شوقِ آرزو گیا ، عرضِ حال بھی نہ رہا
مجھے ترا تجھے میرا خیال بھی نہ رہا
ایک لمحے میں صدیوں کی رفاقت گئی
ستم یہ ہوا ، تجھے ملال بھی نہ رہا
وقت نے مدھم کر دی ہر لو اپنےدل کی
تجھے غرور نہ رہا مجھے جلال بھی نہ رہا
پس ماندہ میرے دل میں جلوے نہ رہے
اس شب بھر چہرے پر جمال بھی نہ رہا
مجھے ترا تجھے میرا خیال بھی نہ رہا
ایک لمحے میں صدیوں کی رفاقت گئی
ستم یہ ہوا ، تجھے ملال بھی نہ رہا
وقت نے مدھم کر دی ہر لو اپنےدل کی
تجھے غرور نہ رہا مجھے جلال بھی نہ رہا
پس ماندہ میرے دل میں جلوے نہ رہے
اس شب بھر چہرے پر جمال بھی نہ رہا
جواب میرے ہونٹوں پہ سجا دیئے اس نے
پھر پوچھتے ہم کیا ، کوئی سوال بھی نہ رہا