فرحت کیانی
لائبریرین
شہرِ آشوب
(ا)
لب شرر بار چشم اشک فشاں
زندگی مثلِ جُوئے دردِ رواں
منزلیں گم ہیں وادیاں حیراں
دل کا اجڑا نگر بساؤں کیسے
کم سواری کو شوق امامت کا
کوئی گوشہ نہیں ندامت کا
فتنہ اٹھا ہے کس قیامت کا
اُتر آئی زمیں پر کاہکشاں
در و دیوار پر سوار ہے شہر
سنگ و آہن سے گُل عذار ہے شہر
شوکتِ نو سے ہمکنار ہے شہر
عظمتِ رفتہ بستہ ٔ نسیاں
کہیں تصور میں چُھری بھونکی
آگ محراب تلے جھونکی
طُرفہ تزئین ہے دریچوں کی
طاقچوں پر صنم کدوں کا گماں
جگہیں سو ڈھنگ سے نکالی ہیں
وضعیں ہر چیز کی نرالی ہیں
طرحیں کیا کیا ہنر نے ڈالی ہیں
کارِ خوش طالعاں ہے کارِ مغاں
اگلے وقتوں کی خندقیں پاٹے
بھر رہی ہیں ہوائیں فراٹے
تنگ گلیوں کے سُونے سناٹے
شہ رہِ حسنِ عارضی پر رواں
قہوہ خانوں میں کُھلتی بے باکی
نرم باتیں ، شگفتہ چالاکی
رونقیں جمالِ تازہ کی
ہر کہن نقش معبدِ ویراں
کُشتہ ٔ گردشِ نگہ خاموش
جذبِ صادق کا زمزمہ خاموش
آتشِ عشقِ دل زدہ خاموش
ہوسِ مشتعل ہے نعرہ زناں
روح کے حُسن سے کدورت ہے
جسمِ تابندہ سے مہُورت ہے
ہر نظر مشتری کی صُورت ہے
جسم گویا دکانِ شیشہ گراں
نہر پر لہر لہر سینہ سپر
حوض کے گرد رقصِ برق و شرر
گوشہ ٔ باغ کا جواں منظر
دیکھ کر جل بُجھا ہے شوقِ تپاں
ہمہمہ خام سیم پاروں کا
جھاگ ہو جیسے آبشاروں کا
گرم رو قافلہ بہاروں کا
زرِ گل گردِ کاروانِ خزاں
(2)
بے بسی پر ستم پرستی کو
آزمانے کو فاقہ مستی کو
زندگی پر دراز دستی کو
تارِ زر سے رفُو ہوئی رگِ جاں
جبر پھیلا ہوا بہ زورِ سپاہ
جس کے ہاتھوں میں ہر سفید و سیاہ
ٹوٹنے ہی کو ہے یہ شہرِ پناہ
ورنہ کُھلتا نہ حلقہ ٔ زنداں
زہر ، پانی ، شراب ، شہد ، لہُو
اوک ، ساغر ، پیالہ ، جام ، سبُو
گھونٹ ، خُم ، جُرعہ ، قطرہ بہر گلُو
تشنگی کو ہیں سینکڑوں عنواں
جگمگائے برہنگی کے دیے
کُھل گئے چاک جو کبھی تھے سیے
خواہشوں نے حسیں اضافے کیے
ننگ، ناموس، نام سب رقصاں
شرع و آئین سے قلم چھینے
لیلی ٔ بزمِ ماہتابی نے
گردشِ چشمِ مست ساقی نے
تیز کی اور گردشِ دوراں
ذکرِ ماضی رہا نہ جاں افروز
حکمت آموز، شورِ عقبےٰ سوز
فکرِ فردا کو عشرتِ امروز
موت کے گھاٹ اُتار کر ہے رواں
عالمِ خواب میں ہے بیداری
رنگ لائی ہے طرفہ عیاری
در و دیوار پہ ہے خُوں کاری
گلی کُوچے مثالِ لالہ رُخاں
دَم جو انسانیت کا بھرتا ہے
لے کے وحشت کا نام اُبھرتا ہے
دیکھتی آنکھوں قتل کرتا ہے
شعبدہ باز ہے نیا انساں
جم گیا جیسے وقت کا دَھارا
سُن کھڑا ہے غریب سناٹا
کوئی طوفاں کہیں نہ حشر بپا
کہیں فریاد ہے نہ آہ و فغاں
بربریت کے عہدِ تازہ میں
روشنی کے مہیب صحرا میں
عاملوں کاملوں کی دُنیا میں
کہاں ملتے ہیں قاتلوں کے نشاں
جو کبھی تھا، نہیں ہے زیرِ نجوم
ہر حقیقت کے ساتھ ہے مرقوم
راست گوئی سے مدعا معدوم
زشت خوئی سے مشکلیں آساں
(3)
گندم امریکی، مَے ہوائی کی
صُورتیں سو ہیں آشنائی کی
وسعتیں کاسہ ٔ گدائی کی
سُن ہی کے خود کفیل ہے دہقاں
چاک کرنا زمیں کا سینہ کُجا
ہل کے پھل سے لگا خزینہ کُجا
اپنی محنت کے بل پہ جینا کُجا
اور کُجا عرضِ تنگیء داماں
اَب جو پایا الہٰ دیں کا چراغ
عرش پر ہے ستم گروں کا دماغ
دے رہی ہے گداگری وہ فراغ
جس سے چہرہ ہے مطلعِ تاباں
کب جفا کی مدافعت سے ہوئی
قحط سی پھیلی کیفیت سے ہوئی
چارہ سازوں کی مصلحت سے ہوئی
دانے دانے پہ ثبت مُہرِ تباں
ادب، اخلاق، احترام، یقیں
کھا گیا سب کو فکرِ نانِ جَویں
کہاں رکھتے ہیں آج دولتِ دیں
ہُن برستا ہے مُلحدوں کے یہاں
اجتماعی ضرورتوں سے لگے
اہلِ حرفہ کی بہتری کے لیے
دن کو ڈھلتے ہیں نیک منصوبے
جن کی لاشوں پہ رات نوحہ کناں
خستہ و خوار ہیں جوان وجیہہ
سگِ ہر کُو سے جن کو دیں تشبیہہ
تنگ گوشوں میں ہونکتے ہیں فقیہہ
رشکِ جنت قلندروں کے مکاں
صرف میں اجنبی کے گنگ محل
جن کی زینت میں مصرعہ ہائے غزل
اور محرومیوں کے دَل بَادل
بن گئے نصیبِ ہم وطناں
سِفلہ پرور کی درد مندی نے
بے حمیًت کی خود پسندی نے
نا سزاوار کی بلندی نے
ستمِ کَج رواں کیا ارزاں
خونِ ناحق سے زیست کو سینچا
بے محابا دروغ کو بھینچا
سرِ بازار وار پر کھینچا
عاقبت کے خیال کا ایماں
کاسہ لیسوں کے نام کا سکہ
صبح خیزوں کا ہر طرف ڈنکا
خانہ زادوں کو اور اِک تمغا
شورہ پُشتوں پہ وا درِ زنداں
بخششِ بے حساب نے توڑا
گر طلسم اقربا نوازی کا
صَدَفِ احتیاج تک نہ گیا
کسی عنوان بھی قطرہ ٔ نیساں
صف بہ صف خویش پروری طاری
نفع کوشی بہ فیضِ عیاری
مصلحت جذب و شوق پر بھاری
وقت کے ہاتھ میں خرد کی عناں
(4)
نئے اطوار کا جمال کہے
اجنبیت بڑھے، نصیب زہے
آدمی آدمی سے دُور رہے
ہر طرف یوں ہجومِ پیر و جواں
ہر ہوس نے بڑھا کے داماں کو
رکھ لیا یُوں جلو میں طوفاں کو
جس سے کاٹے ضمیرِ انساں کو
سروسامانِ آرزو کی زباں
کیفِ حالِ زبوں خریدنے کو
زندگی کا سکُوں خریدنے کو
اہلِ فن کا جنُوں خریدنے کو
فن پرستوں نے رکھ لئے درباں
بادِ صَرصَر سے شاخ ہلتی ہے
سانس آتی ہے موت ملتی ہے
سرد مہری کی دُھوپ کِھلتی ہے
پیار کی چھاؤں کھیلتی تھی جہاں
کبھی ہنگامہ پیدا کرتے تھے
آن پر جان سے گزرتے تھے
لذتِ سنگ پر جو مرتے تھے
بار ہے ان پہ جنبشِ مژگاں
سادہ لوحی کو پھر ہوا دھوکا
آدمیت کے خُوں نے پھر دیکھا
نظرِ خوش نِگر سے پھر اُلجھا
نفسِ گرم کا کثیف دُھواں
قیوم نظر
(ا)
لب شرر بار چشم اشک فشاں
زندگی مثلِ جُوئے دردِ رواں
منزلیں گم ہیں وادیاں حیراں
دل کا اجڑا نگر بساؤں کیسے
کم سواری کو شوق امامت کا
کوئی گوشہ نہیں ندامت کا
فتنہ اٹھا ہے کس قیامت کا
اُتر آئی زمیں پر کاہکشاں
در و دیوار پر سوار ہے شہر
سنگ و آہن سے گُل عذار ہے شہر
شوکتِ نو سے ہمکنار ہے شہر
عظمتِ رفتہ بستہ ٔ نسیاں
کہیں تصور میں چُھری بھونکی
آگ محراب تلے جھونکی
طُرفہ تزئین ہے دریچوں کی
طاقچوں پر صنم کدوں کا گماں
جگہیں سو ڈھنگ سے نکالی ہیں
وضعیں ہر چیز کی نرالی ہیں
طرحیں کیا کیا ہنر نے ڈالی ہیں
کارِ خوش طالعاں ہے کارِ مغاں
اگلے وقتوں کی خندقیں پاٹے
بھر رہی ہیں ہوائیں فراٹے
تنگ گلیوں کے سُونے سناٹے
شہ رہِ حسنِ عارضی پر رواں
قہوہ خانوں میں کُھلتی بے باکی
نرم باتیں ، شگفتہ چالاکی
رونقیں جمالِ تازہ کی
ہر کہن نقش معبدِ ویراں
کُشتہ ٔ گردشِ نگہ خاموش
جذبِ صادق کا زمزمہ خاموش
آتشِ عشقِ دل زدہ خاموش
ہوسِ مشتعل ہے نعرہ زناں
روح کے حُسن سے کدورت ہے
جسمِ تابندہ سے مہُورت ہے
ہر نظر مشتری کی صُورت ہے
جسم گویا دکانِ شیشہ گراں
نہر پر لہر لہر سینہ سپر
حوض کے گرد رقصِ برق و شرر
گوشہ ٔ باغ کا جواں منظر
دیکھ کر جل بُجھا ہے شوقِ تپاں
ہمہمہ خام سیم پاروں کا
جھاگ ہو جیسے آبشاروں کا
گرم رو قافلہ بہاروں کا
زرِ گل گردِ کاروانِ خزاں
(2)
بے بسی پر ستم پرستی کو
آزمانے کو فاقہ مستی کو
زندگی پر دراز دستی کو
تارِ زر سے رفُو ہوئی رگِ جاں
جبر پھیلا ہوا بہ زورِ سپاہ
جس کے ہاتھوں میں ہر سفید و سیاہ
ٹوٹنے ہی کو ہے یہ شہرِ پناہ
ورنہ کُھلتا نہ حلقہ ٔ زنداں
زہر ، پانی ، شراب ، شہد ، لہُو
اوک ، ساغر ، پیالہ ، جام ، سبُو
گھونٹ ، خُم ، جُرعہ ، قطرہ بہر گلُو
تشنگی کو ہیں سینکڑوں عنواں
جگمگائے برہنگی کے دیے
کُھل گئے چاک جو کبھی تھے سیے
خواہشوں نے حسیں اضافے کیے
ننگ، ناموس، نام سب رقصاں
شرع و آئین سے قلم چھینے
لیلی ٔ بزمِ ماہتابی نے
گردشِ چشمِ مست ساقی نے
تیز کی اور گردشِ دوراں
ذکرِ ماضی رہا نہ جاں افروز
حکمت آموز، شورِ عقبےٰ سوز
فکرِ فردا کو عشرتِ امروز
موت کے گھاٹ اُتار کر ہے رواں
عالمِ خواب میں ہے بیداری
رنگ لائی ہے طرفہ عیاری
در و دیوار پہ ہے خُوں کاری
گلی کُوچے مثالِ لالہ رُخاں
دَم جو انسانیت کا بھرتا ہے
لے کے وحشت کا نام اُبھرتا ہے
دیکھتی آنکھوں قتل کرتا ہے
شعبدہ باز ہے نیا انساں
جم گیا جیسے وقت کا دَھارا
سُن کھڑا ہے غریب سناٹا
کوئی طوفاں کہیں نہ حشر بپا
کہیں فریاد ہے نہ آہ و فغاں
بربریت کے عہدِ تازہ میں
روشنی کے مہیب صحرا میں
عاملوں کاملوں کی دُنیا میں
کہاں ملتے ہیں قاتلوں کے نشاں
جو کبھی تھا، نہیں ہے زیرِ نجوم
ہر حقیقت کے ساتھ ہے مرقوم
راست گوئی سے مدعا معدوم
زشت خوئی سے مشکلیں آساں
(3)
گندم امریکی، مَے ہوائی کی
صُورتیں سو ہیں آشنائی کی
وسعتیں کاسہ ٔ گدائی کی
سُن ہی کے خود کفیل ہے دہقاں
چاک کرنا زمیں کا سینہ کُجا
ہل کے پھل سے لگا خزینہ کُجا
اپنی محنت کے بل پہ جینا کُجا
اور کُجا عرضِ تنگیء داماں
اَب جو پایا الہٰ دیں کا چراغ
عرش پر ہے ستم گروں کا دماغ
دے رہی ہے گداگری وہ فراغ
جس سے چہرہ ہے مطلعِ تاباں
کب جفا کی مدافعت سے ہوئی
قحط سی پھیلی کیفیت سے ہوئی
چارہ سازوں کی مصلحت سے ہوئی
دانے دانے پہ ثبت مُہرِ تباں
ادب، اخلاق، احترام، یقیں
کھا گیا سب کو فکرِ نانِ جَویں
کہاں رکھتے ہیں آج دولتِ دیں
ہُن برستا ہے مُلحدوں کے یہاں
اجتماعی ضرورتوں سے لگے
اہلِ حرفہ کی بہتری کے لیے
دن کو ڈھلتے ہیں نیک منصوبے
جن کی لاشوں پہ رات نوحہ کناں
خستہ و خوار ہیں جوان وجیہہ
سگِ ہر کُو سے جن کو دیں تشبیہہ
تنگ گوشوں میں ہونکتے ہیں فقیہہ
رشکِ جنت قلندروں کے مکاں
صرف میں اجنبی کے گنگ محل
جن کی زینت میں مصرعہ ہائے غزل
اور محرومیوں کے دَل بَادل
بن گئے نصیبِ ہم وطناں
سِفلہ پرور کی درد مندی نے
بے حمیًت کی خود پسندی نے
نا سزاوار کی بلندی نے
ستمِ کَج رواں کیا ارزاں
خونِ ناحق سے زیست کو سینچا
بے محابا دروغ کو بھینچا
سرِ بازار وار پر کھینچا
عاقبت کے خیال کا ایماں
کاسہ لیسوں کے نام کا سکہ
صبح خیزوں کا ہر طرف ڈنکا
خانہ زادوں کو اور اِک تمغا
شورہ پُشتوں پہ وا درِ زنداں
بخششِ بے حساب نے توڑا
گر طلسم اقربا نوازی کا
صَدَفِ احتیاج تک نہ گیا
کسی عنوان بھی قطرہ ٔ نیساں
صف بہ صف خویش پروری طاری
نفع کوشی بہ فیضِ عیاری
مصلحت جذب و شوق پر بھاری
وقت کے ہاتھ میں خرد کی عناں
(4)
نئے اطوار کا جمال کہے
اجنبیت بڑھے، نصیب زہے
آدمی آدمی سے دُور رہے
ہر طرف یوں ہجومِ پیر و جواں
ہر ہوس نے بڑھا کے داماں کو
رکھ لیا یُوں جلو میں طوفاں کو
جس سے کاٹے ضمیرِ انساں کو
سروسامانِ آرزو کی زباں
کیفِ حالِ زبوں خریدنے کو
زندگی کا سکُوں خریدنے کو
اہلِ فن کا جنُوں خریدنے کو
فن پرستوں نے رکھ لئے درباں
بادِ صَرصَر سے شاخ ہلتی ہے
سانس آتی ہے موت ملتی ہے
سرد مہری کی دُھوپ کِھلتی ہے
پیار کی چھاؤں کھیلتی تھی جہاں
کبھی ہنگامہ پیدا کرتے تھے
آن پر جان سے گزرتے تھے
لذتِ سنگ پر جو مرتے تھے
بار ہے ان پہ جنبشِ مژگاں
سادہ لوحی کو پھر ہوا دھوکا
آدمیت کے خُوں نے پھر دیکھا
نظرِ خوش نِگر سے پھر اُلجھا
نفسِ گرم کا کثیف دُھواں
قیوم نظر