فرحان محمد خان
محفلین
خوابِ گل رنگ کے انجام پہ رونا آیا
آمدِ صبح شب اندام پہ رونا آیا
دل کا مفہوم اشاروں سے اجاگر نہ ہوا
بے کسئِ گلۂ خام پہ رونا آیا
کبھی الفت سی جھلکتی ہے کبھی نفرت سی
اے تعلق ترے ابہام پہ رونا آیا
مری خوشیاں کبھی جس نام سے وابستہ تھیں
جانے کیوں آج اسی نام پہ رونا آیا
لے کے ابھرے گی سحر پھر وہی پژمردہ کرن
کیا کہوں تیرگیِ شام پہ رونا آیا
بے سبب اپنی نگاہوں سے گرا جاتا ہوں
اس فسوں کاریِ الزام پہ رونا آیا
اتنے ارزاں تو نہیں تھے مرے اشکوں کے گہر
آج کیوں تلخیِٔ آلام پہ رونا آیا
لائق حسن نظر تھے نہ کبھی ان کے خطوط
آج محرومئِ پیغام پہ رونا آیا
اب بھی منزل مرے قدموں کی تمنائی ہے
کیا کہوں حسرتِ یک گام پہ رونا آیا
رونے والا تو کرے گا نہ کسی کا شکوہ
لاکھ کہئے غمِ ایام پہ رونا آیا
ان کے شبہات میں کچھ اور اضافہ تھا شکیبؔ
اشکِ سادہ کے اس انعام پہ رونا آیا
شکیب جلالی
----------------------------
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
شکیل بدایونی
آمدِ صبح شب اندام پہ رونا آیا
دل کا مفہوم اشاروں سے اجاگر نہ ہوا
بے کسئِ گلۂ خام پہ رونا آیا
کبھی الفت سی جھلکتی ہے کبھی نفرت سی
اے تعلق ترے ابہام پہ رونا آیا
مری خوشیاں کبھی جس نام سے وابستہ تھیں
جانے کیوں آج اسی نام پہ رونا آیا
لے کے ابھرے گی سحر پھر وہی پژمردہ کرن
کیا کہوں تیرگیِ شام پہ رونا آیا
بے سبب اپنی نگاہوں سے گرا جاتا ہوں
اس فسوں کاریِ الزام پہ رونا آیا
اتنے ارزاں تو نہیں تھے مرے اشکوں کے گہر
آج کیوں تلخیِٔ آلام پہ رونا آیا
لائق حسن نظر تھے نہ کبھی ان کے خطوط
آج محرومئِ پیغام پہ رونا آیا
اب بھی منزل مرے قدموں کی تمنائی ہے
کیا کہوں حسرتِ یک گام پہ رونا آیا
رونے والا تو کرے گا نہ کسی کا شکوہ
لاکھ کہئے غمِ ایام پہ رونا آیا
ان کے شبہات میں کچھ اور اضافہ تھا شکیبؔ
اشکِ سادہ کے اس انعام پہ رونا آیا
شکیب جلالی
----------------------------
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزلِ عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
شکیل بدایونی
آخری تدوین: