شمع گرد پروانہ گھومتا ہی رہتا ہے

نور وجدان

لائبریرین
ذکر مصطفی میں دل جھومتا ہی رہتا ہے
شمع گرد پروانہ گھومتا ہی رہتا ہے





*****

یہ میری آنکھ کے آنسو جو چشمِ نادیدہ سے جاری ہیں ، وہ اسمِ حق کی تپش ہے ، جو نمی دل میں ہے وہ عکسِ مصطفیﷺ کی رُوشنی ہے جس نے میرے گرد ہالہ کر رکھا ہے ۔ ذات میں خلا سا ہے ،جیسے میں ایک قدم پیچھے ہوں سفر میں ، سفر مُبارک ہے جس نے میرے رگ و پے میں جستجو کے نادیدہ دروازے وا کررکھے ہیں ، ان سے جاری اضطراب کو سرر کی ہوا سے ٹالا جاتا ہے ۔ میری آنکھوں میں چمک ہے وہ جلوہِ یار کی بدولت ہے


ذکرِ مصطفیﷺ میں دل جھومتا رہتا ہے
شمع گرد پروانہ گھومتا ہی رہتا ہے
یار کی حضوری میں روح جھومتی ہے تو
قلب، نامِ احمد ﷺ کو چومتا ہی رہتا ہے



شوق میں مقامِ حیرت کا ذکر ہوتا ہے ، حیرت کے اسرار کیا ہیں کوئی نہ جانے ۔ بس ایسی جگہ ہے جہاں پر اپنی ذات کا جلوہ رہتا ہے ، ہمیں یہی ذات ساجد دکھتی ہے ، یہی رکوع میں ، اسکی فنائیت پل پل میں خبر دیتی ہے ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ رابطے میں روح سرکارِ دو عالم سیدنا ﷺ سے رہتی ہے اور ایک لمحے کا یہ رابطے گوکہ بے پایاں خوشیاں دیتا ہے اسی شدت سے ہجر کی لہروں کو تن بدن میں آتش کی طرح بکھیر دیتا ہے ۔ بدن ایسا کہ جلے تو دکھے بھی نہیں ۔



زندگی میں بیقراری کا مقام قرار کے بعد سے شروع ہوتا ہے ، جتنا انسان بیقرار رہتا ہے ، اتنا سکون ملنا ہوتا ہے ، یہ روح جس نے کبھی غارِ حرا کے گرد گھومتا ہوتا تو کبھی مسجدِ نبوی کے مینارے نگاہ کے سامنے ہوتے تو کبھی جالیوں کے آگے کھڑی روح سلام پیش کیے رہتی ہے ، دل میں خواہش اُبھرتی ہے کہ اتنا درود بھیجوں ، اتنا سلام بھیجوں کہ کائنات کی کسی روح نے نہ بھیجا ہو ، اتنی اطاعت کروں کہ پہاڑ گرپڑے مگر سرمہ بھی دھول بن کے نامِ احمد صلی علی پڑھتے پڑھتے بکھر جائے ، پہچان ختم ہو تو پہچان ملتی ہے ، شناخت نے زندگیوں کو مسمار کررکھا ہے ، انسان کی پہچان تو بس فنا میں چھپی ہے



سلام اے میرے شہر میں مقیم اے عالی مقام ، سلام اے سدا بہار مسکراہٹ کی حامل ہستی ، اے میرے عالی مقام! عید بھی تب ہوتا ہے جب شمع کا جلوہ تیز ہوجاتا ہے اس جلوے سے آئنہ صیقل ہوتا رہتا ہے ، عکس اتنا پڑتا ہے کہ نقل و اصل کا فرق مٹ جاتا ہے یہ مقام جس کی چاہت ہے کہ میں نہ رہوں بس میرا حبیب رہے ، میں ایک اڑتی ہوئی خاک کے ذروں کی مانند بکھری رہی ہوں ، ہر ذرہ میں جلوہ رہے ، جلوے میں ہزار وں تجلیات کے اسرار رہیں ، ہر اسرار ہزاروں راز کلامِ الہی کے منکشف کرے ، میری ذات میرے لیے مشعلِ ہدایت ہوجائے ، میرے دل میں بس تو رہے میں نہ رہوں



میں خاک ، جلوہ بس تو
میں ذرہ ، باقی بس تو
میں فانی ،لافانی بس تو
میں عکس ، آئنہ ہے تو
میں آئنہ ، جلوہ بس تو
جلوہ تو ، میں تقسیم
ہزار ہوگئے آئنے
جن میں دکھتا بس تو


اے میرے موسی ، جلوے کی تابش میں جلنا ، جل جل کے مرنا ، مر مر کے زندہ رہنا ، عشق نے مجھے مجبور کردیا ، طواف کب شروع ہوتا ہے کب ختم وہ تو ہوش نہیں بس ایک ہی ہوش رہتا ہے کہ بس تو ہی ہے ، اے لافانی یہ دنیا جو تخلیق کے مادے سے معرض وجود میں آئی ،، اس کے اندر سے جو روشنی نکل رہی ہے وہ بس تو ، میری آنکھ میں سرمہِ دید ہے ، میری زبان میں ذکر محمدﷺ کی چاشنی ہے ، اتنی مٹھاس روح میں کہ خوشی کا سا مقام ہے ۔۔۔ کب ہوگا آپ کا جلوہ، اے میرے یحیی ، کب ہوگا ، یہ دل تو سب ایک آس میں جی رہا ہے کہ کب میں آپ کی محافل میں شرکت کروں گی اور کب یہ شرکت ہوگی ، اے میرے ہادی بس دل نہیں سمجھ سکتا کہ کونسا تحفہ دوں جب آپ شہر میں تشریف لاتے ہیں میرے شہر شہر میں روشنی سے احساس کی پلکیں بھی روشن ہوجاتی ہیں
 
Top