Wasiq Khan
محفلین
شوہر کا شکوہ
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
زن مریدی ہی کروں میں اور مدہوش رہوں
طعنے بیگم کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں کوئی بزدل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مری تاب ِسخن ہے مجھ کو
شکوہ اک زوجہ سے ! خاکم بدہن ہے مجھ کو
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی رشتہ ترا
سر پٹختے ہوئے پھرتا تھا کبھی اّبا ترا
عورتیں کہتیں کوئی منہ ہے نہ ہے متھّا ترا
نہ کوئی ناک تھی تیری نہ تھا نقشہ ترا
کس قدر خوش تھا میں جس دن تیرا ڈولا نکلا
تیرا ڈولا تو مگر موت کا گولا نکلا
تو ہی کہہ دے تیرا فیشل ہے کرایا کس نے ؟
تُونے لہنگا جو کہا وہ بھی سلایا کس نے ؟
شہر یہ مونجودڑو پھر سے بسایا کس نے ؟
تُو بتا دے تجھے ’‘کُم کُم“ ہے بنایا کس نے ؟
میں تجھے پیار سے کہتا ہوں جو 'مِیرا ‘ ریما
اور تو ہے کہ مجھے کہتی ہے شفقت چیمہ
تو کہے یا نہ کہے فرش کو دھوتا میں ہوں
پہلے بچوں کو سلاتا ہوں تو سوتا میں ہوں
رات کو پچھلے پہر بیٹھ کے روتا میں ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ انساں نہیں ”کھوتا“ میں ہوں
پھر بھی تُو ہے کہ سدا مجھ سے خفا رہتی ہے
تیوری اک نئی ماتھے پہ سدا رہتی ہے
کبھی کہتی ہو ذرا پاؤں دباؤ اے میاں
بی پی اب لو ہے میراچائے بناؤ اے میاں
بھاگ کے جاؤ
لیگ پیس ہی لاؤ اے میاں
ہائے مر جاؤں گی مجھ کو تو بچاؤ اے میاں
کیسے کرتے ہیں تماشا کوئی سیکھے تم سے
تولا ہونا کبھی ماشا کوئی سیکھے تم سے
ہو کے میکے سے جو آتی ہو تو لڑتی کیوں ہو ؟
مجھ پہ اے جانِ غزل اتنا بگڑتی کیوں ہو ؟
بی پی بڑھ جائے گا تم اتنا جھگڑتی کیوں ہو ؟
بات ہو کوئی بھی ہر بات پہ اڑتی کیوں ہو ؟
مجھ سے ڈرنے کی جگہ مجھ کو ڈراتی کیوں ہو ؟
اوئے! کہہ کر مجھے دن رات بلاتی کیوں ہو ؟
تو جو سوتی ہے تو سالن بھی پکاتا ہوں میں
ٹیپو روتا ہے تو فیڈر بھی بناتا ہوں میں
گڈی جاگے ہے تو جھولا بھی جھلاتا ہوں میں
پّپو اٹھ بیٹھے جو راتوں کو کھلاتا ہوں میں
پھر بھی مجھ سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں
میں وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں