شوکت خانم کو بچائیں

1101586785-1.jpg
1101586785-2.gif
 

نایاب

لائبریرین
نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے ۔
من حیث القوم ہم کچھ ایسے ہی ہیں ۔
گند گی والی مکھی کی مثال ہیں ہم جو صرف گند تلاش کرتی ہے ۔
شہد والی مکھی کی خصوصیات تو ہم کبھی کے فراموش کر چکے ۔
 

زبیر مرزا

محفلین
بہت شکریہ حسیب تلخ اور کھراتبصرہ ن لیگ کے ساتھ ہم سب پر جو اینٹی ہیروشپ کی لپیٹ میں ہیں
اچھائی کی جانب نگاہ کون کرے کسی کی حوصلہ افزائی کرتے ہمارے جان جاتی ہے تنقید مذہب پر، ملک پر
اس پر اُس پر لیکن نہیں جاتی نظرتو بس اپنے گریبان میں نہیں جاتی - لیکن جنھیں چراغ جلانے ہیں اُن کو اس تیرگی سے اس تنقید
کی آندھی سے کیا وہ سرپھرے تو سرعام بھیک کا دامن پھیلا لیتے چلچلاتی دھوپ میں مزار قائد کے سامنے جب میں
ایدھی صاحب کوبیٹھے بھیک مشن کے نام سے صدقات جمع کرتے دیکھا تھا تو اس اُمید نے دل کو تقویت دی تھی کہ اس قوم
کا درد رکھنے والے ابھی موجود ہیں
 

سویدا

محفلین
یہاں پگڑی اچھلتی ہے ۔۔۔۔۔۔سویرے سویرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔نذیر ناجی

لاہور کا گلاب ديوي ہسپتال ايک سياستدان لالہ لاجپت رائے نے اپني والدہ کي ياد ميں بنايا تھا? ليکن اس کي ساري سرمايہ کاري خود کي تھي? قريباً 85 سال پہلے بنائے گئے اس ہسپتال پر لالہ جي کے پورے خاندان ميں سے کسي نے سياست نہيں کي? وہ خود آل انڈيا سطح کے ليڈروں ميں نماياں حيثيت رکھتے تھے مگر ان کي پہچان جدوجہد آزادي سے ہے‘ ہسپتال سے نہيں? سر گنگا رام نے صرف ہسپتال نہيں کئي دوسرے فلاحي ادارے قائم کئے تھے? اس پر بھي انہوں نے خانداني دولت صرف کي? ان کے خاندان کے کسي فرد نے بھي اپنے ان کاموں سے سياسي فائدہ نہيں اٹھايا? فاطمہ ميموريل ہسپتال کے لئے البتہ زکو?ة اور خيرات وصول کي جاتي ہيں مگر کہيں چرچا نہيں کہ يہ کارخيرانجام دينے والا خاندان کون ہے؟ممتازبختاور ہسپتال‘ گھرکي ہسپتال‘ شالامار ہسپتال اور مياں منشي ہسپتال بھي اسي طرح غريب مريضوں کے لئے بنائے گئے ہيں? ان ميں سے بھي بيشتر چندوں پر چلتے ہيں اور ان ميں بھي کسي مريض کو غريبي کي وجہ سے علاج کے بغير نہيں لوٹنا پڑتا? جو لوگ اخراجات ادا کر سکيں‘ انہيں بھي سہولت ملتي ہے اور جو لوگ پيسے دينے کے قابل نہ ہوں ان کا علاج بھي دستياب معيار کے مطابق کيا جاتا ہے? ان ميں صرف گھرکي ہسپتال بنانے والے خاندان کا تعلق سياست سے ہے ليکن اس خاندان کا کوئي بھي فرد اپني انتخابي مہم ميں ہسپتال کا نام تک نہيں ليتا? جو کام اللہ کي راہ ميں کئے جاتے ہيں‘ ان سے کاروباري يا سياسي فائدہ نہيں اٹھايا جاتا? عمران خان کے سياسي مخالفين کو شکايت صرف يہ ہے کہ انہوں نے جو کام لوگوں کے پيسوں سے انساني خدمت کے نام پر کيا ہے‘ وہ اوران کي جماعت کے لوگ اس کے بدلے ميں ووٹ کيوں مانگتے ہيں؟
گزشتہ روز جب خواجہ آصف نے ايک پريس کانفرنس ميں عمران خان کے مالي معاملات پر اعتراضات اٹھائے تو حقيقت ميں ان کا ہدف شوکت خانم ميموريل ہسپتال نہيں تھا‘ ہدف سياستدان عمران خان تھے? اگر انہوں نے اپني سياسي پارٹي کي رابطہ عوام مہم ميں شوکت خانم ہسپتال کے حوالے نہ ديئے ہوتے‘ تو يہ مسئلہ ہي سامنے نہ آتا? مگر عمران خان کي حمايت ميں تحريري اور تقريري مہمات چلانے والے حضرات و خواتين اپنے جلسوں اور تقريروں ميں بات بات پر شوکت خانم کا نام ليتے ہيں اور اس کي مثال دے کر عمران خان کو قيادت اور ووٹ کا حق دار ٹھہراتے ہيں? يہيں پر اختلاف کے پہلو نکلتے ہيں? جس شريف خاندان پر وہ کرپشن کے الزامات لگاتے ہيں‘ انہوں نے اپنے دفاع ميں کبھي اپنے فلاحي اور خيراتي کاموں کا ذکر نہيں کيا? حالانکہ مجموعي طور پر ديکھا جائے تو اس خاندان کے فلاحي اور امدادي کام ماليت کے اعتبار سے شوکت خانم ہسپتال کے بجٹ سے زيادہ نہيں تو کم بھي نہيں ہيں? شريف برادران نے اپني کسي سياسي مہم ميں اپنے فلاحي کاموں کا ذکر نہيں کيا? البتہ جب عمران خان کے حامي‘لوگوں کے مال سے بنائے ہوئے ہسپتال پر اپنے ليڈر کي ذاتي اور سياسي شہرت بڑھاتے ہيں‘ تو شريف برادران کا کوئي حامي شوکت خانم ہسپتال کے پلاٹ کا ذکر کر ديتا ہے‘ جو نوازشريف نے الاٹ کيا? اس پر عمران خان بے اعتنائي سے جواب ديتے ہيں کہ وہ پلاٹ تو ايل ڈي اے کا تھا? ان کي يہ بات بالکل ٹھيک ہوتي ہے? ليکن ايل ڈي اے کا پلاٹ دينے کا اختيار بہرحال نوازشريف کے پاس تھا اور اگر کبھي جوابدہي کا موقع آتا‘ تو جواب دينے کي ذمہ داري بھي انہي پر تھي? بہرحال انہوں نے اپنا اختيار استعمال کرتے ہوئے ہسپتال کو پلاٹ ديا? شوکت خانم ہسپتال ميں عمران خان کا اپنا حصہ نوازشريف کے الاٹ کردہ پلاٹ کي قيمت کے برابر بھي نہيں? ليکن وہ پورے ہسپتال کي نيک نامي اور شہرت کو اپنا سياسي اثاثہ بنا کر عوام کے سامنے پيش کرتے ہيں? يہي بات ان کے سياسي مخالفين کو اچھي نہيں لگتي? گزشتہ روز جب خواجہ آصف اور چوہدري نثار علي خان نے عمران خان کے مالي معاملات پر اظہار خيال کيا تو دونوں نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کي عوامي خدمات سے ہرگزانکار نہيں کرتے? بلکہ خواجہ آصف نے تو يہاں تک پيش کش کي کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کے لئے کوئي بھي خدمت انجام دينے کو تيار ہيں? سوال يہ ہے کہ ايک غلطي کي نشاندہي پر عمران خان اور ان کے حواري اس قدر مشتعل کيوں ہو گئے ہيں؟ کيا شوکت خانم ہسپتال کا انتظام چلا کر عمران خان کي ذات سياست ميں تنقيد سے بالاتر ہو گئي ہے؟ سياست ميں سب ايک دوسرے کي کمزوريوں اور خاميوں کي نشاندہي کرتے ہيں اور اس کھيل ميں الزام تراشياں بھي ہوتي ہيں? پاکستاني سياست ميں تو الزام تراشياں کرتے وقت کسي بھي حد کو ملحوظ نہيں رکھا جاتا? خود عمران خان نے اپني سياسي مہم کا ہدف ديگر تمام سياستدانوں کو بنا رکھا ہے? وہ ہر ايک کو کرپٹ‘ چور‘ ڈاکو اور نجانے کيسے کيسے ناموں سے ياد کرتے ہيں؟ ايسا کرنے کے بعد انہيں يہ اميد نہيں رکھنا چاہيے کہ جواب ميں ان کے ساتھ وہي سلوک نہيں کيا جائے گا?
پاکستان ميں ايسے کئي سياستدان گزرے ہيں‘ جو اپني عزت کا بہت خيال رکھتے تھے? مگر وہ اس کے لئے قربانياں بھي ديتے تھے? ان کے لائف اسٹائل ميں ايسي کوئي چيز نہيں ہوتي تھي جو ہمارے رواجوں‘ نظام اخلاقيات‘ تہذيبي اقدار اور سماجي روايات کے خلاف ہو? ان ميں مياں افتخارالدين‘ راؤ خورشيد علي خاں‘ ميرغلام رسول تالپور‘ مياں محمود علي قصوري اور ايسے ان گنت نام آتے ہيں جنہوں نے سياست ميں رہ کر بھي اپني عزت و وقار پر آنچ نہيں آنے دي? مگر ان سب کا لائف اسٹائل اتنا شفاف اور اخلاقي اعتبار سے صاف ستھرا تھا کہ بدخواہوں کو بھي انگلي اٹھانے کا موقع نہيں مل سکا? اگر عمران خان کا لائف اسٹائل ايسا رہا ہوتا تو وہ اسي طرح کے عزت و احترام کے حقدار ٹھہرتے‘ جس کي وہ اور ان کے حامي خواہش کرتے ہيں? مگر ان کے جواني کے کارناموں سے پاکستان ہي نہيں بھارت‘ يورپ اور آسٹريليا کے لوگ واقف ہيں? شوکت خانم ہسپتال کي تعمير ان کا ايک بڑا کارنامہ ہے اور اسي کارنامے کي وجہ سے لوگ ان کے ماضي کي باتوں کو ياد نہيں کرتے? مگر اس سے زيادہ کي انہيں توقع بھي نہيں رکھنا چاہيے? خصوصاً ايسي صورت ميں جب وہ ميدان ميں موجود تمام سياستدانوں کو چور اور ڈاکو کہہ کر اپنے آپ کو ايک نيک‘ پاکباز اور ديانتدار شخص کے طور پر پيش کرتے ہوں? ن ليگ کے جن ليڈروں نے عمران خان کے الزامات کے جواب ميں جوابي الزام تراشياں کي ہيں ان ميں شوکت خانم ہسپتال کا ذکر مالي معاملات کے حوالے سے آيا ہے? اگر مالي امور ميں کوئي بے احتياطي يا بے قاعدگي ڈھونڈ کر سياسي مخالفين اس کي نشاندہي کرتے ہيں‘ اس پر سٹپٹانے کي ضرورت نہيں? صحيح بات سامنے لا کر الزامات کي ترديد کر دينا چاہيے اور نثار علي خان نے تو ہسپتال کا نام بھي نہيں ليا? مگر ان کے لگائے ہوئے الزامات کافي سنگين ہيں? ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کا کوئي ذريعہ معاش ہي نہيں جبکہ وہ شاہانہ زندگي گزارتے ہيں? ان کا 300کنال کا محل بے نامي پلاٹ پر تعميرہوا‘ جو بعد ميں عمران خان کے نام پر رجسٹرڈ کيا گيا? انہوں نے کبھي اپني ٹيکس ريٹرن نہيں بھري? اگر يہ الزامات درست ہيں توٹيکس خوري کرنے والوں کو وہي کچھ کہا جا سکتا ہے جو عمران خان دوسرے ليڈروں کے بارے ميں کہتے ہيں? عمران خان اور ن ليگ کے ليڈروں کي پريس کانفرنسيں ايک طرح سے انتخابي مہم کا آغاز ہے ليکن يہ کتنا افسوس ناک اور غيرمعياري آغاز ہے? بہتر ہوتا کہ دونوں فريق اپنے اپنے منشور يا مستقبل کے خاکے لے کر ميڈيا کے سامنے آتے اور مستقبل سے مايوس ہوتے ہوئے عوام کو نئي زندگي اور خوشحالي کي اميديں دلاتے? يہاں تو دونوں طرف ہي نيگٹو بولنگ اور بيٹنگ شروع کر دي گئي ہے? ابتدا يہ ہے تو انتہا کيا ہو گي؟مناسب ہو گا کہ اب بھي تمام سياستدان باقاعدہ انتخابي مہم شروع ہونے سے پہلے کسي ضابطہ اخلاق پر متفق ہو جائيں ورنہ بے لگام آزادي ميں کسي طرح کي حدود باقي نہيں رہتيں? جو کچھ عمران خان دوسروں کے ساتھ کر رہے ہيں‘ جواب ميں دوسروں کو بھي عمران خان کے ساتھ وہي کچھ کرنے کا حق ہو گا? سياست کے کھيل ميں کوئي کپتان نہيں ہوتا‘ کپتاني صرف کرکٹ گراؤنڈ ميں چلتي ہے?غريبوں اور ضرورتمندوں کي مدد کرنے کا سکہ سياست کے بازار ميں نہيں چلتا? يہاں پگڑي اچھلتي ہے‘ اسے ميخانہ کہتے ہيں? عزت پياري ہو تو مدرٹريسا اور عبدالستار ايدھي کے راستے پر چلنا چاہيے?
 

سویدا

محفلین
نذیر ناجی کے اس کالم پر عرفان صدیقی کی حاشیہ آرائی بھی ملاحظہ ہو :

مشتعل خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نقش خیال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عرفان صدیقی

وہ کسي کا شعر ہے:
ہم جو بولے ہيں تو وہ آگ بگولہ کيوں ہے
ہم تھے خاموش تو کيا کيا نہ کہا کرتا تھا
مولانا فضل الرحمن نے جنہيں خان صاحب ”منافق“ کہہ کر پکارتے ہيں، نہايت ملائم سے لہجے ميں کہا ہے کہ ”دس برس سے دوسروں کو ننگي گالياں دينے اور صبح و شام ان پر کيچڑ اچھالنے والا، کچھ سننے کا حوصلہ بھي تو پيدا کرے?“ صورتحال يہ ہے کہ خواجہ آصف اور چوہدري نثار علي خان کي پريس کانفرنسوں کے بعد سے خان صاحب انگاروں پہ لوٹ رہے ہيں? ان کا چہرہ تانبے کي طرح تپا ہوا ہے، منہ سے کف اور آنکھوں سے چنگارياں پھوٹ رہي ہيں? فشار خون اس قدر بڑھ گيا ہے کہ دوران گفتگو الفاظ ان کي گرفت ميں نہيں آ رہے? ان کي بدن بولي، بھٹيارن کي بھٹي ميں بھنتے مکئي کے دانوں کي کيفيت کا اظہار کرنے لگي ہے?
خان صاحب پر لگائے گئے الزامات کے درست يا غلط ہونے سے قطع نظر، معاملے کي اصل بنياد وہ مسئلہ ہے جس کي وضاحت تجزيے کا ہنر رکھنے والے جناب نذير ناجي نے انتہائي عمدگي سے کر دي ہے? ناجي صاحب کي بات پہ اضافہ ممکن نہيں اور يوں بھي يہ گستاخي کے زمرے ميں آتا ہے ليکن ان کي دليل ميں مزيد حاشيہ آرائي بہرحال ايک اعزاز ہے? صديوں کي مسلمہ حقيقت يہ ہے کہ انساني خير و فلاح کا ہر کام اپنے اندر ايک عجيب سي پاکيزگي اور لطيف سا تقدس رکھتا ہے? انسانيت کي بھلائي، خلق خدا کي دست گيري، غريبوں اور لاچاروں کي مسيحائي اور تہي دستوں کي مرہم کاري کے تمام کام ريا، تصنع، بناوٹ، تشہير، نمود، نمائش اور خودستائي کي شديد نفي کرتے ہيں? ايسے کاموں کا سرچشمہ صرف دو باتيں ہوتي ہيں، اللہ کي خوشنودي کا حصول يا انسانيت کي خدمت کا جذبہ بے کراں? ايسي راہ اپنانے والا مخلص شخص عجز و انکسار اور بے نيازي کي بکل مار کر کسي گوشے ميں بيٹھ جاتا ہے? وہ کبھي اپنے کار خير کو اپنے سر کي کلغي بنانے، اس کلغي کے شوخ رنگوں کے بل پر اپنے حسن کو نماياں کرنے اور اس حسن کي چکا چوند کے بل پر کوئي دنيوي عہدہ، کوئي منصب، کوئي درجہ? خاص يا کوئي مقام بلند حاصل کرنے کي کوشش نہيں کرتا? جب بھي کوئي شخص کسي کارخير کو اپنے سينے کا تمغہ بنا کر، کسي دوسرے ميدان ميں پذيرائي کا طلب گار ہوتا اور اپنے فلاحي منصوبے کو ايک زينے کے طور پر استعمال کرنے لگتا ہے، وہ ايک سچّے سماجي کارکن کے رتبہ? بلند سے دست کش ہو کر جنس کوچہ? و بازار جيسي دنيا داري کي حدوں ميں داخل ہو جاتا ہے? ”نيکي کر دريا ميں ڈال“ کا محاورہ اسي اجلے خيال کي کوکھ سے پھوٹا کہ کارخير کو بھلا ديا جانا چاہئے? اگر کوئي آدمي، دريا ميں ڈال دينے کي بجائے اپني نيکي کو گوٹا کناري لگي مخملي پوٹلي ميں باندھ کر سر پر رکھ لے اور کسي عہدہ و منصب کي شکل ميں خلق خدا سے اس کا عوضانہ طلب کرنے لگے تو وہ اپنے کارخير کے تقدس کو بھي مجروح کرتا ہے اور اپني شخصيت کے جوہر خير کو بھي بے لاگ نہيں رہنے ديتا?
خان صاحب کو کرکٹ نے ايک نام اور شوکت خانم کينسر اسپتال نے ايک مقام ديا? يہ نام اور مقام وزارتوں، عہدوں، مراعات اور مفادات کيلئے اقتدار کي غلام گردشوں ميں رينگتے حشرات الارض جيسے سياست دانوں سے کہيں بڑا تھا? انہيں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ خير و فلاح کے ايک نيک نام منصوبے کو بغل ميں لے کر سياست کے کوئے ملامت ميں جانا مناسب نہ ہو گا? انہيں جاننا چاہئے تھا کہ سياست کے سينے ميں دل ہوتا ہے نہ آنکھوں ميں حيا? اس وادي? بے توقير ميں قدم رکھنے والے اچھے اچھے پارساؤں کي عباؤں اور قباؤں کے بخيے ادھيڑ ديئے جاتے ہيں? اگر سياست ميں آتے وقت وہ شوکت خانم اسپتال کو ٹرسٹ کے سپرد کر کے خود کو سياست کے حوالے کر ديتے تو بہتر ہوتا ليکن انہوں نے ايسا نہ کيا بلکہ شوکت خانم اسپتال ہي کو اپنے سياسي عزائم کا حوالہ اور قومي ليڈر کے طور پر اپني ”کوالي في کيشن“ بنا ليا? دوسري ٹھوکر انہوں نے يہ کھائي کہ تبديلي کا کوئي ٹھوس اور قابل عمل انقلابي ايجنڈا دينے کے بجائے انہوں نے الزامات کي سرخ آندھي چلائي اور سياسي حريفوں کو اپنے سينگوں ميں پرو ليا، عدالتوں ميں جانے اور ٹھوس شواہد پيش کرنے کے بجائے وہ اخباري تراشوں اور کتابي کہانيوں کي بنا پر دوسروں کي پيٹھ لہولہان کرتے رہے، تيسري کوتاہي ان سے يہ ہوئي کہ ايک باوقار، سنجيدہ خو اور تہذيب کے قرينوں سے آشنا قومي راہ نما کا متين، مہذب اور سلجھا ہوا انداز بيان اختيار کرنے کے بجائے، وہ تيسرے درجے کا بازاري لب و لہجہ اپناتے ہوئے دوسروں کي پگڑيوں سے کھيلنے لگے? ايسا کرتے ہوئے وہ چند اہم حقيقتيں نظر انداز کر بيٹھے? مثلاً يہ کہ سياست کوچہ? رسوائي ہے جہاں استثني? نام کي کوئي شے نہيں ہوتي? يہاں تو قائداعظم پر بھي سنگ زني ہوتي رہي اور سيد مودودي جيسے مرد پاکباز کا دامن بھي تار تار کر ديا گيا? خان صاحب يہ بھي بھول گئے کہ وہ شوکت خانم کينسر اسپتال کا طلائي تمغہ سينے پر سجا کر وزارت عظمي? کي دوڑ ميں شريک ہوتے ہوئے ايک نيک نام قومي فلاحي منصوبے کو کن خطرات سے دوچار کر رہے ہيں? انہيں يہ بھي ياد نہ رہا کہ خود ان کي زندگي بھي کچھ داستانيں رکھتي ہے? شيشے کے گھر ميں بيٹھ کر دوسروں پہ سنگ زني کرتے ہوئے وہ بھلا بيٹھے کہ ان کا دامن بھي اتنا پاک باز نہيں کہ نچوڑ ديں تو فرشتے وضو کريں اور پھر وہ يہ عام سي بات بھي بھلا بيٹھے کہ اگر وہ اٹھتے بيٹھتے دوسروں کو چور، ڈاکو، لٹيرے، اچکے، بدعنوان، حرام خور، بدکار اور منافق جيسے القابات شيريں سے نوازيں گے تو وہ ان کے حضور سر خميدہ، دست بستہ کھڑے ہو کر يہ سب کچھ نہيں سنتے رہيں گے? ان کے منہ ميں بھي زبان ہے اور وہ بھي قوت گويائي رکھتے ہيں? خان صاحب کو يہ بھي ياد نہ رہا کہ شوکت خانم اسپتال ان کا خواب و خيال سہي، ان کي محنت، لگن، عزم صميم اور جہد مسلسل کا ثمر سہي ليکن ان کي ذاتي يا خانداني ميراث نہيں? اس ميں لاکھوں پاکستانيوں کا خون جگر بھي شامل ہے? ان ايثار پيشہ افراد کي اکثريت ايسي ہے جو کروڑوں يا لاکھوں کا عطيہ ديتے ہوئے صرف ايک شرط لگاتي ہے? ”بس ہمارا نام کہيں نہ آئے، کسي کو پتہ نہ چلے?“ کتنے عظيم ہيں وہ لوگ!!
خان صاحب کو شايد احساس نہ ہو ليکن شوکت خانم اسپتال جيسے معتبر سماجي منصوبے کو سياست کي جولان گاہ ميں لا پھينکنا، کار دانش مندي نہ تھا? مجھے گزشتہ روز ہي جوہر ٹاؤن لاہور سے اخلاق احمد صاحب کا ايک خط موصول ہوا ہے? اخلاق صاحب کي والدہ کا کوئي بارہ برس پہلے اسپتال سے علاج ہوا? وہ بے حد متاثر ہوئے تب سے باقاعدگي کے ساتھ اسپتال کي مالي معاونت کر رہے ہيں? ان کا مکمل خط کسي اور دن کيلئے اٹھا رکھتے ہيں جس ميں انہوں نے 31/جولائي کو لاہور ميں شوکت خانم اسپتال کے سالانہ افطار ڈنر کا احوال لکھا ہے? اخلاق صاحب بتاتے ہيں کہ مرکزي ميز شوکت خانم اسپتال کے محسنين کے بجائے تحريک انصاف کے عمائدين سے آراستہ تھي? ”اگرچہ يہ اسپتال کي چندہ مہم تھي ليکن اس تقريب کو مکمل سياسي رنگ دے ديا گيا تھا? مقررين کي تقريروں اور دستاويزي فلموں کے ذريعے عمران کو ايک مسيحا اور ممکنہ نجات دہندہ ثابت کرنے کي پوري کوشش کي گئي? کمپيئر سے لے کر عام مقرر تک ہر کوئي عمران خان کي مدح سرائي ميں ايک دوسرے پر سبقت لے جانے کي کوشش کرتا رہا?“ يہ شوکت خانم اسپتال کو باقاعدگي سے مالي مدد فراہم کرنے والے ايک مستقل ڈونر کا ذاتي مشاہدہ ہے? خان صاحب کے اشتہارات، ان کے جلسے، ان کي تقارير، ان کي تيار کردہ فلميں، ان کي مدح ميں لکھي گئي تحريريں اور ان کي سياست کا عمومي رنگ و آہنگ، شوکت خانم اسپتال ہي سے عبارت ہے جس ميں اب ان کي قائم کردہ يونيورسٹي بھي شامل ہو گئي ہے? سوال يہ ہے کہ جب وہ اپنے ان کارہائے خير کو ہي اپني سياسي دکان کا سائن بورڈ اور اپنے سياسي عزائم کا عنوان جلي بنائيں گے تو پھر کيچڑ کے چھينٹے کيسے ان کي ذات تک محدود رہيں گے؟ جس طرح ايک ڈکٹيٹر فوج کي وردي پہنے سياست ميں آ جائے تو فوج کي ساکھ بہرحال مجروح ہوتي ہے اسي طرح کسي کارخير سے نام پانے والا سماجي کارکن جب انسانيت نوازي کي قبا پہنے سياست کے اکھاڑے ميں آ جائے تو اس کا غير سياسي، فلاحي منصوبہ بھي نشترزني سے محفوظ نہيں رہے گا? الزامات اتنے بودے بھي نہيں، ان پر پھر بات ہو گي? في الحال صرف اتني التماس ہے کہ خان صاحب اپنا فشار خون قابو ميں رکھيں? دشنام طرازي اور الزام تراشي کو فن کا درجہ دينے والوں ميں جوابي يلغار سہنے کا حوصلہ بھي ہونا چاہئے?
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=13062
 
Top