شمسی توانائی خدا کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، دھوپ سے حاصل ہونے والی توانائی سولر انرجی یا شمسی توانائی کہلاتی ہے۔ دھوپ کی گرمی کو پانی سے بھاپ تیار کرکے جنریٹر چلانے اور بجلی بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سورج اپنی توانائی ایکسرے سے لے کر ریڈیو ویو کے ہر ویو لینتھ پر منعکس کرتا ہے۔ اسپکٹرم کے چالیس فیصد حصے پر یہ توانائی نظر آتی ہے اور پچاس فیصد شمسی توانائی انفرا ریڈ اور بقیہ الٹرا وائلٹ کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم جس چیز کی طلب کررہے ہوتے ہیں وہ ہمارے پاس ہی ہوتی ہے مگر اس کی طرف دیر سے متوجہ ہوتے ہیں۔ شمسی توانائی بھی انہی چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔اگر ہم آج سے دو چار سال پہلے ہی شمسی توانائی سے بجلی کے حصول پر کام شروع کر دیتے تو دور حاضر میں بجلی کے بحران کا شکار نہ ہوتے۔ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں ہوتا ہے جہاں سورج کی کرنیں زیادہ دیر تک پڑتی ہیں۔ پاکستان سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں ڈھائی سو سے لے کر تین سو بیس دنوں تک سورج کی دھوپ سے توانائی کی پیداوار کو یقینی بنا سکتا ہے۔ سورج کی کرنیں قدرت کا وہ عطیہ ہیںجو توانائی کے حصول کے لئے مفید ہیں۔ دیگر ذرائع سے حاصل توانائی کے مقابلے میں سورج کی کرنوںسے چھتیس گنا زیادہ توانائی حاصل ہوسکتی ہے، شمسی توانائی کے بغیر زمین پر زندگی ممکن نہیں۔ دنیا میں شمسی توانائی کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ان دو اقسام میں سولر تھرمل اور سولر فوٹو وولٹائی (سولر پی وی) شامل ہیں۔۔۔
سولر تھرمل بجلی پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔ اس طریقے میں پانی کو بھاپ کی شکل دی جاتی ہے اور بھاپ کی مدد سے ٹربائنز کو چلایا جاتا ہے جس سے بجلی پید ہوتی ہے۔ گیس یا کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں میں حرارت آگ سے لی جاتی ہے جبکہ سولر تھرمل میں حرارت آگ کے بجائے براہ راست سورج سے حاصل کی جاتی ہے۔ اِس طریقے میں دھوپ کی شعاعوں کو ایک ہی نقطے پر مرکوز کرتے ہوئے کسی پائپ میں موجود مائع کو گرم کیا جاتا ہے۔ آج کل جو کھانا پکانے کے لئے شمسی چولہوں کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ سولر تھرمل طریقہ ہی ہے۔
شمسی بیٹریوں کو سائنسی اصطلاح میں فوٹو وولٹک (پی وی) کہا جاتا ہے۔ فوٹو کا مطلب روشنی اور وولٹک سے مراد بجلی ہے۔ فوٹو وولٹائی سیل وہ ایجادات ہیں جو سورج کی روشنی کو مکینکیل جنریٹروں اور تھرمو ڈائنامیک سائیکلز سے گزار کر بجلی میں تبدیل کرتی ہیں۔ فوٹو وولٹائی کا مطلب ہے، ایسی روشنی جو بجلی میں تبدیل ہو جائے اس عمل میں سورج کی روشنی میں شامل فوٹونز سیلی کونز کے آزاد الیکٹرانز کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
کسی بھی عام آدمی کے لئے یہ بات قابل غور ہے کہ سورج کی روشنی سے توانائی کا حصول کیسے کیا جاتا ہے۔ شمسی توانائی سے توانائی کے حصول کے لئے بنیادی عنصر سولر سیل کہلاتا ہے۔ جب سورج کی شعاعیں پینل پر پڑتی ہیں تو سولر سیل کے ذریعے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک سولر پینل بیس سے پچیس برس کے لئے کارآمد ہو سکتا ہے۔ سولر پی وی کی مزید اقسام میں جن میں تھن فلم، کنسنٹریٹڈ اور ایکٹو سولر انرجی شامل ہیں۔
تھن فلم سولر سیل کو تھن فلم فوٹو وولٹک بھی کہا جاتا ہے۔ تھن فلم سولر سیل کو ایک یا ایک سے زیادہ فوٹو وولٹک مواد کی پتلی تہوں کو جمع کر کے بنایا جاتا ہے اور یہ شمسی توانائی کو بجلی بنا کر اپنے اندر محفو ظ کر لیتی ہیں۔ اس طرح کی بیٹری توانائی کی کم مقدار کو محفوظ کرتی ہے مگر اس کا سامان پاکستان میں کم قیمت پر دستیاب ہے۔ سلیکون تھن فلم بیٹری کے لئے ایمورپھس، پروٹو کرسٹلائن، نینو کرسٹیلائن اور بلیک سلیکون استعمال ہوتا ہے۔ تھن فلم بیٹریز کا وزن کم ہوتا ہے اس لئے ان بیٹریز کو باآسانی بڑی بڑی عمارتوں کی چھت پر لگایا جاتا ہے۔
کنسنٹریٹڈ سولر سسٹم میں لینز اور شیشوں کی مدد سے سورج کی توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ جب سورج کی کرنیں توانائی میں تبدیل ہوتی ہیں تو یہ سٹم ٹربائن یا برقی توانائی کے جنریٹر کو چلاتی ہیں اور برقی توانائی پیدا ہوتی ہے۔
آج کے دور میں کھانا پکانے، پانی گرم کرنے، مکانوں کو ٹھنڈا یا گرم رکھنے یا پھر پھلوں کو سکھانا ہو؛ ان تمام کاموں کےلئے شمسی تونائی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ جب سورج کی یہ کرنیں سٹیم ٹربائن کا استعمال کئے بغیر شمسی توانائی میںتبدیل ہو جاتی ہیں تو اسے کنسنٹریٹڈ فوٹو وولٹک (سی پی وی) کہا جاتا ہے۔ کنسنٹریٹڈ ٹیکنولوجی چار شکلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ان میں ڈش، ریفلیکٹر،شمسی ٹاور اور پائپوں سے شمسی توانائی پیدا کی جاتی ہے۔ اس طرح کے سسٹم گرم علاقوں میں لگائے جاتے ہیں جہاں تیز دھوپ ہو۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کی عوام بجلی کے بحران میں الجھی ہوئی ہے اور پر قابو پانے کے لئے ہمیں ایسی توانائی استعمال کرنی ہو گی جوملکی توانائی کی بچت بھی کرے اور عوام کو بلا تعطل توانائی کی فراہمی بھی ممکن ہو شمسی توانائی اس اعتبار سے بہترین ہے۔ پاکستان میں بجلی کے حصول کے متبادل ذرائع کے لئے حکومت پاکستان کے خصوصی بورڈ نے گزشتہ چند برسوں میں ملک بھر میں متعدد دیہاتوں میں سولر پلانٹ نصب کئے ہیں۔ جن میں راولپنڈی، تربت، ڈیرہ غازی خان ، قلات،قلعہ سیف ، چیچر، گجرات کے نام معروف ہیں۔ پاکستان میں سب سے برا مسئلہ جس کی وجہ سے توانائی کے مسائل قابو نہیں ہو پاتے وہ یہ ہے کہ حکومت ایک دفعہ شمسی پینلز تو نصب کر دیتی ہے مگر پھر دوبارہ ان پینلز کی طرف توجہ نہیں دیتی جس سے وہ خراب ہو جاتے ہیں۔
توانائی کی کمی ، قدرتی ذخائر ، پٹرول ، بجلی اور گیس کی شکل میں اس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر 2004ءمیں حکومت پاکستان نے متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت دور دراز دیہاتوں کے لئے سورج کی روشنی اور صنعتوں کے لیے ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عمل درآمدشروع کیا گیا۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کے اس منصوبے کا آغاز ملک میں متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول کےلئے حکومتی سطح پر ایک ادارہ الٹرنیٹیو انرجی ڈیویلپمنٹ بورڈ (اے ای ڈی ای بی) قائم کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد ملک میں متبادل توانائی کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔
اسلام آباد سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاﺅں ناریاں کھوریاں میں سو سولر پینلز نصب کئے گئے ہیں۔ ایک مقامی فرم نے یہ شمسی توانائی پیدا کرنے کے آلات بلا معاوضہ نصب کئے ہیں تاکہ ملک میں شمسی توانائی کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ ان ایک سو شمسی پینلز کی تنصیب کے بعد اس گاﺅں کے ایک سو سے زائد گھروں کو بجلی کی سہولت میسر آچکی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا تھا کہ انہیںامید نہیں تھی کہ ان کے علاقے میں کبھی اس طرح بجلی کا حصول ممکن بنایا جاسکے گا کیونکہ گرڈ سٹیشن سے کئی میل فاصلے پر ہونے کی بنا پر اس علاقے کو بجلی کی فراہمی پر کئی گنا زیادہ لاگت درکار تھی لیکن شمسی توانائی سے بجلی کا حصول نسبتاً کئی گنا آسان اور کم قیمت ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی سال سے بجلی کے شدید بحران کا شکار ہے اور آئندہ آنے والے چند برسوں میں اس صورتحال کے مزید بھیانک ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے بجلی پیدا کرنے والے متبادل ذرائع کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شمسی توانائی پاکستان میں بڑے پیمانے پر بجلی کے بحران پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں اگر مقامی طور پر سولر پینلز کی تیاری کا کام عمل میں لایا جائے تو یہ نہایت موزوں ثابت ہو سکتا ہے۔ کم قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ عوام تک ان کی رسائی بھی قدرے آسان ہو گی۔
اگر سولر سیل بیرون ملک سے درآمد کیا جائے تو ایک عشاریہ بارہ والٹ کے ایک سولر سیل کی قیمت ایک یو ایس ڈالر ہے جبکہ پینل کے لئے زیادہ سولر سیلز کی ضرورت ہوتی ہے۔، اگر ہم پورے ملک کو بجلی کی فراہمی کے لئے سیلز درآمد کرتے ہیںتو یہ لاگت کروڑوں بلکہ اربوں روپے تک پہنچ جاتی ہے ۔ دوسری جانب خستہ حال معاشی صورتحال کے پیش نظر اتنے بڑے پیمانے پر سولر سیلز درآمد نہیں کئے جا سکتے۔ اس لئے ہمارے پاس مقامی طور پر سولر سیلز کی تیاری کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں خام مال، ہنرمندوں اور انفراسٹکچر پر توجہ دینا ضروری ہے۔
سولر سیلز اعلیٰ معیار کے سلیکون سے تیار کئے جاتے ہیں،جسے کوارٹزکہا جاتا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے اس قدرتی نعمت سے مالا مال ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خام مال کو صفائی کے عمل سے گزارنے کے بعد قابل استعمال بنایا جائے اور اس سے سولر سیلز کی تیاری کی جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات میں اس قیمتی دھات سے مقامی افراد گھروں کی تعمیر کرتے ہیں۔فرش پر بطور ماربل جبکہ دیواریں کھڑی کرنے کے لئے اینٹوں کی طور پر اس دھات کے ٹکڑے استعمال کئے جاتے ہیں۔ سولر سیلز کی تیاری میں دوسرا اہم خام مال ریت کے ذرات ہیں۔ جنہیں سلیکا بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی ایک بڑی مقدار دریائے سندھ میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ سولر سیلز کی تیاری میں استعمال ہونے والے دونوں بنیادی عناصر کے ذخائر ہمارے ملک میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سولر پینلز تیار کرنے والی صرف ایک فیکٹری قائم ہے۔ جو کہ اسلام آباد کے قریب حطار میں واقع ہے۔ لیکن اس فیکٹری میں سولر سیلز تیار نہیں کئے جاتے جس کی بنیادی وجہ ملک میں اعلی پائے کی مشینری اور افرادی قوت کی کمی ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال کی ایک بہترین مثال موٹروے پر دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں بذریعہ فون ہیلپ لائن کی فراہمی کےلئے کھمبوں کے ساتھ سولر پینلز نصب کئے گئے ہیں۔ ہر سولر پینلز کے نیچے ایک بیٹری بھی نصب ہے جو رات کے لئے بھی بجلی محفوظ کر لیتی ہے۔ موٹر وے پر نصب فون کا مکمل نظام شمسی توانائی کی مدد سے کام کر رہا ہے۔
دنیا بھر میں سورج کی روشنی سے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اسپین کے علاقے نیوررا میں بجلی کی ستر فی صد ضرورت کو شمسی توانائی اور پن بجلی کی مدد سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں کوئلے، گیس یا تیل سے ذخائر بالکل نہیں ہیں اس کے باوجود یہاں شمسی توانائی کے ذریعے بلا تعطل بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
یہ علاقہ متبادل ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کی بہترین مثال ہے۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ایسے علاقے میں بجلی کی پیداوار ممکن ہے تو پاکستان میں بھی سنجیدگی کے ساتھ اس حوالے سے غور کر کے عمل درآمد کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
اگر پاکستان شمسی توانائی کے استعمال پر توجہ دے تو ہم دن میں براہ راست شمسی توانائی کا استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس طرح لوڈشیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی اور ملکی توانائی پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ یعنی رات کے وقت حکومتی بجلی استعمال کی جائے اور دن کے وقت شمسی توانائی سے کام چلایا جائے۔
آج کل آٹھ سے بارہ گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے حوالے سے کوئی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں میں اضافہ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اس وقت جہاں معاشی بحران اور دہشت گردی جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہے وہیں عوام کی زندگیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ سورج کی کرنیں خدا کا دیا ہواتحفہ ہیں جس سے پاکستانی عوام اپنے مسائل حل کر سکتی ہے۔

تحریر: سید محمد عابد

http://smabid.wordpress.com/2011/04/25/شمسی-توانائی-ایک-نعمت/

http://www.technologytimes.pk/2011/04/23/شمسی-توانائی-ایک-نعمت/
 

میم نون

محفلین
بہت اچھی کاوش ہے ماشاء اللہ۔

لیکن اسمیں کچھ باتوں کی وضاحت ضروری ہے

اگر ہم آج سے دو چار سال پہلے ہی شمسی توانائی سے بجلی کے حصول پر کام شروع کر دیتے تو دور حاضر میں بجلی کے بحران کا شکار نہ ہوتے

صرف شمسی توانائی پاکستان کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی بلکہ اس سے ہماری ضرورت کا بہت تھوڑا حصہ پورا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی تقریبا اتنی ہی مہنگی ہے جتنی کہ ایٹمی توانائی اور اسکی بنیادی وجہ وہی ہے جو آپ نے بتائی ہے یعنی ہمیں سولر پینل باہر سے درآمد کرنا پڑیں گی۔


دیگر ذرائع سے حاصل توانائی کے مقابلے میں سورج کی کرنوںسے چھتیس گنا زیادہ توانائی حاصل ہوسکتی ہے،

یہ آپ کس حساب سے بتا رہے ہیں؟

جتنی بجلی ایک بہتی ہوئی نہر پر چند ایک ٹربائنیں لگا کر پیدا کی جا سکتی ہے اتنی ہی بجلی پیدا کرنے کے لئیے شائد سینکڑوں مربع میٹر پر سولر پینل لگانے پڑیں۔
اور کوئلے اور ایٹمی بجلی کی تو بات ہی نا کریں۔

میں متبادل ذرائع کے حق میں ہوں لیکن صرف انھیں سے پاکستان کی توانائی کی ضرورت کبھی پوری نہیں کی جا سکتی، اگر توانائی کی کمی کو پورا کرنا ہے تو تمام تر ذرائع کو استعمال میں لانا ہو گا، جن میں اہم: پن بجلی، کوئلے سے توانائی اور ایٹمی توانائی ہیں، شمسی، ہوا اور دوسرے متبادل ذرائع آخر میں آتے ہیں کیونکہ ان سے ہماری ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔
 
بہت اچھی کاوش ہے ماشاء اللہ۔

لیکن اسمیں کچھ باتوں کی وضاحت ضروری ہے



صرف شمسی توانائی پاکستان کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی بلکہ اس سے ہماری ضرورت کا بہت تھوڑا حصہ پورا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی تقریبا اتنی ہی مہنگی ہے جتنی کہ ایٹمی توانائی اور اسکی بنیادی وجہ وہی ہے جو آپ نے بتائی ہے یعنی ہمیں سولر پینل باہر سے درآمد کرنا پڑیں گی۔




یہ آپ کس حساب سے بتا رہے ہیں؟

جتنی بجلی ایک بہتی ہوئی نہر پر چند ایک ٹربائنیں لگا کر پیدا کی جا سکتی ہے اتنی ہی بجلی پیدا کرنے کے لئیے شائد سینکڑوں مربع میٹر پر سولر پینل لگانے پڑیں۔
اور کوئلے اور ایٹمی بجلی کی تو بات ہی نا کریں۔

میں متبادل ذرائع کے حق میں ہوں لیکن صرف انھیں سے پاکستان کی توانائی کی ضرورت کبھی پوری نہیں کی جا سکتی، اگر توانائی کی کمی کو پورا کرنا ہے تو تمام تر ذرائع کو استعمال میں لانا ہو گا، جن میں اہم: پن بجلی، کوئلے سے توانائی اور ایٹمی توانائی ہیں، شمسی، ہوا اور دوسرے متبادل ذرائع آخر میں آتے ہیں کیونکہ ان سے ہماری ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔

آپ نے درست کہا کہ شمسی توانائی دوسری توانائی کے مقابلے میں مہنگی ہے اور یہ توانائی کی مقدار بھی کم پیدا کرتی ہے مگر اس سسٹم کو لگوانے میں صرف ایک بار کا خرچا ہوتا ہے اور پھر بیس سے پچیس سالوں کے لئے چھٹکارا۔۔اسی لئے شمسی توانائی پر زور دیا گیا ہے
شمسی توانائی پینل گھروں میں یو پی ایس کی طرح لگانے سے بجلی کے کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اسی بات پر میں نے زور دیا ہے۔۔۔۔
 

میم نون

محفلین
یہی تو اس میں خامی ہے، یعنی مہنگی بجلی پیدا ہوتی ہے، کم مقدار میں، اور سارے پیسے پہلے ہی لگانے پڑتے ہیں۔

دوسری طرف کوئلے کو دیکھیں، پہلے صرف پلانٹ اور انفراسٹرکچر بنانے کا خرچہ کرنا ہے اور بعد میں مائننگ اور ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ استعمال کے لحاظ سے ہونا ہے، کوئلہ بلکل مفت، اللہ کے فضل سے پاکستان کے پاس بہت ہے۔

پن بجلی کا بھی یہی حساب ہے۔
ایٹمی ریکٹرز سے زیادہ مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

لیکن اسکے ساتھ ہی متبادل ذرائع بھی استعمال کرنے چاہئیں، جیسا کہ: ہوا، سورج اور بائیو ماساز۔
ان متبادل ذرائع سے یہ فائدہ لیا جا سکتا ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں جہاں ٹرانسمشن لائن لے جانے پر بہت خرچہ ہوتا ہے، وہاں پر انکو زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے۔
 
یہی تو اس میں خامی ہے، یعنی مہنگی بجلی پیدا ہوتی ہے، کم مقدار میں، اور سارے پیسے پہلے ہی لگانے پڑتے ہیں۔

دوسری طرف کوئلے کو دیکھیں، پہلے صرف پلانٹ اور انفراسٹرکچر بنانے کا خرچہ کرنا ہے اور بعد میں مائننگ اور ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ استعمال کے لحاظ سے ہونا ہے، کوئلہ بلکل مفت، اللہ کے فضل سے پاکستان کے پاس بہت ہے۔

پن بجلی کا بھی یہی حساب ہے۔
ایٹمی ریکٹرز سے زیادہ مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

لیکن اسکے ساتھ ہی متبادل ذرائع بھی استعمال کرنے چاہئیں، جیسا کہ: ہوا، سورج اور بائیو ماساز۔
ان متبادل ذرائع سے یہ فائدہ لیا جا سکتا ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں جہاں ٹرانسمشن لائن لے جانے پر بہت خرچہ ہوتا ہے، وہاں پر انکو زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے۔

آپ نے درست کہا کہ پاکستان کے پاس کوئلہ بہت ہے اور شمسی توانائی کے علاوہ دیگر متبادل کا بھی استعمال ضروری ہے۔۔۔ مگر اس بات میں بھی کافی صداقت ہے کہ گھروں میں شمسی پلانٹس لگانے کے بعد یوپی ایس اور اس کی بیٹریوں کے ہر ایک سال بعد دوبارہ خرچے اور بجلی کے مسائل پر بیس سے پچیس سال کے لئے قابو پایا جا سکتا ہے۔
کوئلے کا ذخیرہ پاکستان میں بہت ہے اور ہوا تو خدا کا دیا ہوا تحفہ ہے ان ذرائع سے بھی توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔۔مگر ان ذرائع کو استعمال کرنے کے لئے بڑے پیداواری یونٹ کی تعمیر کی ضرورت ہے جس کے لئے ایک لمبی مدت درکار ہے جبکہ شمسی پلانٹ فری لگایا جا سکتا ہے۔
 

دوست

محفلین
شمسی توانائی کو سٹور کرنا پڑتا ہے۔ سال کے سال اس کی بیٹریاں بھی بدلنی پڑا کریں گی۔ اور بیس پچیس سال کے بعد سولر پینلز دوبارہ لگوانے پڑیں گے کہ پرانے خراب ہوجاتے ہیں۔
 

میم نون

محفلین
آپ نے درست کہا کہ پاکستان کے پاس کوئلہ بہت ہے اور شمسی توانائی کے علاوہ دیگر متبادل کا بھی استعمال ضروری ہے۔۔۔ مگر اس بات میں بھی کافی صداقت ہے کہ گھروں میں شمسی پلانٹس لگانے کے بعد یوپی ایس اور اس کی بیٹریوں کے ہر ایک سال بعد دوبارہ خرچے اور بجلی کے مسائل پر بیس سے پچیس سال کے لئے قابو پایا جا سکتا ہے۔
کوئلے کا ذخیرہ پاکستان میں بہت ہے اور ہوا تو خدا کا دیا ہوا تحفہ ہے ان ذرائع سے بھی توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔۔مگر ان ذرائع کو استعمال کرنے کے لئے بڑے پیداواری یونٹ کی تعمیر کی ضرورت ہے جس کے لئے ایک لمبی مدت درکار ہے جبکہ شمسی پلانٹ فری لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں پانچ پانچ کلو واٹ کے لئیے سولر پینل اور دوسرے سارے نظام کا کتنا خرچہ آ جاتا ہے؟

اور اگر حکومت 100 میگا واٹ کا شمسی توانائی کا پلانٹ لگانا چاہے تو کتنا خرچہ کرنا پڑتا ہے؟

یہاں پر (اٹلی میں) اور عالمی مارکیٹ میں شمسی توانائی کی پیدا وار سب سے زیادہ مہنگی پڑتی ہے، یہاں تک کہ ایٹمی توانائی بھی اس سے سستی ہے۔
اور کوئلے اور پانی سے بجلی سب سے زیادہ سستی پڑتی ہے۔
 

فخرنوید

محفلین
پاکستان میں پانچ پانچ کلو واٹ کے لئیے سولر پینل اور دوسرے سارے نظام کا کتنا خرچہ آ جاتا ہے؟

اور اگر حکومت 100 میگا واٹ کا شمسی توانائی کا پلانٹ لگانا چاہے تو کتنا خرچہ کرنا پڑتا ہے؟

یہاں پر (اٹلی میں) اور عالمی مارکیٹ میں شمسی توانائی کی پیدا وار سب سے زیادہ مہنگی پڑتی ہے، یہاں تک کہ ایٹمی توانائی بھی اس سے سستی ہے۔
اور کوئلے اور پانی سے بجلی سب سے زیادہ سستی پڑتی ہے۔
شکریہ یہ بات بتانے کا اس کا مطلب ہے کہ اب میں شمسی توانائی کو چھوڑ کر ایٹمی توانائی کو استعمال کر کے الیکٹریسٹی پیدا کر لوں ۔ کیونکہ یہ سستی ہے۔
ایٹمی ری ایکٹر کہاں سے اور کتنے میں مل جائے گا؟
2 کلو واٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے کونسا ایٹمی ری ایکٹر بہتر رہے گا؟
اس ایٹمی ری ایکٹر اور اس کے ساتھ چلائے جانے والے جنریٹر کی کیا لاگت اور پائیداری ہو گی؟

برائے مہربانی تفصیل ہذا سے آگاہ کر دیں۔
 

میم نون

محفلین
محترم جناب فخر نوید صاحب، السلامُ علیکم۔

میں ہمیشہ وہی بات کرتا ہوں جسکا مجھے علم ہو، جس بات کا مجھے پتہ نہ ہو اسے کرنے سے پرہیز کرتا ہوں۔ اور اگر کبھی کوئی بات کہہ دوں جو کہ غلط ثابت ہو تو اپنی غلطی ماننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

ہو سکتا ہے کہ آپکے پاس پانچ دس لاکھ روپے ہوں اور آپ اپنے گھر میں سولر پینل لگا سکتے ہوں، لیکن پاکستان کی اکثریت ایسا نہیں کر سکتی۔ (پاکستان میں سولر پینل کی درست لاگت کا معلوم نہیں اسی لئیے پوچھا تھا)

یہاں پر بات حکومتی سطح کی ہو رہی ہے نا کہ گھریلو صارفین کی۔
جیسے کہ میں نے پانی اور کوئلے کی بات بھی کی ہے اور یقینا یہ بھی ایسے ذرائع ہیں جو کہ حکومتی سطح پر استعمال کئیے جا سکتے ہیں۔

اس ربط پر آپکو ایک اندازہ مل جائے گا کہ کونسا سورس استعمال کرنے سے کتنی لاگت آتی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Cost_of_electricity_by_source
اور سولر سب سے مہنگی ہے۔

میں کوئی ماہر نہیں ہوں صرف اپنی معلومات کی حد تک بات کرتا ہوں، اگر آپ اس فیلڈ کے ماہر ہیں یا آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے کوئی ایسی بات کی ہے جو کہ درست نہیں تو براہ مہربانی بات کا تمسخر اڑانے کی بجائے اپنی معلومات کو شئیر کریں تاکہ مجھ جیسے کم علم لوگ کے علم میں اضافہ ہو۔

والسلام
 
Top