شوخیء تحریر

عاطف بٹ

محفلین
ہنسنا تو انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر اس کا اسلوب، موقع و محل اور مقدار تہذیبِ نفس کا حاصل ہوتی ہے جس کے لئے ہمیں شاعر کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ایک انگریز نقاد نے لکھا ہے کہ بغداد میں ہنسی ٹھٹھا تو تھا، مزاح نہیں تھا۔ اس بات کے معنی یہ ہوئے کہ ہنسنے کی بھی ایک تہذیب ہوتی ہے یا یوں کہیے کہ کسی تہذیب میں ہنسی تہذیب کا معیار ہوتی ہے۔ یہی بات رونے کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے کہ رونا اور ہنسنا یا غم اور خوشی دونوں ہی بنیادی انسانی جذبے ہیں۔ تاہم کسی بھی زبان میں خالص رلانے والے یا ہنسانے والے شاعر کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر شعراء ان دونوں جذبوں کے ذیلی جذبات کو معرضِ اظہار میں لاتے ہیں۔ سید محمد جعفری حسِ مزاح کے ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ پڑھ لکھ کر مدرس بنے تو کھریا مٹی کی بدباطنی پر ایک طنزیہ و مزاحیہ نظم لکھ کر ہیڈ ماسٹر کی نذر کی اور جب تدریس کے پیشے کو چھوڑا تو عام لوگوں کو ہنسنے ہنسانے کے طور سکھانے لگے۔ قیامِ پاکستان سے قبل جب وہ دلّی میں محکمہ اطلاعات سے وابستہ تھے تو وہاں بھی اپنی ہکلی غزل اور قحط بنگال اور بھنگیوں کی ہڑتال پر کہی ہوئی نظموں کے باعث خاص و عام میں مقبول ہوچکے تھے۔ آج سے 35 برس پہلے کی بات ہے ابھی جعفری صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی، میں کراچی کے اے جی آفس میں ملازم تھا اور وہیں دلّی سے آئے ہوئے دوستوں سے ان کی ہکلی غزل کا مقطع سنا تھا جو آج تک یاد ہے:
ج ج جعفری جو غریب ہے ت ت تمغہ اس کو نہ دیجئے
ق ق قدر اس کی جو بڑھ گئی د د دوسروں کو جلن نہ ہو​
(سجاد باقر رضوی کے مضمون ’شوخیء تحریر‘ سے اقتباس)
 
ہنسنا تو انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر اس کا اسلوب، موقع و محل اور مقدار تہذیبِ نفس کا حاصل ہوتی ہے جس کے لئے ہمیں شاعر کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ایک انگریز نقاد نے لکھا ہے کہ بغداد میں ہنسی ٹھٹھا تو تھا، مزاح نہیں تھا۔ اس بات کے معنی یہ ہوئے کہ ہنسنے کی بھی ایک تہذیب ہوتی ہے یا یوں کہیے کہ کسی تہذیب میں ہنسی تہذیب کا معیار ہوتی ہے۔ یہی بات رونے کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے کہ رونا اور ہنسنا یا غم اور خوشی دونوں ہی بنیادی انسانی جذبے ہیں۔ تاہم کسی بھی زبان میں خالص رلانے والے یا ہنسانے والے شاعر کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر شعراء ان دونوں جذبوں کے ذیلی جذبات کو معرضِ اظہار میں لاتے ہیں۔ سید محمد جعفری حسِ مزاح کے ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ پڑھ لکھ کر مدرس بنے تو کھریا مٹی کی بدباطنی پر ایک طنزیہ و مزاحیہ نظم لکھ کر ہیڈ ماسٹر کی نذر کی اور جب تدریس کے پیشے کو چھوڑا تو عام لوگوں کو ہنسنے ہنسانے کے طور سکھانے لگے۔ قیامِ پاکستان سے قبل جب وہ دلّی میں محکمہ اطلاعات سے وابستہ تھے تو وہاں بھی اپنی ہکلی غزل اور قحط بنگال اور بھنگیوں کی ہڑتال پر کہی ہوئی نظموں کے باعث خاص و عام میں مقبول ہوچکے تھے۔ آج سے 35 برس پہلے کی بات ہے ابھی جعفری صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی، میں کراچی کے اے جی آفس میں ملازم تھا اور وہیں دلّی سے آئے ہوئے دوستوں سے ان کی ہکلی غزل کا مقطع سنا تھا جو آج تک یاد ہے:
ج ج جعفری جو غریب ہے ت ت تمغہ اس کو نہ دیجئے
ق ق قدر اس کی جو بڑھ گئی د د دوسروں کو جلن نہ ہو​
(سجاد باقر رضوی کے مضمون ’شوخیء تحریر‘ سے اقتباس)
بہت خوب شراکت جناب،

اگر کہیں سے یہ پوری غزل دستیاب ہو سکے تو :) اور دوسری بھی
 
Top