شوکت عزیز کروڑوں کے تحائف خاموشی سے اپنے ساتھ لے گئے

راشد احمد

محفلین
اسلام آباد (رؤف کلاسرا) 8 سال تک پاکستان میں حکومت کرنے کے بعد اپنی واپسی سے پہلے سابق وزیراعظم شوکت عزیز خاموشی سے ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کے بیرونی ممالک سے ملنے والے 395 قیمتی تحائف جن میں دھاری دار خنجر، ہیرے، تاج، بریسلٹس، نیکلسز، سونے کے سکوں کے جوڑے، جیولری، گالف کٹس، رپیٹر گنز، جیولری باکسز، گولڈ پلیٹڈ تاج، ہیروں اور سونے سے بنے کانٹے، موبائل فونز، 6 عدد ہاتھ پر باندھنے والی گھڑیاں وغیرہ شامل ہیں، ساتھ لے گئے۔ کیبنٹ ڈویژن سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق ان تحائف کی قیمت کیبنٹ ڈویژن کی لگائی گئی قیمت سے بہت زیادہ ہے۔ برطانوی وزیراعظم کی بیوی سے ملنے والا ایک ہینڈ بیگ مضحکہ خیز طور پر صرف 300 روپے کا بتایا گیا یا اس سے بھی کم دو پاؤنڈ کا، جو وزیراعظم کی اہلیہ رخسانہ کو مفت دیئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان بریسلٹس اور نیکلسز کو خاموشی سے سابق وزیراعظم کو اس وقت دیا گیا جب دو مرتبہ کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو اپنے دور میں ایک فرم سے صرف نیکلس لینے پر سوئٹزر لینڈ کی عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا تھا اور آصف زرداری و یوسف رضا گیلانی کو پاکستان میں احتساب کے نام پر نیب عدالتوں میں پیش کیا جا رہا تھا۔ شوکت عزیز چار قیمتی خنجر اور بیرونی ساختہ ایک ری پیٹر جو ان کو حکومت اومان سے ملی تھی بھی ساتھ لے گئے جن میں ہر ایک کی مالیت 10 لاکھ روپے تھی۔ بہرحال ذرائع کہتے ہیں کہ ان تحائف کی قیمت عام قیمت سے بہت کم لگائی گئی تاکہ یا تو وہ انہیں بغیر پیسوں یا برائے نام پیسے دے کر لے جائیں۔ اومان سے ملنے والی پرفیوم کی چار بوتلوں کی قیمت 2500 روپے فی کس لگائی گئی تاکہ وہ اضافی پیسے نہ دیں حتیٰ کہ چینی وزیراعظم سے ملنے والے تحفے کی قیمت مضحکہ خیز طور پر 350 روپے لگائی گئی۔ ملائیشین وزیراعظم سے ملنے والی نکٹائی 400 روپے، امپورٹڈ شرٹ 1000 روپے قیمت لگا کر بلامعاوضہ سابق وزیراعظم کو دی گئی۔ سابق وزیراعظم نے سونے کے سکے، نیکلسز، قیمتی گھڑیاں، جیولری، ہیرے، تاج اور دیگر قیمتی اشیاء کو حاصل کرنے کے لئے صرف 15 لاکھ روپے دیئے۔ قانون کے مطابق صدر، وزیراعظم یا کوئی وزیر تحفہ اسی وقت بلامعاوضہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے جب اس کی قیمت خاص فارمولے سے کم ہو لیکن سابق وزیراعظم نے قیمتی تحائف بلامعاوضہ اپنے پاس رکھے۔ اردن کے پرنس حسن بلال طلال سے ملنے والے تحائف کی قیمت فی کس 170 روپے لگائی گئی جو سابق وزیراعظم بلامعاوضہ لے گئے۔ سعودی بادشاہ تحائف دینے میں بڑے سخی ثابت ہوئے۔ انہوں نے 10 لاکھ مالیت کی نیکلس، بریسلٹ دو لاکھ 64 ہزار، دو لاکھ 54 ہزار کے کانٹے اور 73 ہزار 650 روپے کی انگوٹھی دی۔ شوکت عزیز نے ان اشیاء کو لینے کے لئے صرف دو لاکھ 43 ہزار روپے دیئے۔ برونائی کے بادشاہ نے لاکھوں روپے مالیت کے 8 تحائف، بحرین کے وزیراعظم نے لاکھوں کی رولیکس سمیت متعدد تحائف دیئے جو شوکت ساتھ لے گئے۔ ایران، سری لنکا، بھارت، جاپان، موریشس، بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ، ہالینڈ، دوبئی بینک، ملائشیاء، انقرہ کے میئر، سارک، افغان صدر کرزئی، چیک ری پبلک، تھائی لینڈ، امام رضا کے مزار کے متولی، مصر کے آرٹک گروپ، چین کے وزیراعظم، برونائی، کرغیزستان، بینکاک کے بینک، ترکی کے ایک کنٹریکٹر، وزیراعظم ترکی، بھارتی نیوز پیپر سوسائٹی، بنگلہ دیشی حکومت اور پرائیویٹ اداروں، اٹلی کے وزیراعظم، کویت کے وزیر خارجہ، سی این این میڈیا، کمانڈر نیشنل گارڈ بحرین، سمی کارپوریشن، ڈائیوو کارپوریشن، ہنڈائی کارپوریشن، شنگریلا ہوٹل، مہاتیر محمد کی بیوی، تھائی لینڈ کے وزیراعظم، سام سنگ کے کنٹری منیجر، تھائی لینڈ کے نائب وزیر، انڈونیشیا کے صدر، بھوٹان کے وزیراعظم، یو اے ای کے صدر، جرمنی کے وزیر دفاع، کویت کے سرمایہ کاروں، امریکی وزیر دفاع، ایرانی وزیر خارجہ، آسٹریلوی وزیراعظم، سپین کے وزیر دفاع، سٹی گروپ امریکہ، امریکی چیمبر، جارج بش، ترکی کے سفیر، برطانوی وزیر، اداکار بن کنگسلے، کشمیری وفد، لاہور چیمبر، وزیراعظم برطانیہ، امریکی چیئرمین آف جوائنٹ سٹاف کمیٹی، حکومت سندھ، چیئرمین اے ٹی جی، برطانوی طلبہ کے وفد، برطانوی وزیر اعظم کی بیوی، فیصل آباد سے ایم این اے عاصم نذیر، سری لنکا کے صدر، سعودی عرب کے ولی عہد، ازبکستان کے سفیر اور صدر، جنوبی افریقہ کی وزارت دفاع، انڈونیشیا کے صدر، وزیراعظم ملائیشیا، قبرص کے وزیر خارجہ اور وزیراعظم، قبرص کی اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر، جمہوریہ ہیلنسکی کے وزیراعظم، سعودی عرب کے المشعل گروپ، قطر کے وزیراعظم اور بحرین کی شاہی فوج کے کمانڈر سمیت دیگر حکومتوں، پرائیویٹ اداروں اور افراد سے شوکت عزیز کو لباس، سونے کے سکے، خنجر، تصاویر، شالیں، پتھر، سی ڈیز، کرکٹ بیٹ، اجرکیں، پیپر ویٹ، ڈنر سیٹ، کتابیں، سلور ٹریز، قالین، فریم شدہ قرآنی احادیث، پروفیومز، آیئنے، پھول، تکیے اور دیگر بے شمار اشیاء ملیں جو وہ نہایت کم یا بغیر قیمت اپنے ساتھ لے گئے۔ دی نیوز نے لندن میں شوکت عزیز سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جس پر ان کے ترجمان نے بتایا کہ سابق وزیراعظم نے تحائف کی صرف وہی چیزیں اپنے پاس رکھی ہیں جس کی اس وقت کے قانون کے مطابق اجازت تھی۔ لہٰذا ہم کون ہوتے ہیں جو قانون کیساتھ بحث کریں۔

حوالہ روزنامہ جنگ یکم جولائی
 

راشد احمد

محفلین
شوکت عزیز 393 نہیں 736تحائف ساتھ لے گئے
اسلام آباد (رؤف کلاسرا) ارب پتی شوکت عزیز اپنے ساتھ جو تحائف لندن لے گئے ہیں ان کی اصل تعداد 393 نہیں بلکہ736 ہے۔ تحائف کی اصل مالیت 10کروڑ روپے ہے جبکہ سابق وزیراعظم نے ڈھائی کروڑ دیئے۔ شوکت عزیز کے ترجمان کے مطابق سابق وزیراعظم نے مروجہ پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کی اور قانونی طور پر تحائف اپنے پاس رکھے۔ ان تحائف میں ایک درجن نیکلس‘ (18 قیراط) سونا‘ طلائی سکے‘ موتی‘ تاج‘ ہیرے‘ رولیکس گھڑیاں‘ بریسلٹس‘ قالین اور چین کی طرف سے دےئے گئے پانڈے شامل ہیں۔ انہوں نے کیبنٹ ڈویژن کے کرتے دھرتاؤں کی مدد سے ان کی انتہائی کم قیمت لگوائی۔اس بات کا انکشاف سابق وزیراعظم کی طرف سے 3 سالہ دور کے دوران رکھے گئے غیر ملکی تحائف کے بارے میں جاری کی گئی نظرثانی شدہ اور تازہ ترین فہرست میں کیا گیا ان میں سے اکثر انہوں نے بلاقیمت یا ٹوکن قیمت ادا کر کے اپنے پاس رکھے۔ایک ذریعے نے بتایا کہ غیر ملکی سربراہان کی طرف سے دےئے گئے ان 736 تحائف کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر کھلی مارکیٹ میں قیمت 100 ملین روپے ہو چکی ہے لیکن ان کی قیمت محض 25 ملین لگائی گئی تاکہ 7 ارب روپے کے اعلان شدہ اثاثوں کا حامل اور ہماری تاریخ کا اہم ترین وزیراعظم ان کو بلاقیمت اپنے پاس رکھ سکے۔ نئی فہرست کے مطابق شوکت عزیز نے 3 تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائے جبکہ 733 تحائف / جنوری 2008ء میں اپنے ساتھ لندن لے گئے تاکہ لندن‘ دبئی اور امریکا میں اپنی رہائش گاہوں کو سجا سکیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق مسٹر کلین نے ایک سکارف بھی بلامعاوضہ / قیمت اپنے پاس رکھا جو گورنر نیپال نے گفٹ کیا تھا اور اس کی قیمت محض 25 روپے لگائی گئی اس قیمت پر تو لنڈا مارکیٹ میں پاکستان کا بنا ہوا سکارف بھی نہیں مل سکتا اور گورنر نیپال کے تحفے کی تو بات ہی کیا اس سکارف کی قیمت کم لگانے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ فہرست کی تازہ ترین فہرست سے انکشاف ہوتا ہے کہ شوکت عزیز نے شہزادہ چارلس اور ان کی اہلیہ کی طرف سے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر گفٹ کئے گئے جیولری باکس کو 2 ہزار روپے (14 پاؤنڈز) میں حاصل کیا اگر رائل جوڑے کو یہ علم ہو جائے کہ شوکت عزیز نے ان کے تحفے کو بلاقیمت اپنے پاس رکھنے کے لئے کس طرح قیمت لگائی تو وہ شرمندگی محسوس کرے گا۔ بدھ کے روز دی نیوز نے خبر دی تھی کہ ٹونی بلیئر کی اہلیہ نے شوکت عزیز کو ایک ہینڈ بیگ دیا تھا اس کی قیمت 3 سو روپے لگائی گئی تاکہ شوکت عزیز کی اہلیہ اسے بلاقیمت اپنے پاس رکھ سکے۔ تازہ ترین فہرست کے مطابق لیڈی ڈیانا کے سابق محبوب کے والد کے ملکیتی سٹور سے 4 بال پوائنٹس خریدی گئیں اور شوکت عزیز کو گفٹ کی گئیں ان بال پوائنٹس کی قیمت بھی محض 200 روپے (یعنی ڈیڑھ پاؤنڈ) لگائی گئی‘ چینی وزیراعظم نے رخسانہ عزیز کو ایک پانڈا تحفے میں دیا اس کی قیمت بھی صرف 1500 روپے لگائی گئی دورئہ چین کے موقع پر شوکت عزیز کو ایک جیولری باکس (جس پر موتیوں کی ماں تحریر تھا) تحفے میں ملا اس کی قیمت بھی صرف 6500 روپے لگائی گئی اور یہ بھی انہوں نے بلاقیمت اپنے پاس رکھ لیا۔ قبل ازیں دی نیوز نے بدھ کے روز خبر دی تھی کہ شوکت عزیز اپنے 3 سالہ دور کے دوران 393 تحائف لئے لیکن تازہ ترین فہرست سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تحائف کی تعداد پہلی تعداد سے دوگنا ہے اور اس طرح اس نامہ نگار کی خبر کی تصدیق ہو گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کرتے ہوئے شوکت عزیز دعویٰ کرتے تھے کہ وہ حکومت سے تنخواہ نہیں لیتے تاکہ سرکاری خزانے پر بوجھ نہ پڑے لیکن اب ظاہر ہو گیا کہ وہ 25 ملین روپے تحائف مفت لے جانے کے بجائے بہتر تھا کہ ہر ماہ ایک لاکھ روپے (3 برسوں میں 3.6 ملین روپے) تنخواہ لے لیتے۔ اسی طرح وزیراعظم بننے کے فوری بعد شوکت عزیز نے اپنے وفادار وزراء‘ سیکرٹریوں اور عہدیداروں کے بریگیڈ کے ہمراہ عمرہ ادا کیا اب یہ عہدیدار اور وزراء اپنے پسندیدہ وزیراعظم کی لوٹ مار پر خاموش ہیں جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی جیب سے اخراجات ادا کئے تھے لیکن بعدازاں قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ شوکت عزیز نے پوری قوم سے جھوٹ بولا کیونکہ حکومت نے 10.87 ملین سے زیادہ ادائیگی کی ہے ان کا عمرے کے اخراجات خود ادا کرنے کا دعویٰ سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے تھا۔ جب دی نیوز نے لندن میں شوکت عزیز کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی رائے دینے سے انکار کیا اور کہا کہ ”شوکت عزیز نے تحائف مروجہ پالیسی کے تحت اپنے پاس رکھے تھے“۔ 25 ملین روپے مالیت کے 736 تحائف کی دوسری فہرست میں بھی شوکت عزیز نے قیمتی نیکلس‘ بریسلٹس‘ ہیرے‘ طلائی سکے‘ رولیکس گھڑیاں‘ قالین‘ موبائل فونز‘ تاج‘ ٹی سیٹس وغیرہ کی کم قیمتیں لگوائیں اور توشہ خانہ میں انتہائی قلیل رقم جمع کروا کر اپنے پاس رکھ لئے۔ ذرائع نے بتایا کہ شوکت عزیز کو فائدہ پہنچانے کیلئے خصوصی طریقہ وضع کیا گیا کیونکہ بہت سے غیر ملکی تحائف کی قیمت ان کے پاکستان میں دستیاب وژن / ایڈیشن کے برابر لگائی گئی۔ مثلاً ناروے کے وزیراعلیٰ کی طرف سے تحفے میں دی گئی 2 سی ڈیز میں سے ہر ایک کی قیمت 200 روپے لگائی گئی جبکہ مغربی مارکیٹ میں اوریجنل سی ڈی کی کم از کم قیمت 30 پاؤنڈز ہے ۔ حتیٰ کہ بڑے سٹورز پر لگائی گئی لوٹ سیل پر بھی اس قیمت میں سی ڈی حاصل نہیں کی جاسکتی جس پر شوکت عزیز نے حاصل کی ۔ اس طرح ایک موتیوں والا ہار جو کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم نے تحفے میں دیا تھا کی قیمت 5 ہزار روپے لگائی گئی ۔ طلائی خنجر کی قیمت ایک لاکھ 29 ہزار 200 روپے لگائی گئی جبکہ ڈوماموسکو کی بنی ہوئی تلوار کی قیمت 4 ہزار اور سری لنکن وزیراعظم کی طرف سے گفٹ کئے گئے نیکلس کی قیمت 5 ہزار روپے لگائی گئی ۔ سری لنکا کی وزیراعظم کی طرف سے تحفے میں دیئے گئے طلائی اور ہیرے کے بنے ہوئے دو لاکٹس کی قیمت 14700 روپے لگائی گئی ۔ بحرین کے ولی عہد کی طرف سے دی گئی تلوار کی قیمت 9 ہزار اور نیکلس کی قیمت 15 ہزار روپے لگائی گئی ۔ چین کے وزیراعظم کی طرف سے گفٹ کئے گئے ڈی وی ڈی سیٹ کی قیمت 25 سو روپے لگائی گئی۔ سعودی فرمانروا نے دوسرا قیمتی ترین تحفہ شوکت عزیز کو دیا جو کہ 18 قیراط  سونے  ہیرے اور روبی کا ایک نیکلس  ایک Bracelet ائیررنگ کا جوڑا اور ایک انگوٹھی پر مشتمل جیولری سیٹ تھا اس کی قیمت 3.2 ملین روپے تھی ۔ شوکت عزیز اسے بھی اپنے ساتھ لندن لے گئے۔ کونسل آف قطر انٹرنیشنل بینک نے سعودیوں کی برابر کرنے کی کوشش کی اور ایک رولیکس گھڑی دی جس کی قیمت ایک لاکھ 30 ہزار روپے تھی  ایک دوسری گھڑی (EPOS) جس کی قیمت 65 ہزار روپے تھی ، ہاروڈز بال پوائنٹس جس کی قیمت 8 سو روپے تھی اور 2 گرین گولڈ قلم جن کی قیمت 1200 روپے تھی ، 250 روپے قیمت والے 4 ہاروڈز بال پوائنٹس ،1500 روپے کا پرفیوم اور چیئرمین وطن گروپ عبدالعزیز کی طرف سے 19750 روپے مالیت کی تلوار شوکت عزیز کو دی۔ یو اے ای کے ایچ ای سی نے 3 لاکھ 75 ہزار رپے مالیت کی (PIAGET)گھڑی  ایک لاکھ 20 ہزار روپے مالیت کی (Chopard) گھڑی اور 8 ہزار روپے مالیت کی پرفیوم شوکت عزیز کو دی۔ ابو ظہبی کی سمندر پار سرمایہ کاری کمپنی کے چیئرمین نے 1.2 ملین روپے مالیت کی رولیکس گھڑی دی جو کہ شوکت عزیز آج بھی استعمال کررہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم کی طرف سے دیئے گئے نیکلس کی قیمت 5 لاکھ 5 ہزار تھی ۔ یو اے ای کے صدر نے 5 لاکھ مالیت کی رولیکس گھڑی دی ۔ آذربائیجان کے نائب وزیراعظم نے ایک طلائی یادگاری سکہ دیا جو کہ شوکت عزیز حکومت کو دینے کے بجائے اپنے ساتھ لے گئے۔ ازبکستان کے صدر نے کشیدہ کاری والا 2 ہزار مالیت کا سفید گاؤن دیا ۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے ایک فاؤنٹین پین دیا جس کی مالیت 3 ہزار روپے تھی ۔ چینی ٹی وی نے 1500 مالیت کا ہوروسکوپ جس کے ساتھ محدب عدسہ بھی لگا تھا دی۔ یو اے ای کے صدر نے دوسرا تحفہ 9 لاکھ 28 ہزار مالیت کی رولیکس گھڑی دی۔ ایک ٹیبل کلاک جس کی قیمت 40 ہزار روپے ہے دیا اور ایک اور ررولیکس گھڑی دی جس کی قیمت 8 لاکھ 85 ہزار روپے دی اور شوکت عزیز یہ تمام تحائف لندن لے گئے۔یہ قیمتی تحائف کی فہرست شوکت عزیز کی طرف سے اپنے ساتھ لندن لے جائے جانے والے تحائف کی طویل فہرست کا اختتام نہیں ہے کیونکہ انہوں نے 25 روپے قیمت والا تحفہ نہیں چھوڑا تو پھر دوسرے قیمتی تحائف کی تو بات ہی کیا ہے لیکن جگہ کی قلت کے باعث ان تحائف کی مکمل تفصیل یہاں نہیں دی جا سکتی۔ شوکت عزیز پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جن کو 736 تحائف دےئے گئے اور انہوں نے صرف 3 کے علاوہ باقی اپنے پاس رکھ لئے اور اپنی لندن‘ دبئی اور امریکا میں اپنی رہائش گاہوں کو سجایا۔انہوں نے اس میں سے اکثر بلاقیمت اپنے پاس رکھے یا ان کی ٹوکن /علامتی قیمت ادا کی۔ کہا جاتا ہے کہ شوکت عزیز نے یہ قیمتی تحائف محض 25 ملین روپے میں حاصل کئے جو کہ اوپن مارکیٹ میں 100 ملین روپے مالیت رکھتے تھے۔ انہوں نے ایسا کابینہ ڈویژن کی مدد سے کیا جو کہ اس کے ساتھ بخوشی تعاون کر رہا تھا یہ جانے بغیر کہ ان کی اس سخاوت سے ملک کو بہت نقصان ہو رہا ہے کیونکہ اگر یہ تحائف شوکت عزیز کی رہائش گاہوں کی زینت بننے کی بجائے توشہ خانے میں ہوتے تو حکومت ان کی نیلامی سے100 ملین روپے سے زائد کما لیتی۔
 

عسکری

معطل
لعنت ہے ایسے لوگوں پر ساری دنیا میں وزیر اعظم ہاؤس کے اندر ایک میوزیم ہوتا ہے جس میں تحائف کو سجا کر رکھا جاتا ہے تاریخی یادگار کے طور پر۔
 

مہوش علی

لائبریرین
از رؤؤف کلاسرہ:
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کرتے ہوئے شوکت عزیز دعویٰ کرتے تھے کہ وہ حکومت سے تنخواہ نہیں لیتے تاکہ سرکاری خزانے پر بوجھ نہ پڑے لیکن اب ظاہر ہو گیا کہ وہ 25 ملین روپے تحائف مفت لے جانے کے بجائے بہتر تھا کہ ہر ماہ ایک لاکھ روپے (3 برسوں میں 3.6 ملین روپے) تنخواہ لے لیتے۔
پاکستان کے اس قانون پر بحث ہو سکتی ہے کہ آیا اسکی اجازت ہونی چاہیے کہ سربراہان مملکت اُن تحائف کو خرید سکیں جو انہیں مختلف ممالک سے ملے ہیں۔
اس بات پر بھی بحث ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں ان تحائف کی جو قیمت لگائی جاتی ہے وہ بھی اصل قیمت سے کم کیوں ہوتی ہے۔

مگر کلاسرہ صاحب نے جو اوپر والے اقتباس میں لکھا ہے وہ مکمل طور پر درست نہیں ہے اور نہ انصاف ہے۔

شوکت عزیز کو پاکستانی وزیر اعظم کے طور پر شاید ایک لاکھ تنخواہ ملتی، مگر شوکت عزیز نے جو قربانی پاکستان کے لیے دی ہے وہ یہ ایک لاکھ ماہانہ تنخواہ نہیں ہے۔ اور اگر کلاسرہ صاحب واقعی انصاف کرنا چاہتے تو وہ یہ حقیقت دیکھ سکتے تھے کہ:

1۔ شوکت عزیز صاحب سٹی بینک کے نائب صدر کے عہدے کے قریب تھے۔ اُس وقت انکی تخواہ کو مجھے تو علم نہیں، مگر کم سے کم تنخواہ بھی کئی ملین ڈالر سالانہ ہو گی۔ وہ اس جاب اور اس تنخواہ کو چھوڑ کر پاکستان کی خدمت کرنے آئے تھے۔

انسان کا اتنا ظرف ہونا چاہیے کہ وہ صحیح باتوں کو تسلیم کرے [ہو سکتا ہے کہ شوکت عزیز ان تحائف والے معاملے میں گنہگار ہوں، مگر اسکا مطلب نہیں کہ انہوں نے قربانی پاکستان کے لیے دی ہے اسکو جھٹلایا جائے]

2۔ شوکت عزیز صاحب بذات خود ایماندار انسان ہیں اور پوری زندگی ایمانداری سے انہوں نے روزی کمائی ہے ۔
یہ ہو سکتا ہے کہ سسٹم کی کرپشن کا اثر ان پر بھی کسی حد تک ہوا ہو، جیسا کہ ان تحائف کا مسئلہ ہے یا پھر چک شہزاد میں زمین کا مسئلہ۔

3۔ روؤف کلاسرہ لکھتے ہیں کہ شوکت عزیز کے اثاثے 7 ارب روپے کے ہیں۔
اگر ان 7 ارب روپوں کو بنک میں ہی رکھ دیا جائے تو پاکستانی انٹرسٹ ریٹ کے حساب سے ایک سال میں 1000 [ایک ہزار] ملین روپے انٹرسٹ ملے گا۔
جبکہ ان پر الزام ہے کہ سو ملین روپے کے تحائف انہوں نے 25 ملین روپے میں لیے ہیں۔ [یاد رہے شوکت عزیز کئی سال تک اپنی تنخواہ نہیں لیتے رہے اور یہ 75 ملین روپے سٹی بینک میں انکے دو چار مہینے کی تنخواہ سے زیادہ نہیں بنتے ہیں۔ ساتھ میں یہ بھی یاد رکھیں کہ اس وقت شاید وہ سٹی بینک کے نائب صدر یا صدر ہوتے اور انکی تخواہ کئی ملین ڈالر سالانہ ہوتی، مگر وہ صرف پاکستان کے لیے واپس آئے تھے]

بے شک یہ ہو سکتا ہے کہ کرپٹ سسٹم کا اثر ان پر بھی پڑا ہو اور انہوں نے چیزوں کو یوں لینا صحیح سمجھا ہو۔ اسکا حل شوکت عزیز پر الزامات لگانے کی بجائے بہتر ہے کہ اس سسٹم پر زیادہ ڈالا جائے۔

********************

مزید براں یہ کہ اس کرپٹ سسٹم کا پورا الزام صرف اور صرف شوکت عزیز کے کھاتے میں ڈال دینا کہاں تک درست ہے؟

میرا روؤف کلاسرہ صاحب سے سوال ہے کہ کیا شوکت عزیز واحد ہیں جنہوں نے اس طریقے سے تحائف خریدے ہیں؟ اور اگر نہیں، تو پھر آپ نے ان پچھلوں کو ذکر کیوں نہیں کیا اور سارا ملبہ شوکت عزیز پر ہی کیوں ڈال دیا ہے؟

*****************

اور آخر میں میں یہ کہوں گی کہ آپ لوگوں کو شوکت عزیز صاحب کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے۔ اور انکی اہمیت یہ ہے کہ عرب ممالک کے سربراہان آجکل انکے لیے خصوصی طور پر اپنے پرائیویٹ طیارے بھیجتے ہیں کہ وہ ان کی ریاستوں میں آئیں اور ان ریاستوں کی اکانومی کی بہتری کے لیے انہیں تجاویز دیں۔
لنک میں جلد پیش کرتی ہوں۔

*****************

نتیجہ:
ہو سکتا ہے کہ شوکت عزیز صاحب نے کچھ فوائد حاصل کیے ہوں جس کی پاکستان کا کرپٹ سسٹم لیگل صورت میں پیشکش کرتا ہے [جیسے یہ تحائف یا چک شہزاد میں گھر وغیرہ]، مگر اسکے باوجود اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ شوکت عزیز کی قربانیاں پاکستان کے لیے بہت زیادہ ہیں۔ 75 ملین روپے انکی کی دو چار ماہ کی تنخواہ کے برابر بھی نہیں اور وہ سٹی بینک کی کئی سال کی اپنی ذاتی تنخواہ قربان کے کے پاکستان کی خدمت کرنے کے جذبے کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ چنانچہ کلاسرہ صاحب کو شوکت عزیز صاحب کو کرپٹ انسان لکھنے کے ساتھ ساتھ ان حقائق کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تھا تاکہ انصاف ہو سکے۔
میں کلاسرہ صاحب کی طرف دیکھ رہی ہوں نا آپ لوگوں کی طرف۔ آپ لوگ مجھے سے اختلاف کر سکتے ہیں اور میں بھی آپ سے اختلاف کا حق رکھتی ہوں۔ اور میرا نقطہ نظر یہ ہے:

۔ دو طرح کی کرپشنز ہمارے سامنے ہیں اور ان میں کم از کم میں فرق کرتی ہوں:

1۔ کھلی کرپشن [جس میں ہمارے دیگر سیاستدان ملوث ہیں]

2۔ ایسے فوائد حاصل کرنا جن کی پیشکش پاکستانی کرپٹ سسٹم لیگل صورت میں کرتا ہے۔

۔ اور یقینی طور پر شوکت عزیز صاحب بذات خود کرپٹ انسان نہیں ہیں اور 1969 سے لیکر ابتک صرف اور صرف اپنی محنت اور پاک کیرئیر کی وجہ سے 7 ارب روپے کے اثاثوں کے مالک بنے ہیں۔ اور پھر اپنی کئی ملین کی جاب کو چھوڑ کر پاکستان آئے ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
شوکت عزیز صاحب بذات خود ایماندار انسان ہیں اور پوری زندگی ایمانداری سے انہوں نے روزی کمائی ہے
جس شخص نے حبیب بنک کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا، سٹیل مل کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی چکر میں تھے لیکن عدالت حرکت میں‌آگئی، سٹاک ایکسچینج سکینڈل سب ان کے کھاتے میں ہے۔

اگر ان 7 ارب روپوں کو بنک میں ہی رکھ دیا جائے تو پاکستانی انٹرسٹ ریٹ کے حساب سے ایک سال میں 1000 [ایک ہزار] ملین روپے انٹرسٹ ملے گا۔
زرداری کے اثاثے کیا کم ہیں پھر وہ کیوں صدر پاکستان بنا، کیونکہ پاکستان کرپشن، لوٹ مار کے لئے سازگار ملک ہے۔

شوکت عزیز کو پاکستانی وزیر اعظم کے طور پر شاید ایک لاکھ تنخواہ ملتی، مگر شوکت عزیز نے جو قربانی پاکستان کے لیے دی ہے وہ یہ ایک لاکھ ماہانہ تنخواہ نہیں ہے۔ اور اگر کلاسرہ صاحب واقعی انصاف کرنا چاہتے تو وہ یہ حقیقت دیکھ سکتے تھے کہ:
وزیر اعظم بن کرانہیں تنخواہ لاکھوں میں‌ملتی تھی لیکن کرپشن کرکے انہوں نے ملک کادیوالیہ نکال دیا ہے۔

مزید براں یہ کہ اس کرپٹ سسٹم کا پورا الزام صرف اور صرف شوکت عزیز کے کھاتے میں ڈال دینا کہاں تک درست ہے؟
کیونکہ شوکت عزیز بڑی مچھلی ہے باقی تو چھوٹی چھوٹٰی مچھلیاں ہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
راشد بھائی،
میرا نہیں خیال کے شوکت عزیز سے قبل آنے والے بینظیر اور نواز کے ادوار چھوٹی مچھلیوں کےدور تھے۔
نیز یہ کلاسرہ صاحب ہیں جو بطور وزیر اعظم تنخواہ کا صرف ایک لاکھ روپے ہونا بیان کر رہے ہیں اور شوکت عزیز صاحب کئی سال تک بطور وزیر اعظم کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے۔

اور جہاں تک سٹیل مل کا معامل ہے تو اس معاملے میں ہمارے میڈیا نے جتنا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا ہے اسکی انتہا مجھے کم ہی کم مزید دکھنے کو ملی ہے۔

سٹیل مل کے معاملے پر میری یہ پچھلی پوسٹ آپ کے لیے مفید ہو سکتی ہے [اگر آپ واقعی میڈیا کےجھوٹ سے ہٹ کر حقائق دیکھنا چاہتے ہیں]

سٹیل مل کا معاملہ

اقتباس:
اصل پيغام ارسال کردہ از: ساجداقبال
میں‌ آپکو مشورہ دونگا کہ آپ انٹرویو بذات خود دیکھ لیں۔اور ساتھ میں جنرل قیوم کا انٹرویو بھی، جنکے صدقے مشرف بڑے دھڑلے سے اپنی معاشی اصلاحات کی کامیابی کا ذکر کرتے تھے۔

بھائ جی،
جنرل قیوم نے کچھ غلط بیانیوں سے کام لیا ہے، اور میڈیا انہی غلط بیانیوں کو [اور صرف ان غلط بیانیوں کو] مزید بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔

سٹیل مل مشرف صاحب کے دور میں
کیا آپ کو پتا ہے کہ آپکی جمہوری حکومتوں کے تمام تر ادوار میں سٹیل مل زبردست خسارے میں تھی؟

اور یہ مشرف صاحب ہیں، کہ جن کے دور میں سٹیل مل کسی نہ کسی طرح اس خسارے سے باہر آئی۔ تو کم از کم سب سے پہلے آپ اسکا کریڈٹ تو مشرف صاحب کو دینے میں کنجوسی نہ دکھائیں۔

اور یہ کارنامہ تھا مشرف صاحب کے دور میں متعین ہونے والے سب سے پہلے چیئرمین کا [جن کا نام میرے ذہن سے اتر گیا ہے۔ یہ جنرل قیوم سے قبل چیئرمین بنے اور پھر انکا انتقال ہو گیا]۔

یاد رکھئیے، جب صدر مشرف حکومت میں آئے تھے تو سٹیل مل 20 ارب روپے کی مقروض تھی اور ہر سال ایک ارب روپے سے زیادہ حکومت کو خرچ کرنے ہوتے تھے تاکہ سٹیل مل زندہ رہے۔

جنرل قیوم کی غلط بیانی اور عالمی حالات سے ناآگاہی

جنرل قیوم نے سب سے پہلے سٹیل مل کی زمین کے متعلق غلط بیانی سے کام لیا ہے اور مکمل سچ عوام تک نہیں پہنچایا۔ اور اسکے بعد میڈیا کو تو کبھی مکمل سچ عوام تک پہنچانے کی کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی۔

سٹیل مل کا کل رقبہ 19,088 ایکڑ ہے [بمع پلانٹ اور رہائشی علاقے وغیرہ وغیرہ]۔

مگر حکومت نے سعودی توقیری گروپ سے جو ڈیل کی ہے، اس کے مطابق:

۱۔ توقیری گروپ کو صرف وہ رقبہ دیا گیا ہے جہاں پلانٹ واقع ہے۔ اور یہ رقبہ صرف 4,547 ایکڑ بنتا ہے۔

۲۔ مگر اس رقبے کے ساتھ بہت سی شرائط ساتھ لگی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے کبھی بھی زمین کی قیمت وہ نہیں ہو سکتی جو کہ جنرل قیوم بیان کر رہے ہیں۔

اسکی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اسلام کے وسط میں ایک بڑا کھیت ہے اور آس پاس اسلام آباد کے انتہائی مہنگے رہائشی پلاٹ وغیرہ۔ لیکن حکومت اگر اس بڑے کھیت کو اس شرط کے ساتھ بیچتی ہے کہ خریدنے والے پر لازم ہے کہ وہ اس کھیت کو کمرشل پلازہ یا رہائشی علاقے میں تبدیل نہیں کر سکتا، بلکہ یہاں صرف کھیتی باڑی ہی ہو گی، تو کبھی بھی اس کھیت کی زمین کی ویلیو آس پاس کے رہائشی پلاٹوں کی قیمت کے برابر نہیں ہو سکتی۔

اب جو شرائط اس ڈیل میں ملوث ہیں، وہ اس مثال سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں اور جب بھی بین الاقوامی لیول پر اس قسم کی ڈیل ہوتی ہے، وہاں اثاثوں کی کبھی وہ ویلیو نہیں ملتی، کیونکہ شرائط ایسی ہوتی ہیں کہ جتنا کام کرنے والا عملہ موجود ہے، وہ بھی خریدنے والے کی ذمہ داری ہے، اور وہ اس زمین اور اثاثوں کو بیچ نہیں سکتا بلکہ اسے ہر صورت میں اس پلانٹ پر کام کر کے ہی منافع بنانا ہے۔

اثاثوں کی جو ویلیو ایسی بین الاقوامی ڈیلوں میں ساتھ لگی شرائط کی وجہ سے صفر ہو جاتی ہے، اور صرف اور صرف اس چیز کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ خریدنے والا انویسٹمنٹ کر کے اُس پر کتنے فیصد منافع حاصل کر سکتا ہے۔

مثال کے طور پر:

Bear sterns was bought for "free" after us central bank (i can't recall what they call their state bank) financed (gave away) jp morgan's purchase of bear sterns for pennies against its $80+/share in feb 2008.

http://finance.google.com/finance?q=nyse:bsc


اور دوسری مثال ing bank کی ہے جو کڑوڑوں اثاثوں کے باوجود صرف ایک گلڈر میں بیچا گیا۔ [اور وجہ یہی تھی کہ خریدنے والا ایک ایک بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنے کے باوجود اس سے ۱۰ فیصد سالانہ منافع ہی حاصل کر سکتا تھا۔


/////////////////////////////////////

سٹیل مل کا مسئلہ آسان الفاظ میں یہ ہے:

۱۔ اس سٹیل مل کے 75 فیصد شیئرز 375 ملین روپے میں بیچے گئے ہیں جبکہ 25 فیصد شیئرز حکومت کے پاس ہیں۔

۲۔ اس لحاظ سے سٹیل مل کے ۱۰۰ فیصد قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں ۵۰۰ ملین ڈالر بنتی ہے۔ [میں آگے تمام گفتگو اس ۱۰۰ فیصد اثاثوں کے حوالے سے کر رہی ہوں تاکہ چیزیں آسانی سے سمجھ میں آ سکیں]

۳۔ اب توقیری گروپ جو ۵۰۰ ملیں ڈالر [سو فیصدی شیئر کے حساب سے] انویسٹ کر رہا ہے، تو کیا وہ اس قابل ہے کہ ہر سال اس سٹیل مل سے ۱۰۰ ملین ڈالر کا منافع کما سکے؟ [ ہر انویسٹر ۱۵ تا ۲۰ فیصد کا مارجن رکھتا ہے، کیونکہ ۵۰۰ ملین کو اگر بینک میں ہی رکھ دیا جائے تو 40 تا 50 ملین ڈالر تو انویسٹر کو ایسے ہی حاصل ہو جاتے۔
لہذا اگر انویسٹر ۵۰۰ ملین ڈالر کا رسک لے رہا ہے تو تو وہ یقینا ۱۰۰ ملین ڈالر تک کا منافع چاہے گا۔

4۔ سٹیل مل کی مشینری بہت ہی پرانی روسی مشینری ہے، اور یہ تمام تر ٹیکنالوجی انتہائی بوسیدہ اور آوٹ دیٹڈ ہو چکی ہے اور اس ٹیکنالوجی اور مشینری کا کوئی مستقبل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انیس سو ستر کی دھائی سے لیکر آج تک اس کی کیپسٹی کبھی ۱ ملین ٹن سے زیادہ نہ ہو سکی۔ اور اگر اسے بڑھانا مقصود ہو تو انتہائی ہیوی انوسٹمنٹ کر کے پوری مشینری ریپلیس کرنا پڑے گی۔

5۔ سٹیل مل کا اس سے بڑا مسئلہ اس کا بہت ہی بڑا عملہ ہے جو کہ ناکارہ کی حد تک کارآمد ہے۔ کئی ہزار کام کرنے والے سیاسی بنیادوں پر نوکری کا کارڈ رکھتے ہیں اور کام پر آئے بغیر تنخواہ پا رہے ہیں۔

توقیری گروپ کے ساتھ ڈیل میں اب یہ شامل ہے کہ وہ اسی پرانی بوسیدہ مشینری کو خریدیں [جسے جلد از جلد انہیں پھینک کر نئی مشینری لینا ہو گی] اور ان ہزاروں کے عملے میں سے ایک فرد کو بھی وہ نوکری سے نہیں نکال سکتے۔

/////////////////////////////

انٹرنیشنل مارکیٹ میں سٹیل مل جیسے اداروں کی قیمت


جنرل قیوم نے زمین کے اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیا اور یہ نہیں بتایا کہ پوری زمین کا سودا نہیں ہوا ہے اور نہ ہی زمین کی یوں آزادانہ قیمت لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ وہ لگا رہے ہیں۔ دوسری غلطی جنرل قیوم کی یہ ہے کہ انہیں ایسے اداروں کی پرائیوٹائزیشن عمل کا کچھ علم نہیں، مگر پھر بھی انہیں بولنے کا بہت شوق ہے۔

پہلی مثال:
Luxembourg-based arcelormittal claims that esmark breached its august 2007 agreement to purchase the sparrows point plant for $1.35 billion. The proposed sale fell through in december because of financing problems
http://www.businessweek.com/ap/finan.../d90i7rv00.htm

یاد رکھئیے:

۱۔ یہ sparrows point plane میں عملے کی تعداد صرف اور صرف 2500 ہے [پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں کہیں زیادہ کم]
۲۔ اور اس پلانٹ کی پروڈکشن سٹیل مل کی املین ٹن کے مقابلے میں 3٫5 ٹن سٹیل ہے۔ یعنی ساڑھے تین گنا زیادہ۔
3۔ یاد رکھئیے اس پلانٹ کی زمین کی فی ایکڑ قیمت پاکستان کی سٹیل مل سے کہیں زیادہ ہے۔

اس لحاظ سے پاکستان سٹیل مل کی قیمت ۵۰۰ ملین بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے بالکل صحیح [بلکہ بہتر ہے]۔


دوسری مثال:
http://www.nytimes.com/2005/10/25/bu...rssnyt&emc=rss

یوکرائنا کی یہ سٹیل مل 4٫8 بلین کی بکی ہے۔
مگر اس کے متعلق یاد رکھئیے:

۱۔ اس کی پروڈکشن سٹیل مل کی ۱ ملین ٹن کے مقابلے میں 8 ملین ٹن سے بھی زیادہ ہے۔
۲۔ عملے کی تعداد نسبتا تعداد پاکستان سٹیل مل کے عملے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
۳۔ زمین کی فی ایکڑ قیمت بہت زیادہ ہے۔
۴۔ اس قیمت میں نہ صرف پلانٹ شامل ہے بلکہ ایک ہزار million tons of iron ore کی مائنز کی زمین بھی اس قیمت میں شامل ہیں۔

اور اس قیمت پر یہ پلانٹ حاصل کرنے کے بعد بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اس گروپ نے اس پلانٹ کی بہت زیادہ قیمت ادا کر دی ہے جبکہ عالمی منڈی میں اسکی قیمت ہرگز اتنی نہیں ہے۔

پاکستان کی نسبت یوکرائنا یورپ ہے، امن امان کا ہرگز ہرگز کوئی مسئلہ نہیں، زمین کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں، انویسٹر تو بمشکل ہی پاکستان کر رخ کرتا ہے، مگر یورپین یونین میں انویسٹرز کی کوئی کمی نہیں۔۔۔۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے سٹیل مل کی مجموعی قیمت اگر ۵۰۰ ملین ڈالر لگائی گی ہے تو یہ ہرگز بُری ڈیل نہیں۔

مگر کیا ہے کہ جنرل قیوم اور ہمارا میڈیا ان عالمی حالات اور ایسی ڈیلز میں شرائط کے باعث اثاثوں کی قیمت کے صحیح تعین کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیتے رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کرنے کا بہت اچھا طریقہ ہے تاکہ چیزوں کو sensational بنایا جائے۔

اب میرا چیلنج ہے کہ عالمی مارکیٹ میں بے تحاشہ ایسی ڈیلز ہوئی ہیں،۔۔۔ ثابت کریں کہ کسی ایسی ڈیل میں اثاثوں کی قیمت آزادانہ طور پر متعین کر کے دی گئی ہو۔
میں نے اوپر دو سٹیل ملز کا ذکر کیا ہے۔ انکے علاوہ بھی اور سٹیل ملز کا سودا ہوا ہے، اور چیلنج ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اُنکی قیمت سٹیل مل سے زیادہ ادا کی گئی ہے۔ اس معاملے میں آپ لوگ خود ریسرچ کر سکتے ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے اپنا موقف اس لنک میں مکمل طور پر پیش کیا ہے:

http://www.privatisation.gov.pk/indu...2027-09-05.pdf
 

راشد احمد

محفلین
میرا نہیں خیال کے شوکت عزیز سے قبل آنے والے بینظیر اور نواز کے ادوار چھوٹی مچھلیوں کےدور تھے۔
نیز یہ کلاسرہ صاحب ہیں جو بطور وزیر اعظم تنخواہ کا صرف ایک لاکھ روپے ہونا بیان کر رہے ہیں اور شوکت عزیز صاحب کئی سال تک بطور وزیر اعظم کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے۔
میں نہیں سمجھتا کہ بے نظیر اور نواز شریف نے کرپشن نہ کی ہو۔ یہاں پر ماسوائے ایک دو حکومت کے ہردور میں کرپشن ہوئی ہے۔ اگر مشرف ایمانداری سے ان دونوں کا محاسبہ کرتا تو اربوں روپے حاصل ہوسکتے تھے اور نہ صرف ملک کا سارا قرضہ اتر سکتا تھا بلکہ کئی ہزار سکولز، کالجز، ہسپتال بن سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ مشرف کے ساتھ سارے کرپٹ افراد جن میں‌فیصل صالح حیات، راؤسکندراقبال، شیرپاؤ مل گئے اور کرپشن کی نئی مثالیں قائم ہوئیں۔ پھر این آر او نافذ کردیا گیا جس کا فائدہ اٹھاکر زرداری حکومت اور کابینہ نے کرپشن کی مثالیں قائم کردی ہیں اور یہ تاریخ کی سب سے بڑی کرپشن ہورہی ہے۔ اگر مشرف اپنے دور میں ان دونوں کرپٹ افراد اور ان کے ساتھیوں کا محاسبہ کرادیتا تو آج نہ شوکت عزیز کی کرپشن سامنے آتی اور نہ ہی زرداری کی۔
 

arifkarim

معطل
کرپشن تو سسٹم میں رٹی گھسی ہے۔ کس کس کو مؤرد الزام ٹھہرائیں گے۔ شروعات کرنی ہیں تو وزیر اعظم لیاقت علی خان کے احتساب سے اسٹارٹ لیں!
پھر دیکھیں کہ کرپشن پر کتنی کتب شائع ہوتی ہیں!
 
Top