جاوید بھائي ۔ کیوں نہیں ۔ اس لیے ہی تو میں نے یہاں پر یہ ڈور شروع کی ہے کہ میں یہاں پر آپ سب ساتھیوں کو اپنے شہر بہاولپور کی سیر کرواؤں ۔
اس محفل میں بہت سے ساتھی یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ میرے اوتار کے ساتھ ہی اپنے شہر کے نام کے ساتھ ۔ شہر محبت کیوں لکھا ہے ؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ بات یہ ہے کہ میں ایک بلاگ لکھتا ہوں اور ایک دفعہ میں نے اپنے بلاگ میں اسی نام سے ایک پوسٹ شائع کی تھی ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں وہ پوسٹ دوبارہ سے یہاں نکل کروں اور آپ اس کو ضرور پڑھیں ۔
شہرِ محبت
بہاولپور آپ کے لیے تو صرف ایک شہر کا نام ہے ۔ لیکن میرے لیے ایک ایسا لفظ ہے جو ہزاروں احساسات کو جنم دیتا ہے ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کیسے سنگدل ہیں وہ لوگ جو چند مفادات کی خاطر بڑی آسانی سے اپنی جنم بھومی سے دامن چھڑا لیے ہیں ۔ یہ میرا آبائی شہر نہیں پر مجھے اپنے آباء کی طرح عزیز ہے ۔ کیوں نہ ہو ؟ اس شہر نے مجھے لمحہ پیدائش سے اب تک صرف جینے کا سامان ہیں نہیں بلکہ مخصوص انداز فکر ، سوچ ، خواہشات ، اپنے ، پر اے ، دوست ، دشمن ، ہمساے ، ہم جماعت ، اساتزہ ، شاگرد اور یہ سفید پوشی ، غرض سب کچھ ورثے میں دیا ہے ۔ یہ بھی تو ورثہ ہے جو دولت اور خاندانی نام سے زیادہ قیام پزیر ہے ۔ دولت تو آپ کو چھوڑ سکتی ہے لیکن وہ مخصوص انداز فکر نہیں جو ایک شہر میں برس ہا برس رہنے سے پروان چھڑھتی ہے اور آپ کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے ۔پھر تمام عمر آپ اس مخصوص انداز فکر سے دنیا کو دیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی انداز میں سوچنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔
کسی بھی شہر میں پنپنے والی یہ مخصوص انداز فکر شہریوں کے رویے متعین کرتی ہے ۔ اور لوگوں کے یہ اجتمائی رویے انہیں کی قسمتیں لکھتے ہیں ۔ اجتمائی رویے قدرتی یا حقیقت پر مبنی ہوں تو قسمت بنتی ہے ورنہ بگڑ جاتی ہے ۔ غلط اجتمائی رویے رکھنے والا شہر ، شہر محبت نہیں ہوتا بلکہ ایسے شہر کی ماند ہوتا ہے جسے انسانی خودغرضی نے جیتے جاگتے قبرستان میں تبدیل کر دیا ہو ۔شہر مکانوں سے نہیں ، مکینوں سے آباد ہوتے ہیں ۔ انہیں کی آمد سے بستے ہیں اور انہیں کے چلے جانے سے اجڑ جاتے ہیں ۔ یہ انسانی زندہ دلی ہے جو ایک شہر میں جان ڈالتی ہے ۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بیتے زمانوں کے قدیم شہر محبت کتنے زندہ تھے ۔ جنہوں نے کئی ایک لازوال تہزیبوں اور مزاہب کو جنم دیا ۔ آج کے یہ جدید شہر کتنے مردہ ہیں ۔ جن کی تجوریاں روپے پیسے تو اگلتی ہیں لیکن یہاں فکروعمل کی شمعیں روشن نہیں ہوتیں ۔ دور جدید کے ان مردہ شہروں میں انسان مشین کی طرح روز وشب کام کرتا ہے اور پھر ناکارہ پرزے کی طرح ٹوٹتا ہے اور بکھر جاتا ہے ۔
ایسے انسان کو بھلا کون زندہ کہے گا ؟ جو سانس تو لے لیکن اس کا دل مردہ ہو ۔ ایسے انسان کو بھلا کون شخص کہے گا ؟ جس کی شخصیت کی خودغرضی اور لالچ نے دھجیاں بکھیر دی ہوں ۔ ایسے انسان میں روح کی موجودگی کا کون ثبوت دیگا ؟ جس کی روح کی روحانیت کو نفسانی خواہشات کی اندھی تقلید نے مجروح کر دیا ہو ۔
روح ، روح سے لگاو رکھتی ہے ۔ اسی طرح روحانیت ، روحانیت کو پہچانتی ہے اور اس سے قربت حاصل کرنے میں ایسے ایسے مقام طے کرتی ہے جن کی موجودگی کو بے روح ، نیم مردا دل کبھی سمجھ نہیں پایا ۔ جو دل ، شہر محبت میں بسی اس روحانت کو پہچانتا ہے ، ہم اسے دل بینا کہتے ہیں ۔
ایسے ہی دل بینا کو ہر انسان میں بیدار کرنے کی آس میں حضرت اقبال لکھتے ہیں
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور ، دل کا نور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے ، جس میں حور نہیں
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں
ایک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے
ایک جنوں ہے کہ با شعور نہیں
ناصبوری ہے زندگی دل کی
آہ ! وہ دل کہ جو ناصبور نہیں
بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں
حضرت اقبال کی اس مشہور غزل میں ناصبوری ( بے چینی ) کو دل کی زندگی کہا گیا ہے ۔ دل بینا کی ایک مخصوص خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ اچھائی کو اپناتا ہے اور برائی سے دور بھاگتا ہے ۔ دل بینا کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھلائی کرے اور دوسروں کو بھلائی کرنے میں مدد دے اور برائی کو روکے اور دوسروں کو بھی برائی کو روکنے میں مدد دے ۔ کیونکہ زندگی تو یہی ہے جو بھلائی پھیلانے اور برائی ختم کرنے میں صرف ہو ۔ دل ہر وقت نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کے لیے بے چین رہے ۔ یہی جنوں دراصل باشعور جنوں ہے ۔
ہم میں سے کئ ایک " اہل دل " ایسے ہیں جو دنیا میں برپا فسق و فجور کو رات دن دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے دلوں کو پرسکون پاتے ہیں ۔ اپنے دل کے اس سکون کو وہ روحانت سمجھ بیٹھے ہیں ۔ کون ہے جو ان کے " نادان دل " کو یقین دلاے کہ اس عزاب کی گھڑی میں یہ سکون روحانی نہیں بلکہ شیطانی ہے ۔