نایاب بھائی حیران ہوں کہ دوسال کہ بعد آپ کی نظر اس دھاگے پر کیسے پڑگئی۔۔۔۔بہرحال چالیس کے عدد مزید تعریف عرض خدمت ہے۔
حضورِ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے انا احمد بلا میم ۔ احد اور احمد میں ایک میم کا فرق ہے پورا جہان اس میم میں غرق ہے ۔ اللہ تبار ک تعالیٰ نے حرفِ میم کو پیدا کیا تو ایک نور روشن پیدا فرمایا اور ۹۰ فرشتے ، فرشتگانِ روح میں سے اس حرف کے خادم کیے ہیں(واضح ہو کہ حرف میم کے اعداد مفصولی ۹۰ ہیں ) یہی وجہ ہے ہمارے آقا ﷺ کے نامِ مبارک کے شروع میں میم رکھنے کی، اور دو مرتبہ رکھنے کی کیونکہ یہ نام بولنے سے ہونٹ ایک دوسرے کو چوم لیتے ہیں اور چوتھے فلک میں شمس بھی میم سے مدد لیتا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے حَتٰی اِ ذَا بَلَغَ اَشَدُ اَرْبَعِیْنِ سَنَۃ (احقاف۔۱۵) جب وہ اپنے کمال ۴۰ برس میں ہوتی ہے اسی طرح میم کی عددی قیمت بھی ۴۰ ہے۔واضح ہو کہ میم سب سے آخری مرتبہ ہے کیونکہ صور فَفِرَ ع (گھبراہٹ) اور صَعِقَ (آسمانی بجلی کی کڑک) بعث (دوبارہ زندہ کیا جانا) ا کے لیئے ہے وَ نَفَخَ فِی الصُّورِ فَفِرَ عَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرض(الزمر۔۶۸) اورجب صور پھونکا جائے گا تو گھبرا جائیں گے جو زمین و آسمان میں ہیں دوسری پھونک صَعِقَہ کی ہوگی فَصَعِقَ مَنْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرض یعنی کڑک میں آجائیں گے جوآسمان اور زمین میں ہیں اور تیسری پھونک بعث اور قیام کی ہوگی یعنی سب لوگ زندہ ہوجائیں گے جس کے متعلق فرمایا ثُمَّ نُفِخَ فِیہِ اُخْرَ یٰ فَاِذَا قَیَامُ ٗ یَنْظُرُونَ یعنی جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب کھڑے ہوئے دیکھتے ہونگے ۔نفخ یعنی پھونکنا بغیر ہونٹ ملائے ممکن نہیں اسی طرح میم بھی ہونٹوں کے ملانے سے ہی نکلتا ہے بغیر ملائے نہیں نکل سکتا ہے جو شخص میم کے اسرار کو سمجھ گیا اس پر آواز جرس(گھنٹا جسے درا بھی کہتے ہیں یا گھونگرو) کا راز کھلا ۔ میم کو گھونگرو سے اس لیئے تشبیہ دی گئی ہے کہ گھونگرو بھی گول ہوتا ہے اور میم بھی گول ہوتا ہے گھونگرو کے تیز بجنے سے ہول آتا ہے اور اسی طرح یہ بات میم سے بھی تعلق رکھتی ہے کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان جو آپ ﷺ نے اسرافیل کے جسم اور بزرگی کی نسبت فرمایا کہ انہوں نے عرش کے پائے اپنے کندھے پر رکھے ہوئے ہیں او ر لوح کی طرف آنکھیں لگائے ہوئے ہیں اور صور (کہ جس کی لمبائی ۵۰۰ برس کی راہ ہے ) کو انہوں نے منہ سے لگایا ہوا ہے اور دونوں پیر ان کے ساتوں زمینوں سے بھی نیچے نکلے ہوئے ہیں اور عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم ہو کہ میں صور پھونکوں ،اسی لیئے میم آخری مرتبہ ہے (کیونکہ باقی کچھ بھی پیچھے نہیں بچتا ہے )
بعض عارفین کو عالمِ عرش کا مکاشفہ اس طرح سے ہوا جس طرح حضرت حارثہ رضی اللہ عنہٗ کو ہوا تھا جب رسول اکرمﷺ نے دریافت کیا اے حارثہ تم نے کس حال میں صبح کی انھوں نے عرض کی یارسول اللہﷺ میں صبح کو جب اٹھا تو میں نے اپنے آپ کو مؤمن دیکھا آپ ﷺ نے فرمایا اپنے ایمان کی کیفیت بیان کرو ،عرض کی یا رسول اللہ ﷺ جب میں اٹھا تو میں نے اپنے نفس کو دنیا کے سامنے اس طرح دیکھا کہ سونا و پتھر ، زندہ و مردہ، مالدار و غریب سب برابر تھے اور عرش الٰہی میری آنکھوں کے سامنے تھا اور لوگ حساب کے لیئے جارہے تھے اور دوزخ و جنت بھی میرے سامنے تھے ۔ حضورﷺ نے فرمایا اے حارثہ تم نے پہچان لیا اس کو اپنے اوپر لازم کر لو ۔
جو شخص میم کے اسرار کو سمجھ گیا اس پر آواز جرس کا راز کھلا(موتو قبل انتموتو) یعنی بانگِ جرس، صلصلۃ الجرس ، صوتِ سرمدی،آوازِ انہد کا راز کھلا۔یہ کیا ہے؟
اس طرح ہوتا ہے کہ ظاہری عالم سے بندے پر ایک ربودگی سی چھاجاتی ہے تاکہ وہ حقیقت قادریہ سے متحقق ہو یہ انکشافِ صفتِ قادریت عالمِ بالا سے تعلق رکھتا ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ جاری و ساری رہتا ہے اور باطنی سماعت کے ذریعے سننے میں آتا ہے ۔روایت ہے کہ حکیم افلاطون نے حضرت موسیٰ علیہِ السلام سے کہا کہ اے بیوہ کے بیٹے کیا تم جو کہتے ہو کہ میرا پروردگار مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے حالانکہ وہ جہت سے مننزہ ہے ۔موسیٰ علیہِ السلام نے فرمایا ،ہاں میں ہوں یہ دعویٰ کرنے والا اور میں تمام جہات (اطراف) سے آواز سنتا ہوں جو انقطاع(قطع ہونے ) اور حرکتِ حروف سے مننزہ اور پاک ہے یہ سن کر افلاطون نے حضرت موسیٰ علیہْ السلام کی رسالت کا اقرار کیا اور ان پر ایمان لے آیا ۔اسی طرح جب ہمارے آقا ﷺ سے نزولِ وحی کی کیفیت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو کبھی دیگ کے جوش کی مانند ہوتی ہیں ،کبھی شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ کی طرح اور کسی وقت فرشتہ آدمی کی شکل میں متصور ہوکر مجھ سے بات کرتا ہے اور بعض اوقات گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ شیرازیؔ یوں فرماتے ہیں ؎
کسِ ندانست کہ منزل دلدار کجا است ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے می آید
(کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ دوست کا مقام کہاں ہے بس یہی ہے کہ گھنٹی کی آواز سنتے ہیں)
ابتدا میں گھنٹہ کی سی جھنکار کی مانند اس کو ایک آواز آنے لگتی ہے پھر بعض حقائق کے آپس میں ٹکرانے سے گھونگرو کی آواز سنتا ہے اسکے بعد کا مقام ایسا مقام ہے کہ قلب اس مقام میں جانے کی اپنے میں ہمت نہیں پاتا بسبب ہیبت کے ۔ پھر جب داخل ہو جاتا ہے تو پھر قیامت آجاتی ہے اور وہی کچھ ہوتا ہے جو منظر قیامت کا کورس کی کتابوں میں پڑھ چکے ہو ۔یہ قیامتِ صغریٰ ہے جو قیامتِ کبریٰ کی مثل ہے تاکہ مؤمن اپنے رب کی روشن دلیل اور کھلی دلیل پر ہوجائے۔
آوازِ انہد پر امیر خسرو کا مشہورِ زمانہ کلام کا ایک مصرعہ یاد آگیا ہے ۔
انہد باجا بجے سہانا۔۔۔۔پیا گھر آیا ۔۔۔میرا پیا گھر آیا ۔گھڑی گھڑی گھڑیال بجائے۔
اس کے علاوہ حافظ شیرازیؔ یوں فرماتے ہیں ؎
کسِ ندانست کہ منزل دل دار کجا است ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے می آید
صدائے شاہ پَرِ جبریلِ عشق ہر ساعت ز جنبشِ دلِ پُر اضطراب می شنو م
در راہِ عشق وسوسۂِ اہرمن بسے است ہُش دارگوشِ دل بہ پیامِ سروش را
نایاب محمود احمد غزنوی الف نظامی