شہرِ دل سے نکال دے مجھ کو

ایم اے راجا

محفلین
ایک سادہ غزل برائے اصلاح و رائے حاضر ہے۔

شہرِ دل سے نکال دے مجھ کو
آج یہ بھی ملال دے مجھ کو

ایک آتش کدہ بپا کر کے
پھر یوں کر اس میں ڈال دے مجھ کو

تیری مٹھی میں آ گیا ہوں میں
جس طرف بھی اچھال دے مجھ کو

میں کہ پتھر ہوں نا تراشیدہ
جیسا چاہے جمال دے مجھ کو

مر گیا ہو کوئی بچھڑنے سے
ایک ایسی مثال دے مجھ کو

جو گوارہ نہیں ہوں ساحل پر
موجِ دریا میں ڈال دے مجھ کو

تھام کر میرے ہاتھ کو پھر سے
نت نیا اک خیال دے مجھ کو

میں گئے دور کی نشانی ہوں
اپنے دل میں سنبھال دے مجھ کو

ٹانگ کر سر صلیب پر میرا
میرے منصف کمال دے مجھ کو

خاک ہوں خاک سے ملوں راجا
اب تو اذنِ وصال دے مجھ کو
 

الف عین

لائبریرین
انتظار کا شکریہ۔

شہرِ دل سے نکال دے مجھ کو
آج یہ بھی ملال دے مجھ کو
///درست

ایک آتش کدہ بپا کر کے
پھر یوں کر اس میں ڈال دے مجھ کو
/// ایک تو بپا کرنے کا محاورہ غلط استعمال ہوا ہے، دوسرے ’یوں کر‘ میں واؤ اور ں کا سقوط نا گوار گزر رہا ہے۔ اور پھر آتش کدہ ہی کیوں؟
اس طرح کر کہ اک الاؤ جلا
اور پھر اس میں ڈال دے مجھ کو
سے بات بنتی ہے؟

تیری مٹھی میں آ گیا ہوں میں
جس طرف بھی اچھال دے مجھ کو
//درست بلکہ اچھا شعر ہے

میں کہ پتھر ہوں نا تراشیدہ
جیسا چاہے جمال دے مجھ کو
//پتھر یا نگینے کو تراشا جاتا ہے، ’جمال دینا‘ اتنا اچھا نہیں لگ رہا۔ کیا اس کو ڈھال نہیں کیا جا سکتا ہے؟ یعنی
جس طرح چاہے، ڈھال دے مجھ کو

مر گیا ہو کوئی بچھڑنے سے
ایک ایسی مثال دے مجھ کو
// درست

جو گوارہ نہیں ہوں ساحل پر
موجِ دریا میں ڈال دے مجھ کو
//بات کچھ بنی نہیں راجا۔ کیا ساحل اور موج دریا کے علاوہ کوئی اور امکان ہی نہیں؟ ساحل اور دریا سے ہی دور ہٹ جاؤ!! اس کا کچھ سوچو۔

تھام کر میرے ہاتھ کو پھر سے
نت نیا اک خیال دے مجھ کو
/// ’کو پھر سے‘ محلِ نظر ہے، یہ اچھا تاثر نہیں دیتا۔
تھام کر میرے ہاتھ پھر اک بار
نہیں کیا جا سکتا؟
دوسرے مصرع میں ‘پھر‘ کی کمی کھٹکتی ہے، اور دوسری طرف ’نت نیا اک‘ میں بھی روانی نہیں۔
پھر نیا اک/ نت نیا پھر/ پھر نیا سا خیال دے مجھ کو
کیسا رہے گا۔ اور محض روانی کا خیال رکھا جائے تو
ایک تازہ خیال دے مجھ کو
بھی ممکن ہے۔

میں گئے دور کی نشانی ہوں
اپنے دل میں سنبھال دے مجھ کو
//یہ ’سنبھال دے‘ کون سا محاورہ ہے، سنبھال لینا تو ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پہلا مصرع بہت اچھا ہے لیکن دوسرا مصرع اس کا قطعی ساتھ نہیں دے رہا ۔اگر ’سنبھال لے‘ بھی ہوتا تو سنبھالنے سے مراد ’سہارا دینا‘ تو ہو سکتا ہے۔ یہاں در اصل محل ’سنبھال کر رکھنا‘ کا ہے، جو ردیف میں آتا ہی نہیں۔ اس کا کچھ سوچو۔

ٹانگ کر سر صلیب پر میرا
میرے منصف کمال دے مجھ کو
//جب انتقال ہی کر جاؤ گے تو کیا کمال دکھاؤ گے؟؟ مذاق برطرف، لیکن مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کے علاوہ کھونٹی پر کوئی چیز ٹانگی جاتی ہے، ’لٹکانا‘ اور ’ٹانگنا‘ میں تھوڑا نازک سا یہی فرق ہے۔

خاک ہوں خاک سے ملوں راجا
اب تو اذنِ وصال دے مجھ کو
//یہ کس سے کہا جا رہا ہے، محبوب سے یا زمین سے؟ واضح اشارہ تو محبوب کی طرف ہی سمجھا جائے گا، لیکن اس سے وصال ’قبر رسید‘ کیوں کر دے گا، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شہرِ دل سے نکال دے مجھ کو
آج یہ بھی ملال دے مجھ کو

تیری مٹھی میں آ گیا ہوں میں
جس طرف بھی اچھال دے مجھ کو

میں کہ پتھر ہوں نا تراشیدہ
جیسا چاہے جمال دے مجھ کو

مر گیا ہو کوئی بچھڑنے سے
ایک ایسی مثال دے مجھ کو

دیکھ لایا ہوں عرض اک ادنٰی
در سے تِشنہ نہ ٹال دے مجھ کو

جی لیا ہے بہت جدا رھ کر
اب تو اِذنِ وِصال دے مجھ کو

تھام کر ہاتھ کو مرے ہمدم
ایک تازہ خیال دے مجھ کو

میں گئے دور کی نشانی ہوں
یوں نہ کونے میں ڈال دے مجھ کو

ٹانگ کر سر سرِ سِناں میرا
میرے دشمن کمال دے مجھ کو

خار ہیں بے شمار راہوں میں
حوصلہ بے مثال دے مجھ کو

عمر گذری ہے چپ رہے راجا
آج تو کہنے حال دے مجھ کو

( سر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ عرض ہے )
 

الف عین

لائبریرین
تین نئے اشعار،،،
ٹانگ کر سر سرِ سِناں میرا
میرے دشمن کمال دے مجھ کو
÷÷ شعر کی تفہیم نہیں ہو رہی۔ کمال سے کیا مراد ہے؟

خار ہیں بے شمار راہوں میں
حوصلہ بے مثال دے مجھ کو
۔۔ درست، لیکن کوئی خاص شعر نہیں

عمر گذری ہے چپ رہے راجا
آج تو کہنے حال دے مجھ کو
÷÷دوسرا مصرع عجیب سا ہے، الفاظ کی نا ہمواری کی وجہ سے۔حال کہنے دے تو درست ہے، لیکن کہنے حال دے؟؟
 

ایم اے راجا

محفلین
سر یہ بھی نئے اشعار ہیں

دیکھ لایا ہوں عرض اک ادنٰی
در سے تِشنہ نہ ٹال دے مجھ کو

جی لیا ہے بہت جدا رھ کر
اب تو اِذنِ وِصال دے مجھ کو

تھام کر ہاتھ کو مرے ہمدم
ایک تازہ خیال دے مجھ کو

میں گئے دور کی نشانی ہوں
یوں نہ کونے میں ڈال دے مجھ کو

کمال بلندی کے معنی مین بھی تو استعمال کیا جاتا ہے، اونچائی، استادی، بلندی۔
 

الف عین

لائبریرین
دیکھ لایا ہوں عرض اک ادنٰی
در سے تِشنہ نہ ٹال دے مجھ کو
÷÷شعر اور بہتر ہو سکتا ہے، مثلاً
دیکھ چھوٹی سی عرض لایا ہوں
یوں نہ پیاسا ہی تال دے مجھ کو

جی لیا ہے بہت جدا رھ کر
اب تو اِذنِ وِصال دے مجھ کو
÷÷درست

تھام کر ہاتھ کو مرے ہمدم
ایک تازہ خیال دے مجھ کو
÷÷ محبوب کا ہاتھ تھامنے سے ہی تازہ خیال آتا ہے، ویسے ہی نہیں آتا؟

میں گئے دور کی نشانی ہوں
یوں نہ کونے میں ڈال دے مجھ کو
÷÷درست، پسند آیا۔
کمال والا شعر ۔۔میں مطمئن نہیں، جب سر ہی نیزے پر چڑھ چکا تو کیا کمال کرو گے بھائی؟
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ سر۔

دیکھ لایا ہوں عرض اک ادنٰی
در سے تِشنہ نہ ٹال دے مجھ کو
÷÷شعر اور بہتر ہو سکتا ہے، مثلاً
دیکھ چھوٹی سی عرض لایا ہوں
یوں نہ پیاسا ہی تال دے مجھ کو


اصل میں ، یوں نہ سے یکسانیت پیدا ہو رہی ہے، یوں نہ پیاسا ہی۔۔۔۔۔۔ اور یوں نہ کونے میں۔۔۔۔۔ ین دونوں اشعار کے دونوں مصرعوں میں جو مجھے پسند نہیں، آپ کیا کہتے ہیں۔

ایک اور طرح سے ذہن میں آیا ہے۔ ایک ادنٰی سی عرض لایا ہوں ۔ دیکھ تِشنہ نہ ٹال دے مجھ کو

تھام کر ہاتھ کو مرے ہمدم
ایک تازہ خیال دے مجھ کو
÷÷ محبوب کا ہاتھ تھامنے سے ہی تازہ خیال آتا ہے، ویسے ہی نہیں آتا؟

سر، یہاں شاعر ایک خاص موقع اور خاص خیال ی بات کر را ہے، شعر کا پہلا مصرعہ ایک کٹھن سفر کا اشارہ کرتا ہے جس نے مسافر کو مایوس کر رکھا ہے، وہ اپنے دوست ( محبوب ) کو التجا کر رہا ہیکہ تو میرے ہاتھ کو تھام تا کہ میں مایوسی سے نکل سکوں اور اور ایک تازہ خیالِ منزل مجھے میسر آسکے، اب قاری کو اتنا تو سمجھنا چاہئیے نہ، اگر وہ اتنا بھی ذہن نہیں رکھتا تو شاعری پڑھنا ہی چھوڑ دے ;)
تھام کر میرے ہاتھ کو ہمدم
ایک تازہ خیال دے مجھ کو
میں نے شعر کے مصرعہ اول کی ترتیب تبدی کی ہے تا کہ مزید رواں و جائے۔

میں گئے دور کی نشانی ہوں
یوں نہ کونے میں ڈال دے مجھ کو
÷÷درست، پسند آیا۔
( بہت شکریہ ستاد محترم )
 
ایک آتش کدہ بپا کر کے
پھر یوں کر اس میں ڈال دے مجھ کو

اس طرح کر کہ اک الاؤ جلا
اور پھر اس میں ڈال دے مجھ کو

یوں ہی ہم آپ کے اشعار اور چاچو کے مشورے پڑھ رہے تھے تو سوچا کہ اگر الاؤ کو مزید حدت دینی ہو تو کچھ یوں کیا جا سکتا ہے۔ :)

نار نمرود کی مثال بنا
اور پھر اس میں ڈال دے مجھ کو
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت ابنِ سعید بہت خوشی ہوئی آپ کی یہاں تشریف آوری پر، بہت دن بعد دیدار کرایا ہے، ایسے لگتا ہے کہ یہ دریچہ ویران سا ہوتا جارہا ہے۔ بہرحال بہت شکریہ اور ایڈوانس عید مبارک۔
 
بھئی ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آپ کچھ پوسٹ کریں اور ہم اس کو نہ پڑھیں۔ بس مصروفیات کچھ ایسی بڑھی ہوئی تھیں کہ اپنی آمد کے نشانات چھوڑنا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔ نیز یہ کہ بعض احباب کو یہ غلط فہمی ہونے لگی تھی کہ معاذ اللہ ہمیں بھی ادب سے کچھ علاقہ ہے لہٰذا یہ الزام سر پر ڈھونا مشکل ہو رہا تھا سو ادبی دھاگوں میں اپنی غیر ضروری دخل اندازی سے بھی دانستہ احتراز برت رہے تھے۔ :)

عید آپ کو بھی بہت بہت مبارک ہو اور عالمی امن قائم ہو۔ آمین۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ کہ آپ آتے رہتے ہیں اور ہمیں پڑہتے رہتے ہیں لیکن کچھ نشان ضرور چھوڑا کریں ;)

آمین ۔ خدا کرے کے ہماری دعائیں برائے امن مقبول ہوں باوجود خستہ بال و پر کے انھیں طاقتِ پرواز ملے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ سر۔

دیکھ لایا ہوں عرض اک ادنٰی
در سے تِشنہ نہ ٹال دے مجھ کو
÷÷شعر اور بہتر ہو سکتا ہے، مثلاً
دیکھ چھوٹی سی عرض لایا ہوں
یوں نہ پیاسا ہی تال دے مجھ کو


اصل میں ، یوں نہ سے یکسانیت پیدا ہو رہی ہے، یوں نہ پیاسا ہی۔۔۔۔۔۔ اور یوں نہ کونے میں۔۔۔۔۔ ین دونوں اشعار کے دونوں مصرعوں میں جو مجھے پسند نہیں، آپ کیا کہتے ہیں۔

ایک اور طرح سے ذہن میں آیا ہے۔ ایک ادنٰی سی عرض لایا ہوں ۔ دیکھ تِشنہ نہ ٹال دے مجھ کو

تھام کر ہاتھ کو مرے ہمدم
ایک تازہ خیال دے مجھ کو
÷÷ محبوب کا ہاتھ تھامنے سے ہی تازہ خیال آتا ہے، ویسے ہی نہیں آتا؟

سر، یہاں شاعر ایک خاص موقع اور خاص خیال ی بات کر را ہے، شعر کا پہلا مصرعہ ایک کٹھن سفر کا اشارہ کرتا ہے جس نے مسافر کو مایوس کر رکھا ہے، وہ اپنے دوست ( محبوب ) کو التجا کر رہا ہیکہ تو میرے ہاتھ کو تھام تا کہ میں مایوسی سے نکل سکوں اور اور ایک تازہ خیالِ منزل مجھے میسر آسکے، اب قاری کو اتنا تو سمجھنا چاہئیے نہ، اگر وہ اتنا بھی ذہن نہیں رکھتا تو شاعری پڑھنا ہی چھوڑ دے ;)
تھام کر میرے ہاتھ کو ہمدم
ایک تازہ خیال دے مجھ کو
میں نے شعر کے مصرعہ اول کی ترتیب تبدی کی ہے تا کہ مزید رواں و جائے۔

میں گئے دور کی نشانی ہوں
یوں نہ کونے میں ڈال دے مجھ کو
÷÷درست، پسند آیا۔
( بہت شکریہ ستاد محترم )

سر اسے بھی دیکھیئے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
ادنیٰ سی عرض کچھ اجنبی سا لگتا ہے، عام بول چال میں ’چھوٹی سی‘ ہی بولا جاتا ہے۔
ایک چھوٹی سی عرض لایا ہوں ۔ دیکھ تِشنہ نہ ٹال دے مجھ کو یا دیکھ پیاسا نہ ٹال دے مجھ کو
کر دو۔
باقی شعر درست ہیں۔ تمہاری تبدیلی بھی بجا ہے۔
 
Top