قاصر شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے - غلام محمد قاصر

غلام محمد قاصر کو شاعروں کا شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ عام قاری تک نہ پہنچ پائے۔ ان کے مجموعے تسلسل کی پہلی غزل پیش خدمت ہے۔

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے

سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے
لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراوں کے ٹیلے تھے

تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں ‌پہنچا
رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے

سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

کون غلام محمّد قاصر بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

غلام محمد قاصر کے کلام کے متعلق جانے کے لیے آپ لاگ آن کریں۔
www.qasir.com
 

F@rzana

محفلین
نشیلے نین

بہت خوب جناب

یہ حضرت اتنے شرمیلے بھی نہیں تھے ور نہ ان کا یہ شعر زبان زد عام نہ ہوتا؛؛؛
تم یونہی ناراض ہو ئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
 
زبردست شعر ہے میں نے طارق عزیز سے سنا تھا ایک پروگرام میں۔ واقعی یہ غزل تو مشہور ہے عوام میں بھی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا بات ہے! بہت عمدہ اور بہت مرصع غزل ہے گو کہ یہ غزل کسی تعریف کی محتاج نہیں ہے پھر بھی دل چاہتا ہے کہ اس غزل کو خوب سراہا جائے۔
 

مغزل

محفلین
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

قاصر

پہلے اک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا

حسن نے خود کہا مصور سے
پاؤں پر میرے کوئی ہاتھ بنا

قاصر

بھنورے انہی پہ چل کے کریں گے طوافِ گل
جو دائرے چمن میں صبا نے بنائے ہیں

قاصر
 

فاتح

لائبریرین
سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

کون غلام محمّد قاصر بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے
تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
واہ واہ کیا خوبصورت غزل ہے
 
Top