جاسم محمد
محفلین
شوکت صدیقی خاموشی سے انٹیلیجنس اہلکاروں سے ملتے رہے، تقریر میں بغض نکالا، جسٹس بندیال
ویب ڈیسک 30 منٹ پہلے
ہمیں ملک کے اداروں کا دفاع کرنا ہے، اداروں کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا، جسٹس عمر عطا بندیال
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہمیں ملک کے اداروں کا دفاع کرنا ہے، اداروں کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت کی۔
شوکت عزیز کے وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ ریفرنس صدر مملکت نے نہیں بھیجا تھا، سپریم جوڈیشل کونسل نے خود نوٹس لے کر شوکاز نوٹسز اور ان کے جوابات کی بنیاد پر جج کو برطرف کیا۔
وکیل حامد خان نے جسٹس قاضی فائز عیسی صدارتی ریفرنس کا حوالہ دیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وقت قلیل ہے اتنی تفصیل میں مت جائیں، اس تقریر کا ہونا، اس کا متن، اس کے حقائق سب معلوم ہیں، آپ نے تقریر میں اپنا بغض نکال دیا، آپ نے لوگوں کے بارے میں شکایتیں کرنے کے لیے پبلک فورم چنا، ہمیں ملک کے اداروں کا دفاع کرنا ہے، اداروں کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا، ادارے پر حملے کی صورت میں شکایت کے لیے اندرونی طریقہ کار موجود تھا، یہ نئی روش شروع ہوئی ہے کہ سب کچھ پبلک کر دیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ صرف دو سوالوں کے جواب دیں، کیا یہ تقریر جج کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی تھی یا نہیں، ہمیں یہ بھی سمجھا دیں کہ کونسل کو مزید انکوائری کی ضرورت تھی یا نہیں؟۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں اوپن ٹرائل کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی، جج کی مدت ملازمت کے تحفط کے لیے اس کو بہت سے طریقے کار دیے گئے ہیں، انکوائری ہونا چاہئے تھی تا کہ سچ سامنے آ جاتا۔
جسٹس اعجازلاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ بہتر نہیں تھا ادارے پر حملے کی صورت میں پہلے تحفظات سے آگاہ کر دیا جاتا؟۔ اس پر حامد خان بولے کہ چیف جسٹس پاکستان سے ملنے کے لیے شوکت صدیقی نے چار مرتبہ اپائنٹمنٹ لی، قبول نہیں کی گئی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ یہ مان بھی لیں کہ شوکت عزیز صدیقی نے جو کہا سچ تھا تو کیا انھیں عدلیہ کے اندر معاملہ حل نہیں کرنا چاہئے تھا؟۔ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ شوکت عزیز صدیقی نام نہ لیتے تو بھی جرم نام لے لیا تو بھی جرم۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کو ایسے معاملے پر خود توہین عدالت کا نوٹس کرنا چاہئے تھا۔ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ جب معاملہ چیف جسٹس صاحبان کے علم میں آیا تو انھوں نے بھی توہین عدالت کا نوٹس نہیں کیا، شوکت عزیز صدیقی کیخلاف جو کرنا ہے کریں، انہوں نے تقریر میں جن کا نام لیا ان سے بھی پوچھا جائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی چیف جسٹس کو رپورٹ بھیجتے تو وہ اس پر ایکشن لیتے، انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، اگر مداخلت کی بات ہے تو عدلیہ کی آزادی کے کئی اور پہلو بھی ہیں، اگر ایک جج غلط کرتا ہے تو پوری عدلیہ کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے، شوکت عزیز صدیقی کا مداخلت کے لیے پبلک فورم کا استعمال غلط تھا، وہ خاموشی سے انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں سے ملتے رہے، وہ اگر بنچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھ سکتے تھے تو اس معاملے پر کیوں نا لکھا۔
وکیل حامد خان نے اپنے موکل کا بیان بتایا کہ مجھے اجازت دینی چاہئے تھی کہ تقریر کا مقصد بتاتا، میری تقریر کا مقصد عدلیہ کو بدنام کرنے کی نہیں نظام کو بہتر کرنے کی تھی، سپریم جوڈیشل کونسل کو خطرہ تھا کہ اگر انکوائری شروع ہوئی تو میرا موکل جرنیلوں کو بلانے کا کہے گا، اسی خطرے سے بچنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل نے میرے خلاف ایسے باتیں کی۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ ہمیں 30 جون کا خیال ہے، آرڈر کر رہے ہیں کہ جیسے ہی بنچ دستیاب ہو گا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
ویب ڈیسک 30 منٹ پہلے
ہمیں ملک کے اداروں کا دفاع کرنا ہے، اداروں کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا، جسٹس عمر عطا بندیال
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہمیں ملک کے اداروں کا دفاع کرنا ہے، اداروں کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت کی۔
شوکت عزیز کے وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ ریفرنس صدر مملکت نے نہیں بھیجا تھا، سپریم جوڈیشل کونسل نے خود نوٹس لے کر شوکاز نوٹسز اور ان کے جوابات کی بنیاد پر جج کو برطرف کیا۔
وکیل حامد خان نے جسٹس قاضی فائز عیسی صدارتی ریفرنس کا حوالہ دیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وقت قلیل ہے اتنی تفصیل میں مت جائیں، اس تقریر کا ہونا، اس کا متن، اس کے حقائق سب معلوم ہیں، آپ نے تقریر میں اپنا بغض نکال دیا، آپ نے لوگوں کے بارے میں شکایتیں کرنے کے لیے پبلک فورم چنا، ہمیں ملک کے اداروں کا دفاع کرنا ہے، اداروں کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا، ادارے پر حملے کی صورت میں شکایت کے لیے اندرونی طریقہ کار موجود تھا، یہ نئی روش شروع ہوئی ہے کہ سب کچھ پبلک کر دیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ صرف دو سوالوں کے جواب دیں، کیا یہ تقریر جج کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی تھی یا نہیں، ہمیں یہ بھی سمجھا دیں کہ کونسل کو مزید انکوائری کی ضرورت تھی یا نہیں؟۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں اوپن ٹرائل کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی، جج کی مدت ملازمت کے تحفط کے لیے اس کو بہت سے طریقے کار دیے گئے ہیں، انکوائری ہونا چاہئے تھی تا کہ سچ سامنے آ جاتا۔
جسٹس اعجازلاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ بہتر نہیں تھا ادارے پر حملے کی صورت میں پہلے تحفظات سے آگاہ کر دیا جاتا؟۔ اس پر حامد خان بولے کہ چیف جسٹس پاکستان سے ملنے کے لیے شوکت صدیقی نے چار مرتبہ اپائنٹمنٹ لی، قبول نہیں کی گئی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ یہ مان بھی لیں کہ شوکت عزیز صدیقی نے جو کہا سچ تھا تو کیا انھیں عدلیہ کے اندر معاملہ حل نہیں کرنا چاہئے تھا؟۔ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ شوکت عزیز صدیقی نام نہ لیتے تو بھی جرم نام لے لیا تو بھی جرم۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کو ایسے معاملے پر خود توہین عدالت کا نوٹس کرنا چاہئے تھا۔ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ جب معاملہ چیف جسٹس صاحبان کے علم میں آیا تو انھوں نے بھی توہین عدالت کا نوٹس نہیں کیا، شوکت عزیز صدیقی کیخلاف جو کرنا ہے کریں، انہوں نے تقریر میں جن کا نام لیا ان سے بھی پوچھا جائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی چیف جسٹس کو رپورٹ بھیجتے تو وہ اس پر ایکشن لیتے، انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، اگر مداخلت کی بات ہے تو عدلیہ کی آزادی کے کئی اور پہلو بھی ہیں، اگر ایک جج غلط کرتا ہے تو پوری عدلیہ کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے، شوکت عزیز صدیقی کا مداخلت کے لیے پبلک فورم کا استعمال غلط تھا، وہ خاموشی سے انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں سے ملتے رہے، وہ اگر بنچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھ سکتے تھے تو اس معاملے پر کیوں نا لکھا۔
وکیل حامد خان نے اپنے موکل کا بیان بتایا کہ مجھے اجازت دینی چاہئے تھی کہ تقریر کا مقصد بتاتا، میری تقریر کا مقصد عدلیہ کو بدنام کرنے کی نہیں نظام کو بہتر کرنے کی تھی، سپریم جوڈیشل کونسل کو خطرہ تھا کہ اگر انکوائری شروع ہوئی تو میرا موکل جرنیلوں کو بلانے کا کہے گا، اسی خطرے سے بچنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل نے میرے خلاف ایسے باتیں کی۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ ہمیں 30 جون کا خیال ہے، آرڈر کر رہے ہیں کہ جیسے ہی بنچ دستیاب ہو گا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔