عائشہ عزیز
لائبریرین
نعت
وہ حبیبِ رب شہ دو سرا
وہ شعور و فکر کی آگہی
وہی نور حق وہی شمع جاں
وہ ہی کائنات کی روشنی
وہ دیار جود و سخا کہو
وہ مدینہ شہر وفا کہو
تمہیں کیا بتاؤں کہ اس جگہ
جو کہی ہے میں نے، سنی گئی
کبھی اہل عشق میں چھڑ گیا
جو بیانِ سیرت مصطفٰی
مجھے یوں لگا کوئی روشنی
میرے قلب و جاں میں اتر گئی
بجز ان کے ہے کوئی اور بھی
جو ہو جلوہ گر سرِ لا مکاں
نہ ملائکہ کا گزر جہاں
نہ پہنچ سکا کوئی آدمی
نہ وہ صبح ہے نہ وہ شام ہے
یہ انہی کا فیض دوام ہے
میرے الجھے کام سلجھ گئے
میری بگڑی بات سنور گئی
فقط آنسوؤں کے سوا کہاں
میرے پاس حسنِ عمل کوئی
یہ شکیل فیض ہے نعت کا
میری بات پھر بھی بنی رہی
شکیل مدنی