شکوہ

محمد خلیل الرحمٰن

(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)

’’کیوں زیاں کار بنوں سُود فراموش رہُوں؟‘‘
میں خطا کار نہیں ، پھر بھی سِتم کوش رہوں
قہقہے روز سنوں ، اور ہمہ تن گوش رہوں
دوستو! میں کوئی احمق ہوں کہ خاموش رہوں

حوصلہ یہ مِری تائی سے مِلا ہے مجھ کو
شکوہ امّاں سے ہے، ابا سے گِلا ہے مجھ کو

یوں تو ہر گھر میں کِتابیں بھی ہیں ، بستے بھی ہیں
کچھ جو مہنگے ہیں اگر اُن میں ، تو سستے بھی ہیں
اکثر ابّا ہیں جو یہ دیکھ کے ہنستے بھی ہیں
کوئی دیکھے ہیں، نا پڑھنے پہ برستے بھی ہیں؟

اے مری امّی و ابّا مری تقصیر معاف
خُوگرِ حمد سے یوں ظلم کی تشہیر معاف


امیّاں اور بھی ہیں، اور بھی ابّا ہوں گے
اپنے بچوں سے محبت میں وہ یکتا ہوں گے
کچھ تو بچوں کے لیے پیار سراپا ہوں گے
پر نہ بچوں کو دھنکنے کے وہ رسیا ہوں گے

روز پٹنے کی جو شہرت ہےجو رُسوائی ہے
آج شکوہ مرے ہونٹوں پہ لوا لائی ہے


ہم سے پہلے تھا عجب اپنے گھروں کا منظر
بلیّاں تھیں کہیں پیاری کہیں بوتےتھے شجر
خُوگرِ پیکرِ انسان تھی ا مّاں کی نظر
پیار ان مصنوعی چیزوں سے وہ کرتی کیونکر؟

ہم نے آتے ہی یہ ماحول جو گھر کا بدلا
موڈ بلی کا ، تو حلیہ بھی شجر کا بدلا

آئے مہمان تو دروازہ ہمیں نے کھولا
ابّا گھر پر نہیں ، یہ جھوٹ سراسر بولا
ایسے مہمان تھے گھر بھر میں مچایا رَولا
بھانڈا پھوٹا ہے تو سوری بھی ہمیں نے بولا

آئے مہمان ، گئے بھینس کا انڈا لے کر
پھر تو ابّا مرے پیچھے گئے ڈنڈا لے کر

دادی اماں کا جو اِک پان تھا، کھایا کِس نے
رو رہا ہے جو یوں منّا ، تو رُلایا کِس نے
اباجانی کی کتابوں کو گرایا کِس نے
کام کرتی ہوئی وماسی کو ستایا کِس نے

ہاں شرارت سی شرارت ہوکوئی، مار پڑے
یاں تو ہر بات پہ، ہر کام پہ پھٹکار پڑے

کبھی دھوبی کی طرح میری دھلائی کی ہے
کبھی دفتر سے پہنچتے ہی پٹائی کی ہے
کبھی اتوار کو بس یونہی دھنائی کی ہے
بعد پٹنے کےتو خود ہم نے سنکائی کی ہے

ھائے امی کی جو آواز لگائی ہم نے
پیٹتے آپ تھے ، بس بات بنائی ہم نے

مکتبوں کا یہاں دستور نَرالا دیکھا
دِل تو کالے تھے، یہاں بورڈ بھی کالا دیکھا
خوش جو دیکھا، وہی استاد کا سالا دیکھا
یوں بھی اکثر ہی بڑے گیٹ پہ تالا دیکھا

ھائے امّاں مِری ! مکتب سے اُٹھالے مجھ کو
خود کسی طور سہی ،گھر پہ پڑھالے مجھ کو​
 

جیہ

لائبریرین
واہ واہ کیا بات ہے ۔۔خاص کر یہ۔۔۔۔
امیّاں اور بھی ہیں، اور بھی ابّا ہوں گے
اپنے بچوں سے محبت میں وہ یکتا ہوں گے
کچھ تو بچوں کے لیے پیار سراپا ہوں گے
پر نہ بچوں کو دھنکنے کے وہ رسیا ہوں گے

روز پٹنے کی جو شہرت ہےجو رُسوائی ہے
آج شکوہ مرے ہونٹوں پہ لوا لائی ہے

ویسے انکل جانی۔ یہ جگ بیتی ہے کہ "آپ" بیتی :)
 
کیا کہنے بھائی جی کیا کہنے مزا آ گیا قسمے ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا ویسے آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو آپ پر ہتک عزت کا دعویٰ ہو جاتا :laugh::laugh::laugh:
 

سیما علی

لائبریرین
شکوہ

محمد خلیل الرحمٰن

(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)

’’کیوں زیاں کار بنوں سُود فراموش رہُوں؟‘‘
میں خطا کار نہیں ، پھر بھی سِتم کوش رہوں
قہقہے روز سنوں ، اور ہمہ تن گوش رہوں
دوستو! میں کوئی احمق ہوں کہ خاموش رہوں

حوصلہ یہ مِری تائی سے مِلا ہے مجھ کو
شکوہ امّاں سے ہے، ابا سے گِلا ہے مجھ کو

یوں تو ہر گھر میں کِتابیں بھی ہیں ، بستے بھی ہیں
کچھ جو مہنگے ہیں اگر اُن میں ، تو سستے بھی ہیں
اکثر ابّا ہیں جو یہ دیکھ کے ہنستے بھی ہیں
کوئی دیکھے ہیں، نا پڑھنے پہ برستے بھی ہیں؟

اے مری امّی و ابّا مری تقصیر معاف
خُوگرِ حمد سے یوں ظلم کی تشہیر معاف


امیّاں اور بھی ہیں، اور بھی ابّا ہوں گے
اپنے بچوں سے محبت میں وہ یکتا ہوں گے
کچھ تو بچوں کے لیے پیار سراپا ہوں گے
پر نہ بچوں کو دھنکنے کے وہ رسیا ہوں گے

روز پٹنے کی جو شہرت ہےجو رُسوائی ہے
آج شکوہ مرے ہونٹوں پہ لوا لائی ہے


ہم سے پہلے تھا عجب اپنے گھروں کا منظر
بلیّاں تھیں کہیں پیاری کہیں بوتےتھے شجر
خُوگرِ پیکرِ انسان تھی ا مّاں کی نظر
پیار ان مصنوعی چیزوں سے وہ کرتی کیونکر؟

ہم نے آتے ہی یہ ماحول جو گھر کا بدلا
موڈ بلی کا ، تو حلیہ بھی شجر کا بدلا

آئے مہمان تو دروازہ ہمیں نے کھولا
ابّا گھر پر نہیں ، یہ جھوٹ سراسر بولا
ایسے مہمان تھے گھر بھر میں مچایا رَولا
بھانڈا پھوٹا ہے تو سوری بھی ہمیں نے بولا

آئے مہمان ، گئے بھینس کا انڈا لے کر
پھر تو ابّا مرے پیچھے گئے ڈنڈا لے کر

دادی اماں کا جو اِک پان تھا، کھایا کِس نے
رو رہا ہے جو یوں منّا ، تو رُلایا کِس نے
اباجانی کی کتابوں کو گرایا کِس نے
کام کرتی ہوئی وماسی کو ستایا کِس نے

ہاں شرارت سی شرارت ہوکوئی، مار پڑے
یاں تو ہر بات پہ، ہر کام پہ پھٹکار پڑے

کبھی دھوبی کی طرح میری دھلائی کی ہے
کبھی دفتر سے پہنچتے ہی پٹائی کی ہے
کبھی اتوار کو بس یونہی دھنائی کی ہے
بعد پٹنے کےتو خود ہم نے سنکائی کی ہے

ھائے امی کی جو آواز لگائی ہم نے
پیٹتے آپ تھے ، بس بات بنائی ہم نے

مکتبوں کا یہاں دستور نَرالا دیکھا
دِل تو کالے تھے، یہاں بورڈ بھی کالا دیکھا
خوش جو دیکھا، وہی استاد کا سالا دیکھا
یوں بھی اکثر ہی بڑے گیٹ پہ تالا دیکھا

ھائے امّاں مِری ! مکتب سے اُٹھالے مجھ کو
خود کسی طور سہی ،گھر پہ پڑھالے مجھ کو​
بے حد کمال !!!!!؟
خلیل بھائی سلامت رہیے۔:flower::flower::flower::flower::flower:
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
بہت عمدہ سر

مندرج ذیل دو لائنیں مجھ پر واضح نہیں ہوئیں

اکثر ابّا ہیں جو یہ دیکھ کے ہنستے بھی ہیں
کوئی دیکھے ہیں، نا پڑھنے پہ برستے بھی ہیں؟
 
Top