آصف شفیع
محفلین
غزل:
شکل دیکھی نہ شادمانی کی
پوچھتے کیا ہو زندگانی کی
ہر طرف وحشتوں کا ڈیرا ہے
حد نہیں کوئی لامکانی کی
تیرے خوابوں کی رات بھر دل نے
کس قرینے سے میزبانی کی
لفظ جو بھی رقم کیے میں نے
عمر بھر ان کی پاسبانی کی
دشمنوں نے مجھے نہیں مارا
دوستوں ہی نے مہربانی کی
تو نے عہدِ وفا کو بھی توڑا
اور خود سے بھی بد گمانی کی
عہدِ پیری کے چھوڑئیے قصّے
بات ہی اور ہے جوانی کی
دل نہیں ہے وہ سلطنت آصف
جس پہ شاہوں نے حکمرانی کی
( آصف شفیع)
شکل دیکھی نہ شادمانی کی
پوچھتے کیا ہو زندگانی کی
ہر طرف وحشتوں کا ڈیرا ہے
حد نہیں کوئی لامکانی کی
تیرے خوابوں کی رات بھر دل نے
کس قرینے سے میزبانی کی
لفظ جو بھی رقم کیے میں نے
عمر بھر ان کی پاسبانی کی
دشمنوں نے مجھے نہیں مارا
دوستوں ہی نے مہربانی کی
تو نے عہدِ وفا کو بھی توڑا
اور خود سے بھی بد گمانی کی
عہدِ پیری کے چھوڑئیے قصّے
بات ہی اور ہے جوانی کی
دل نہیں ہے وہ سلطنت آصف
جس پہ شاہوں نے حکمرانی کی
( آصف شفیع)