ایم اے راجا
محفلین
ایک سادہ غزل برائے اصلاح و رائے حاضر ہے۔
شہرِ دل سے نکال دے مجھ کو
آج یہ بھی ملال دے مجھ کو
ایک آتش کدہ بپا کر کے
پھر یوں کر اس میں ڈال دے مجھ کو
تیری مٹھی میں آ گیا ہوں میں
جس طرف بھی اچھال دے مجھ کو
میں کہ پتھر ہوں نا تراشیدہ
جیسا چاہے جمال دے مجھ کو
مر گیا ہو کوئی بچھڑنے سے
ایک ایسی مثال دے مجھ کو
جو گوارہ نہیں ہوں ساحل پر
موجِ دریا میں ڈال دے مجھ کو
تھام کر میرے ہاتھ کو پھر سے
نت نیا اک خیال دے مجھ کو
میں گئے دور کی نشانی ہوں
اپنے دل میں سنبھال دے مجھ کو
ٹانگ کر سر صلیب پر میرا
میرے منصف کمال دے مجھ کو
خاک ہوں خاک سے ملوں راجا
اب تو اذنِ وصال دے مجھ کو
آج یہ بھی ملال دے مجھ کو
ایک آتش کدہ بپا کر کے
پھر یوں کر اس میں ڈال دے مجھ کو
تیری مٹھی میں آ گیا ہوں میں
جس طرف بھی اچھال دے مجھ کو
میں کہ پتھر ہوں نا تراشیدہ
جیسا چاہے جمال دے مجھ کو
مر گیا ہو کوئی بچھڑنے سے
ایک ایسی مثال دے مجھ کو
جو گوارہ نہیں ہوں ساحل پر
موجِ دریا میں ڈال دے مجھ کو
تھام کر میرے ہاتھ کو پھر سے
نت نیا اک خیال دے مجھ کو
میں گئے دور کی نشانی ہوں
اپنے دل میں سنبھال دے مجھ کو
ٹانگ کر سر صلیب پر میرا
میرے منصف کمال دے مجھ کو
خاک ہوں خاک سے ملوں راجا
اب تو اذنِ وصال دے مجھ کو