سولر سیل کی قیمت ایک یو ایس ڈالر ہے جبکہ پینل کے لئے زیادہ سولر سیلز کی ضرورت ہوتی ہے۔، اگر ہم پورے ملک کو بجلی کی فراہمی کے لئے سیلز درآمد کرتے ہیںتو یہ لاگت کروڑوں بلکہ اربوں روپے تک پہنچ جاتی ہے ۔ دوسری جانب خستہ حال معاشی صورتحال کے پیش نظر اتنے بڑے پیمانے پر سولر سیلز درآمد نہیں کئے جا سکتے۔ اس لئے ہمارے پاس مقامی طور پر سولر سیلز کی تیاری کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں خام مال، ہنرمندوں اور انفراسٹکچر پر توجہ دینا ضروری ہے۔
سولر سیلز اعلیٰ معیار کے سلیکون سے تیار کئے جاتے ہیں،جسے کوارٹزکہا جاتا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے اس قدرتی نعمت سے مالا مال ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خام مال کو صفائی کے عمل سے گزارنے کے بعد قابل استعمال بنایا جائے اور اس سے سولر سیلز کی تیاری کی جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات میں اس قیمتی دھات سے مقامی افراد گھروں کی تعمیر کرتے ہیں۔فرش پر بطور ماربل جبکہ دیواریں کھڑی کرنے کے لئے اینٹوں کی طور پر اس دھات کے ٹکڑے استعمال کئے جاتے ہیں۔ سولر سیلز کی تیاری میں دوسرا اہم خام مال ریت کے ذرات ہیں۔ جنہیں سلیکا بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی ایک بڑی مقدار دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ سولر سیلز کی تیاری میں استعمال ہونے والے دونوں بنیادی عناصر کے ذخائر ہمارے ملک میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سولر پینلز تیار کرنے والی صرف ایک فیکٹری قائم ہے۔ جو کہ اسلام آباد کے قریب حطار میں واقع ہے۔ لیکن اس فیکٹری میں سولر سیلز تیار نہیں کئے جاتے جس کی بنیادی وجہ ملک میں اعلی پائے کی مشینری اور افرادی قوت کی کمی ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال کی ایک بہترین مثال موٹروے پر دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں بذریعہ فون ہیلپ لائن کی فراہمی کےلئے کھمبوں کے ساتھ سولر پینلز نصب کئے گئے ہیں۔ ہر سولر پینلز کے نیچے ایک بیٹری بھی نصب ہے جو رات کے لئے بھی بجلی محفوظ کر لیتی ہے۔ موٹر وے پر نصب فون کا مکمل نظام شمسی توانائی کی مدد سے کام کر رہا ہے۔
دنیا بھر میں سورج کی روشنی سے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اسپین کے علاقے نیوررا میں بجلی کی ستر فی صد ضرورت کو شمسی توانائی اور پن بجلی کی مدد سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں کوئلے، گیس یا تیل سے ذخائر بالکل نہیں ہیں اس کے باوجود یہاں شمسی توانائی کے ذریعے بلا تعطل بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
یہ علاقہ متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کی بہترین مثال ہے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ایسے علاقے میں بجلی کی پیداوار ممکن ہے تو پاکستان میں بھی سنجیدگی کے ساتھ اس حوالے سے غور کر کے عمل درآمد کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
اگر پاکستان شمسی توانائی کے استعمال پر توجہ دے تو ہم دن میں براہ راست شمسی توانائی کا استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس طرح لوڈشیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی اور ملکی توانائی پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ یعنی رات کے وقت حکومتی بجلی استعمال کی جائے اور دن کے وقت شمسی توانائی سے کام چلایا جائے۔
آج کل آٹھ سے بارہ گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے حوالے سے کوئی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں میں اضافہ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اس وقت جہاں معاشی بحران اور دہشت گردی جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہے وہیں عوام کی زندگیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ سورج کی کرنیں خدا کا دیا ہواتحفہ ہیں جس سے پاکستانی عوام اپنے مسائل حل کر سکتی ہے۔
تحریر: سید محمد عابد
http://smabid.wordpress.com/2011/04/25/شمسی-توانائی-ایک-نعمت/
http://www.technologytimes.pk/2011/04/23/شمسی-توانائی-ایک-نعمت/