راشد احمد
محفلین
اسلام آباد (رؤف کلاسرا) 8 سال تک پاکستان میں حکومت کرنے کے بعد اپنی واپسی سے پہلے سابق وزیراعظم شوکت عزیز خاموشی سے ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کے بیرونی ممالک سے ملنے والے 395 قیمتی تحائف جن میں دھاری دار خنجر، ہیرے، تاج، بریسلٹس، نیکلسز، سونے کے سکوں کے جوڑے، جیولری، گالف کٹس، رپیٹر گنز، جیولری باکسز، گولڈ پلیٹڈ تاج، ہیروں اور سونے سے بنے کانٹے، موبائل فونز، 6 عدد ہاتھ پر باندھنے والی گھڑیاں وغیرہ شامل ہیں، ساتھ لے گئے۔ کیبنٹ ڈویژن سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق ان تحائف کی قیمت کیبنٹ ڈویژن کی لگائی گئی قیمت سے بہت زیادہ ہے۔ برطانوی وزیراعظم کی بیوی سے ملنے والا ایک ہینڈ بیگ مضحکہ خیز طور پر صرف 300 روپے کا بتایا گیا یا اس سے بھی کم دو پاؤنڈ کا، جو وزیراعظم کی اہلیہ رخسانہ کو مفت دیئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بریسلٹس اور نیکلسز کو خاموشی سے سابق وزیراعظم کو اس وقت دیا گیا جب دو مرتبہ کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو اپنے دور میں ایک فرم سے صرف نیکلس لینے پر سوئٹزر لینڈ کی عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا تھا اور آصف زرداری و یوسف رضا گیلانی کو پاکستان میں احتساب کے نام پر نیب عدالتوں میں پیش کیا جا رہا تھا۔ شوکت عزیز چار قیمتی خنجر اور بیرونی ساختہ ایک ری پیٹر جو ان کو حکومت اومان سے ملی تھی بھی ساتھ لے گئے جن میں ہر ایک کی مالیت 10 لاکھ روپے تھی۔ بہرحال ذرائع کہتے ہیں کہ ان تحائف کی قیمت عام قیمت سے بہت کم لگائی گئی تاکہ یا تو وہ انہیں بغیر پیسوں یا برائے نام پیسے دے کر لے جائیں۔ اومان سے ملنے والی پرفیوم کی چار بوتلوں کی قیمت 2500 روپے فی کس لگائی گئی تاکہ وہ اضافی پیسے نہ دیں حتیٰ کہ چینی وزیراعظم سے ملنے والے تحفے کی قیمت مضحکہ خیز طور پر 350 روپے لگائی گئی۔ ملائیشین وزیراعظم سے ملنے والی نکٹائی 400 روپے، امپورٹڈ شرٹ 1000 روپے قیمت لگا کر بلامعاوضہ سابق وزیراعظم کو دی گئی۔ سابق وزیراعظم نے سونے کے سکے، نیکلسز، قیمتی گھڑیاں، جیولری، ہیرے، تاج اور دیگر قیمتی اشیاء کو حاصل کرنے کے لئے صرف 15 لاکھ روپے دیئے۔ قانون کے مطابق صدر، وزیراعظم یا کوئی وزیر تحفہ اسی وقت بلامعاوضہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے جب اس کی قیمت خاص فارمولے سے کم ہو لیکن سابق وزیراعظم نے قیمتی تحائف بلامعاوضہ اپنے پاس رکھے۔ اردن کے پرنس حسن بلال طلال سے ملنے والے تحائف کی قیمت فی کس 170 روپے لگائی گئی جو سابق وزیراعظم بلامعاوضہ لے گئے۔ سعودی بادشاہ تحائف دینے میں بڑے سخی ثابت ہوئے۔ انہوں نے 10 لاکھ مالیت کی نیکلس، بریسلٹ دو لاکھ 64 ہزار، دو لاکھ 54 ہزار کے کانٹے اور 73 ہزار 650 روپے کی انگوٹھی دی۔ شوکت عزیز نے ان اشیاء کو لینے کے لئے صرف دو لاکھ 43 ہزار روپے دیئے۔ برونائی کے بادشاہ نے لاکھوں روپے مالیت کے 8 تحائف، بحرین کے وزیراعظم نے لاکھوں کی رولیکس سمیت متعدد تحائف دیئے جو شوکت ساتھ لے گئے۔ ایران، سری لنکا، بھارت، جاپان، موریشس، بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ، ہالینڈ، دوبئی بینک، ملائشیاء، انقرہ کے میئر، سارک، افغان صدر کرزئی، چیک ری پبلک، تھائی لینڈ، امام رضا کے مزار کے متولی، مصر کے آرٹک گروپ، چین کے وزیراعظم، برونائی، کرغیزستان، بینکاک کے بینک، ترکی کے ایک کنٹریکٹر، وزیراعظم ترکی، بھارتی نیوز پیپر سوسائٹی، بنگلہ دیشی حکومت اور پرائیویٹ اداروں، اٹلی کے وزیراعظم، کویت کے وزیر خارجہ، سی این این میڈیا، کمانڈر نیشنل گارڈ بحرین، سمی کارپوریشن، ڈائیوو کارپوریشن، ہنڈائی کارپوریشن، شنگریلا ہوٹل، مہاتیر محمد کی بیوی، تھائی لینڈ کے وزیراعظم، سام سنگ کے کنٹری منیجر، تھائی لینڈ کے نائب وزیر، انڈونیشیا کے صدر، بھوٹان کے وزیراعظم، یو اے ای کے صدر، جرمنی کے وزیر دفاع، کویت کے سرمایہ کاروں، امریکی وزیر دفاع، ایرانی وزیر خارجہ، آسٹریلوی وزیراعظم، سپین کے وزیر دفاع، سٹی گروپ امریکہ، امریکی چیمبر، جارج بش، ترکی کے سفیر، برطانوی وزیر، اداکار بن کنگسلے، کشمیری وفد، لاہور چیمبر، وزیراعظم برطانیہ، امریکی چیئرمین آف جوائنٹ سٹاف کمیٹی، حکومت سندھ، چیئرمین اے ٹی جی، برطانوی طلبہ کے وفد، برطانوی وزیر اعظم کی بیوی، فیصل آباد سے ایم این اے عاصم نذیر، سری لنکا کے صدر، سعودی عرب کے ولی عہد، ازبکستان کے سفیر اور صدر، جنوبی افریقہ کی وزارت دفاع، انڈونیشیا کے صدر، وزیراعظم ملائیشیا، قبرص کے وزیر خارجہ اور وزیراعظم، قبرص کی اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر، جمہوریہ ہیلنسکی کے وزیراعظم، سعودی عرب کے المشعل گروپ، قطر کے وزیراعظم اور بحرین کی شاہی فوج کے کمانڈر سمیت دیگر حکومتوں، پرائیویٹ اداروں اور افراد سے شوکت عزیز کو لباس، سونے کے سکے، خنجر، تصاویر، شالیں، پتھر، سی ڈیز، کرکٹ بیٹ، اجرکیں، پیپر ویٹ، ڈنر سیٹ، کتابیں، سلور ٹریز، قالین، فریم شدہ قرآنی احادیث، پروفیومز، آیئنے، پھول، تکیے اور دیگر بے شمار اشیاء ملیں جو وہ نہایت کم یا بغیر قیمت اپنے ساتھ لے گئے۔ دی نیوز نے لندن میں شوکت عزیز سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جس پر ان کے ترجمان نے بتایا کہ سابق وزیراعظم نے تحائف کی صرف وہی چیزیں اپنے پاس رکھی ہیں جس کی اس وقت کے قانون کے مطابق اجازت تھی۔ لہٰذا ہم کون ہوتے ہیں جو قانون کیساتھ بحث کریں۔
حوالہ روزنامہ جنگ یکم جولائی
حوالہ روزنامہ جنگ یکم جولائی