کاشفی
محفلین
غزل
(راز رامپوری)
شکوہء یار ہوا جاتا ہے
دل گنہگار ہوا جاتا ہے
دیکھ اے فرطِ جبیں فرسائی
کوئی بیزار ہوا جاتا ہے
میری ناکام نگاہوں کے لیئے
پھول بھی خار ہوا جاتا ہے
کام جو سہل نظر آتا تھا
اب وہ دشوار ہوا جاتا ہے
جب سے منشائے جنوں سمجھا ہوں
در بھی دیوار ہوا جاتا ہے
کیف تعزیر گھٹا دو ورنہ
دل خطا کار ہوا جاتا ہے
وقفِ در ہو نہ سکا سر میرا
زینتِ دار ہوا جاتا ہے
موت آسان نظر آتی ہے
جینا دشوار ہوا جاتا ہے
کس سے اُمید ِ کرم ہے اے راز
کیوں گنہگار ہوا جاتا ہے