سلمان حمید
محفلین
میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرے کچھ بھی لکھنے یا دفتر میں یہ خبر سن کر واش روم میں چھپ کر آنسو بہانے سے کسی مرنے والے بچے یا ان کے روتے بلکتے ماں باپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میری تو شاید دعاؤں میں بھی اثر نہیں رہا اور کل سے یہ بھی پڑھ رہا ہوں کہ ان نو سے سولہ سال کے بچوں کو دعاؤں کی بھلا کیونکر ضرورت ہو گی جبکہ ان کے گناہ بھی ان کی طرح معصوم ہوں گے۔ لیکن میں جب صبح صبح ان بچوں کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے بھیجنے والی ماؤں کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے۔
بہت سے منہ بسورتے بچوں کو شاید پراٹھے یا ڈبل روٹی کا آخری نوالہ یا دودھ کے گلاس یا چائے کے کپ کا آخری گھونٹ پیچھے بھاگ کران کی ماؤں نے اپنے ہاتھوں سے گھر کے بیرونی دروازے پر ضد کر کے ان کے منہ میں ٹھونسا ہو گا۔ تقریباً ہر بچے کو اس کی ماں نے ناشتے کی میز پر، دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے درمیان میں روک کر یا پھر اس کے پاپا کے ساتھ گاڑی میں یا موٹر سائیکل پر بٹھاتے ہوئے چوما ہو گا اور کچھ نے تو اپنے لاڈلے کے ماتھے پر گرے ہوئے بال بھی سنوارے ہوں گے۔ کچھ بچوں نے تو سکول نہ جانے کے نقلی بہانے کیے ہوں گے اور ان کو ان کی ماؤں نے بہلا پھسلا کر سکول بھیجا ہو گا۔ ایسی مائیں تو خود کو معاف ہی نہیں کر پا رہی ہوں گی۔ ہماری مائیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے لگتی ہیں، یہ تو پھربھی بہت بڑی وجہ ہے خود کو سزاوار ٹھہرانے کی۔ میں نے سنا ہی نہیں، بلکہ دیکھا بھی ہے کہ بچے کے مرنے پر تو مائیں ایک دو دن یا کچھ ہفتے نہیں، بلکہ سالہا سال روتی ہیں۔ کبھی نماز کے بعد جائے نماز پر، کبھی محلے کی عورت کو کچھ بتاتے ہوئے، کبھی صحن میں بیٹھ کر قران پڑھتے ہوئے اور تقریباً روز رات کو بستر میں لیٹ کر، جب تک نیند آنسوؤں بھری آنکھوں میں گھس کر اپنی جگہ نہیں بنا لیتی۔ اور المیہ یہ ہے کو وہ سمجھتی بھی نہیں ہیں چاہے ان کو لاکھ سمجھایا جائے کہ شہید کی موت پر روتے نہیں ہیں، مرنے والے کو دکھ ہو تا ہو گا، اللہ کی مرضی میں راضی ہونا چاہیئے، وغیرہ وغیرہ۔
کیا ہم میں سے کسی کو کچھ دن سے زیادہ دکھ ہو گا؟ شاید کچھ لوگ تو رات گئی بات گئی والا حساب سمجھ کر بھول بھال بھی گئے۔ کل ہی یہ قیامت گزری اور میں نے آج دفتر سے چھٹی تک نہیں کی، سوگ نہیں منایا۔ آپ کے گھر کا کوئی فرد کم نہیں ہوا، میرے بچے بھی سلامت ہیں۔ لیکن ان ماں باپ کے آنگن کا خلا تو کبھی پورا نہیں ہو گا خاص طور پر جن کا مرنے والا بچہ اکلوتا تھا اور جب وہ سکول سے گھر آتا ہو گا تو درودیوار تک مسکرا اٹھتے ہوں گے۔ بچے تو ماں باپ کے گھر کی رونق ہوتے ہیں اور ان کے چلے جانے کے بعد ان کی ہر ایک ادا، گھر کے ہر کونے سے جڑی ان کی یادوں اور ان کی نت نئی ایجاد کردہ شرارتوں اور اٹھکیلیوں کا سوچ سوچ کر گھر کے باقی افراد، خاص طور پر ماؤں کو تو سانس تک لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ گو کہ میری دعاؤں میں اثر نہیں اور مائیں سمجھتی بھی نہیں لیکن میں پھر بھی ان تمام ماؤں کے لیے دعا کروں گا۔ آپ بھی کیجئے گا۔
بہت سے منہ بسورتے بچوں کو شاید پراٹھے یا ڈبل روٹی کا آخری نوالہ یا دودھ کے گلاس یا چائے کے کپ کا آخری گھونٹ پیچھے بھاگ کران کی ماؤں نے اپنے ہاتھوں سے گھر کے بیرونی دروازے پر ضد کر کے ان کے منہ میں ٹھونسا ہو گا۔ تقریباً ہر بچے کو اس کی ماں نے ناشتے کی میز پر، دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے درمیان میں روک کر یا پھر اس کے پاپا کے ساتھ گاڑی میں یا موٹر سائیکل پر بٹھاتے ہوئے چوما ہو گا اور کچھ نے تو اپنے لاڈلے کے ماتھے پر گرے ہوئے بال بھی سنوارے ہوں گے۔ کچھ بچوں نے تو سکول نہ جانے کے نقلی بہانے کیے ہوں گے اور ان کو ان کی ماؤں نے بہلا پھسلا کر سکول بھیجا ہو گا۔ ایسی مائیں تو خود کو معاف ہی نہیں کر پا رہی ہوں گی۔ ہماری مائیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے لگتی ہیں، یہ تو پھربھی بہت بڑی وجہ ہے خود کو سزاوار ٹھہرانے کی۔ میں نے سنا ہی نہیں، بلکہ دیکھا بھی ہے کہ بچے کے مرنے پر تو مائیں ایک دو دن یا کچھ ہفتے نہیں، بلکہ سالہا سال روتی ہیں۔ کبھی نماز کے بعد جائے نماز پر، کبھی محلے کی عورت کو کچھ بتاتے ہوئے، کبھی صحن میں بیٹھ کر قران پڑھتے ہوئے اور تقریباً روز رات کو بستر میں لیٹ کر، جب تک نیند آنسوؤں بھری آنکھوں میں گھس کر اپنی جگہ نہیں بنا لیتی۔ اور المیہ یہ ہے کو وہ سمجھتی بھی نہیں ہیں چاہے ان کو لاکھ سمجھایا جائے کہ شہید کی موت پر روتے نہیں ہیں، مرنے والے کو دکھ ہو تا ہو گا، اللہ کی مرضی میں راضی ہونا چاہیئے، وغیرہ وغیرہ۔
کیا ہم میں سے کسی کو کچھ دن سے زیادہ دکھ ہو گا؟ شاید کچھ لوگ تو رات گئی بات گئی والا حساب سمجھ کر بھول بھال بھی گئے۔ کل ہی یہ قیامت گزری اور میں نے آج دفتر سے چھٹی تک نہیں کی، سوگ نہیں منایا۔ آپ کے گھر کا کوئی فرد کم نہیں ہوا، میرے بچے بھی سلامت ہیں۔ لیکن ان ماں باپ کے آنگن کا خلا تو کبھی پورا نہیں ہو گا خاص طور پر جن کا مرنے والا بچہ اکلوتا تھا اور جب وہ سکول سے گھر آتا ہو گا تو درودیوار تک مسکرا اٹھتے ہوں گے۔ بچے تو ماں باپ کے گھر کی رونق ہوتے ہیں اور ان کے چلے جانے کے بعد ان کی ہر ایک ادا، گھر کے ہر کونے سے جڑی ان کی یادوں اور ان کی نت نئی ایجاد کردہ شرارتوں اور اٹھکیلیوں کا سوچ سوچ کر گھر کے باقی افراد، خاص طور پر ماؤں کو تو سانس تک لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ گو کہ میری دعاؤں میں اثر نہیں اور مائیں سمجھتی بھی نہیں لیکن میں پھر بھی ان تمام ماؤں کے لیے دعا کروں گا۔ آپ بھی کیجئے گا۔
آخری تدوین: