نذیر ناجی کے اس کالم پر عرفان صدیقی کی حاشیہ آرائی بھی ملاحظہ ہو :
مشتعل خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نقش خیال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عرفان صدیقی
وہ کسي کا شعر ہے:
ہم جو بولے ہيں تو وہ آگ بگولہ کيوں ہے
ہم تھے خاموش تو کيا کيا نہ کہا کرتا تھا
مولانا فضل الرحمن نے جنہيں خان صاحب ”منافق“ کہہ کر پکارتے ہيں، نہايت ملائم سے لہجے ميں کہا ہے کہ ”دس برس سے دوسروں کو ننگي گالياں دينے اور صبح و شام ان پر کيچڑ اچھالنے والا، کچھ سننے کا حوصلہ بھي تو پيدا کرے?“ صورتحال يہ ہے کہ خواجہ آصف اور چوہدري نثار علي خان کي پريس کانفرنسوں کے بعد سے خان صاحب انگاروں پہ لوٹ رہے ہيں? ان کا چہرہ تانبے کي طرح تپا ہوا ہے، منہ سے کف اور آنکھوں سے چنگارياں پھوٹ رہي ہيں? فشار خون اس قدر بڑھ گيا ہے کہ دوران گفتگو الفاظ ان کي گرفت ميں نہيں آ رہے? ان کي بدن بولي، بھٹيارن کي بھٹي ميں بھنتے مکئي کے دانوں کي کيفيت کا اظہار کرنے لگي ہے?
خان صاحب پر لگائے گئے الزامات کے درست يا غلط ہونے سے قطع نظر، معاملے کي اصل بنياد وہ مسئلہ ہے جس کي وضاحت تجزيے کا ہنر رکھنے والے جناب نذير ناجي نے انتہائي عمدگي سے کر دي ہے? ناجي صاحب کي بات پہ اضافہ ممکن نہيں اور يوں بھي يہ گستاخي کے زمرے ميں آتا ہے ليکن ان کي دليل ميں مزيد حاشيہ آرائي بہرحال ايک اعزاز ہے? صديوں کي مسلمہ حقيقت يہ ہے کہ انساني خير و فلاح کا ہر کام اپنے اندر ايک عجيب سي پاکيزگي اور لطيف سا تقدس رکھتا ہے? انسانيت کي بھلائي، خلق خدا کي دست گيري، غريبوں اور لاچاروں کي مسيحائي اور تہي دستوں کي مرہم کاري کے تمام کام ريا، تصنع، بناوٹ، تشہير، نمود، نمائش اور خودستائي کي شديد نفي کرتے ہيں? ايسے کاموں کا سرچشمہ صرف دو باتيں ہوتي ہيں، اللہ کي خوشنودي کا حصول يا انسانيت کي خدمت کا جذبہ بے کراں? ايسي راہ اپنانے والا مخلص شخص عجز و انکسار اور بے نيازي کي بکل مار کر کسي گوشے ميں بيٹھ جاتا ہے? وہ کبھي اپنے کار خير کو اپنے سر کي کلغي بنانے، اس کلغي کے شوخ رنگوں کے بل پر اپنے حسن کو نماياں کرنے اور اس حسن کي چکا چوند کے بل پر کوئي دنيوي عہدہ، کوئي منصب، کوئي درجہ? خاص يا کوئي مقام بلند حاصل کرنے کي کوشش نہيں کرتا? جب بھي کوئي شخص کسي کارخير کو اپنے سينے کا تمغہ بنا کر، کسي دوسرے ميدان ميں پذيرائي کا طلب گار ہوتا اور اپنے فلاحي منصوبے کو ايک زينے کے طور پر استعمال کرنے لگتا ہے، وہ ايک سچّے سماجي کارکن کے رتبہ? بلند سے دست کش ہو کر جنس کوچہ? و بازار جيسي دنيا داري کي حدوں ميں داخل ہو جاتا ہے? ”نيکي کر دريا ميں ڈال“ کا محاورہ اسي اجلے خيال کي کوکھ سے پھوٹا کہ کارخير کو بھلا ديا جانا چاہئے? اگر کوئي آدمي، دريا ميں ڈال دينے کي بجائے اپني نيکي کو گوٹا کناري لگي مخملي پوٹلي ميں باندھ کر سر پر رکھ لے اور کسي عہدہ و منصب کي شکل ميں خلق خدا سے اس کا عوضانہ طلب کرنے لگے تو وہ اپنے کارخير کے تقدس کو بھي مجروح کرتا ہے اور اپني شخصيت کے جوہر خير کو بھي بے لاگ نہيں رہنے ديتا?
خان صاحب کو کرکٹ نے ايک نام اور شوکت خانم کينسر اسپتال نے ايک مقام ديا? يہ نام اور مقام وزارتوں، عہدوں، مراعات اور مفادات کيلئے اقتدار کي غلام گردشوں ميں رينگتے حشرات الارض جيسے سياست دانوں سے کہيں بڑا تھا? انہيں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ خير و فلاح کے ايک نيک نام منصوبے کو بغل ميں لے کر سياست کے کوئے ملامت ميں جانا مناسب نہ ہو گا? انہيں جاننا چاہئے تھا کہ سياست کے سينے ميں دل ہوتا ہے نہ آنکھوں ميں حيا? اس وادي? بے توقير ميں قدم رکھنے والے اچھے اچھے پارساؤں کي عباؤں اور قباؤں کے بخيے ادھيڑ ديئے جاتے ہيں? اگر سياست ميں آتے وقت وہ شوکت خانم اسپتال کو ٹرسٹ کے سپرد کر کے خود کو سياست کے حوالے کر ديتے تو بہتر ہوتا ليکن انہوں نے ايسا نہ کيا بلکہ شوکت خانم اسپتال ہي کو اپنے سياسي عزائم کا حوالہ اور قومي ليڈر کے طور پر اپني ”کوالي في کيشن“ بنا ليا? دوسري ٹھوکر انہوں نے يہ کھائي کہ تبديلي کا کوئي ٹھوس اور قابل عمل انقلابي ايجنڈا دينے کے بجائے انہوں نے الزامات کي سرخ آندھي چلائي اور سياسي حريفوں کو اپنے سينگوں ميں پرو ليا، عدالتوں ميں جانے اور ٹھوس شواہد پيش کرنے کے بجائے وہ اخباري تراشوں اور کتابي کہانيوں کي بنا پر دوسروں کي پيٹھ لہولہان کرتے رہے، تيسري کوتاہي ان سے يہ ہوئي کہ ايک باوقار، سنجيدہ خو اور تہذيب کے قرينوں سے آشنا قومي راہ نما کا متين، مہذب اور سلجھا ہوا انداز بيان اختيار کرنے کے بجائے، وہ تيسرے درجے کا بازاري لب و لہجہ اپناتے ہوئے دوسروں کي پگڑيوں سے کھيلنے لگے? ايسا کرتے ہوئے وہ چند اہم حقيقتيں نظر انداز کر بيٹھے? مثلاً يہ کہ سياست کوچہ? رسوائي ہے جہاں استثني? نام کي کوئي شے نہيں ہوتي? يہاں تو قائداعظم پر بھي سنگ زني ہوتي رہي اور سيد مودودي جيسے مرد پاکباز کا دامن بھي تار تار کر ديا گيا? خان صاحب يہ بھي بھول گئے کہ وہ شوکت خانم کينسر اسپتال کا طلائي تمغہ سينے پر سجا کر وزارت عظمي? کي دوڑ ميں شريک ہوتے ہوئے ايک نيک نام قومي فلاحي منصوبے کو کن خطرات سے دوچار کر رہے ہيں? انہيں يہ بھي ياد نہ رہا کہ خود ان کي زندگي بھي کچھ داستانيں رکھتي ہے? شيشے کے گھر ميں بيٹھ کر دوسروں پہ سنگ زني کرتے ہوئے وہ بھلا بيٹھے کہ ان کا دامن بھي اتنا پاک باز نہيں کہ نچوڑ ديں تو فرشتے وضو کريں اور پھر وہ يہ عام سي بات بھي بھلا بيٹھے کہ اگر وہ اٹھتے بيٹھتے دوسروں کو چور، ڈاکو، لٹيرے، اچکے، بدعنوان، حرام خور، بدکار اور منافق جيسے القابات شيريں سے نوازيں گے تو وہ ان کے حضور سر خميدہ، دست بستہ کھڑے ہو کر يہ سب کچھ نہيں سنتے رہيں گے? ان کے منہ ميں بھي زبان ہے اور وہ بھي قوت گويائي رکھتے ہيں? خان صاحب کو يہ بھي ياد نہ رہا کہ شوکت خانم اسپتال ان کا خواب و خيال سہي، ان کي محنت، لگن، عزم صميم اور جہد مسلسل کا ثمر سہي ليکن ان کي ذاتي يا خانداني ميراث نہيں? اس ميں لاکھوں پاکستانيوں کا خون جگر بھي شامل ہے? ان ايثار پيشہ افراد کي اکثريت ايسي ہے جو کروڑوں يا لاکھوں کا عطيہ ديتے ہوئے صرف ايک شرط لگاتي ہے? ”بس ہمارا نام کہيں نہ آئے، کسي کو پتہ نہ چلے?“ کتنے عظيم ہيں وہ لوگ!!
خان صاحب کو شايد احساس نہ ہو ليکن شوکت خانم اسپتال جيسے معتبر سماجي منصوبے کو سياست کي جولان گاہ ميں لا پھينکنا، کار دانش مندي نہ تھا? مجھے گزشتہ روز ہي جوہر ٹاؤن لاہور سے اخلاق احمد صاحب کا ايک خط موصول ہوا ہے? اخلاق صاحب کي والدہ کا کوئي بارہ برس پہلے اسپتال سے علاج ہوا? وہ بے حد متاثر ہوئے تب سے باقاعدگي کے ساتھ اسپتال کي مالي معاونت کر رہے ہيں? ان کا مکمل خط کسي اور دن کيلئے اٹھا رکھتے ہيں جس ميں انہوں نے 31/جولائي کو لاہور ميں شوکت خانم اسپتال کے سالانہ افطار ڈنر کا احوال لکھا ہے? اخلاق صاحب بتاتے ہيں کہ مرکزي ميز شوکت خانم اسپتال کے محسنين کے بجائے تحريک انصاف کے عمائدين سے آراستہ تھي? ”اگرچہ يہ اسپتال کي چندہ مہم تھي ليکن اس تقريب کو مکمل سياسي رنگ دے ديا گيا تھا? مقررين کي تقريروں اور دستاويزي فلموں کے ذريعے عمران کو ايک مسيحا اور ممکنہ نجات دہندہ ثابت کرنے کي پوري کوشش کي گئي? کمپيئر سے لے کر عام مقرر تک ہر کوئي عمران خان کي مدح سرائي ميں ايک دوسرے پر سبقت لے جانے کي کوشش کرتا رہا?“ يہ شوکت خانم اسپتال کو باقاعدگي سے مالي مدد فراہم کرنے والے ايک مستقل ڈونر کا ذاتي مشاہدہ ہے? خان صاحب کے اشتہارات، ان کے جلسے، ان کي تقارير، ان کي تيار کردہ فلميں، ان کي مدح ميں لکھي گئي تحريريں اور ان کي سياست کا عمومي رنگ و آہنگ، شوکت خانم اسپتال ہي سے عبارت ہے جس ميں اب ان کي قائم کردہ يونيورسٹي بھي شامل ہو گئي ہے? سوال يہ ہے کہ جب وہ اپنے ان کارہائے خير کو ہي اپني سياسي دکان کا سائن بورڈ اور اپنے سياسي عزائم کا عنوان جلي بنائيں گے تو پھر کيچڑ کے چھينٹے کيسے ان کي ذات تک محدود رہيں گے؟ جس طرح ايک ڈکٹيٹر فوج کي وردي پہنے سياست ميں آ جائے تو فوج کي ساکھ بہرحال مجروح ہوتي ہے اسي طرح کسي کارخير سے نام پانے والا سماجي کارکن جب انسانيت نوازي کي قبا پہنے سياست کے اکھاڑے ميں آ جائے تو اس کا غير سياسي، فلاحي منصوبہ بھي نشترزني سے محفوظ نہيں رہے گا? الزامات اتنے بودے بھي نہيں، ان پر پھر بات ہو گي? في الحال صرف اتني التماس ہے کہ خان صاحب اپنا فشار خون قابو ميں رکھيں? دشنام طرازي اور الزام تراشي کو فن کا درجہ دينے والوں ميں جوابي يلغار سہنے کا حوصلہ بھي ہونا چاہئے?
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=13062