شمع جلتی تھی پروانہ نہیں تھا


شمع جلتی تھی پروانہ نہیں تھا
تیری محفل میں دیوانہ نہیں تھا

بڑھایا ہاتھ اُسنے دوستی کا
مگر لہجہ شریفانہ نہیں تھا

یہ اچھا ہے کہ رہبر تھک گئے ہیں
ہمیں آ گے کہیں جانا نہیں تھا

میرے آنگن میں کیوں ہے گدھ یہ بیٹھے
میرا گھر کوئ ویرانہ نہیں تھا

ارے لوگو خدا کا خوف کھاوُ
شہر میرا ذبح خانہ نہیں تھا

امیر شہر کو مجھ سے گلہ ہے
میرا لہجہ فقیرانہ نہیں تھا

کوئ بولا نہیں ہے میرے حق میں
کسی نے مجھ کو پہچانا نہیں تھا

میں کیو نکر چوم لیتا دستِ واعظ
وہ مسجد تھی صنم خانہ نہیں تھا

کوئ میرے لئے بھی جان دیتا
کسی سے اتنا یارانہ نہیں تھا

محبت میں سیاست کیسے کرتا
کوئ اِتنا بھی میں دانا نہیں تھا

وہ رستہ دیکھتی رہتی تھی ہر دم
مگر بیٹے کو گھر آنا نہیں تھا

گوہر امروہوی
 
Top