شہرِ محبت

210930700_5b6369c9fa_o.jpg

میں نے یہ ڈور اپنے شہر کو اپنے شہر بہاولپور کو تصاویر کی شکل میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے شائع کیا ہے ۔ امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی ۔ اس سلسلے میں آپ کی آراء کا شدت سے انتظار رہے گا ۔

آپ کو کیا بتاوں کہ ان تصاویر کو کھنچنے کے لیے مجھے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہیں اور صبح اٹھ کر کہاں کہاں کے چکر لگانے پڑے ہیں ۔ اللہ ۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

واقعی شمیل بھائی، آپ نے لاجواب تصویرپیش کی ہے اپنے شہرکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب ، بہت عمدہ

اس تصویرکودیکھ کرہمارا دل کررہاہے کہ آپ کے شہرکی سیر بھی کرنی چائیے توآپ مہمان داری کے تیارہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :lol:

والسلام
جاویداقبال
 
جاوید بھائي ۔ کیوں نہیں ۔ اس لیے ہی تو میں نے یہاں پر یہ ڈور شروع کی ہے کہ میں یہاں پر آپ سب ساتھیوں کو اپنے شہر بہاولپور کی سیر کرواؤں ۔

اس محفل میں بہت سے ساتھی یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ میرے اوتار کے ساتھ ہی اپنے شہر کے نام کے ساتھ ۔ شہر محبت کیوں لکھا ہے ؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ بات یہ ہے کہ میں ایک بلاگ لکھتا ہوں اور ایک دفعہ میں نے اپنے بلاگ میں اسی نام سے ایک پوسٹ شا‏ئع کی تھی ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں وہ پوسٹ دوبارہ سے یہاں نکل کروں اور آپ اس کو ضرور پڑھیں ۔

شہرِ محبت

بہاولپور آپ کے لیے تو صرف ایک شہر کا نام ہے ۔ لیکن میرے لیے ایک ایسا لفظ ہے جو ہزاروں احساسات کو جنم دیتا ہے ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کیسے سنگدل ہیں وہ لوگ جو چند مفادات کی خاطر بڑی آسانی سے اپنی جنم بھومی سے دامن چھڑا لیے ہیں ۔ یہ میرا آبائی شہر نہیں پر مجھے اپنے آباء کی طرح عزیز ہے ۔ کیوں نہ ہو ؟ اس شہر نے مجھے لمحہ پیدائش سے اب تک صرف جینے کا سامان ہیں نہیں بلکہ مخصوص انداز فکر ، سوچ ، خواہشات ، اپنے ، پر اے ، دوست ، دشمن ، ہمساے ، ہم جماعت ، اساتزہ ، شاگرد اور یہ سفید پوشی ، غرض سب کچھ ورثے میں دیا ہے ۔ یہ بھی تو ورثہ ہے جو دولت اور خاندانی نام سے زیادہ قیام پزیر ہے ۔ دولت تو آپ کو چھوڑ سکتی ہے لیکن وہ مخصوص انداز فکر نہیں جو ایک شہر میں برس ہا برس رہنے سے پروان چھڑھتی ہے اور آپ کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے ۔پھر تمام عمر آپ اس مخصوص انداز فکر سے دنیا کو دیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی انداز میں سوچنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔

کسی بھی شہر میں پنپنے والی یہ مخصوص انداز فکر شہریوں کے رویے متعین کرتی ہے ۔ اور لوگوں کے یہ اجتمائی رویے انہیں کی قسمتیں لکھتے ہیں ۔ اجتمائی رویے قدرتی یا حقیقت پر مبنی ہوں تو قسمت بنتی ہے ورنہ بگڑ جاتی ہے ۔ غلط اجتمائی رویے رکھنے والا شہر ، شہر محبت نہیں ہوتا بلکہ ایسے شہر کی ماند ہوتا ہے جسے انسانی خودغرضی نے جیتے جاگتے قبرستان میں تبدیل کر دیا ہو ۔شہر مکانوں سے نہیں ، مکینوں سے آباد ہوتے ہیں ۔ انہیں کی آمد سے بستے ہیں اور انہیں کے چلے جانے سے اجڑ جاتے ہیں ۔ یہ انسانی زندہ دلی ہے جو ایک شہر میں جان ڈالتی ہے ۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بیتے زمانوں کے قدیم شہر محبت کتنے زندہ تھے ۔ جنہوں نے کئی ایک لازوال تہزیبوں اور مزاہب کو جنم دیا ۔ آج کے یہ جدید شہر کتنے مردہ ہیں ۔ جن کی تجوریاں روپے پیسے تو اگلتی ہیں لیکن یہاں فکروعمل کی شمعیں روشن نہیں ہوتیں ۔ دور جدید کے ان مردہ شہروں میں انسان مشین کی طرح روز وشب کام کرتا ہے اور پھر ناکارہ پرزے کی طرح ٹوٹتا ہے اور بکھر جاتا ہے ۔

ایسے انسان کو بھلا کون زندہ کہے گا ؟ جو سانس تو لے لیکن اس کا دل مردہ ہو ۔ ایسے انسان کو بھلا کون شخص کہے گا ؟ جس کی شخصیت کی خودغرضی اور لالچ نے دھجیاں بکھیر دی ہوں ۔ ایسے انسان میں روح کی موجودگی کا کون ثبوت دیگا ؟ جس کی روح کی روحانیت کو نفسانی خواہشات کی اندھی تقلید نے مجروح کر دیا ہو ۔



روح ، روح سے لگاو رکھتی ہے ۔ اسی طرح روحانیت ، روحانیت کو پہچانتی ہے اور اس سے قربت حاصل کرنے میں ایسے ایسے مقام طے کرتی ہے جن کی موجودگی کو بے روح ، نیم مردا دل کبھی سمجھ نہیں پایا ۔ جو دل ، شہر محبت میں بسی اس روحانت کو پہچانتا ہے ، ہم اسے دل بینا کہتے ہیں ۔

ایسے ہی دل بینا کو ہر انسان میں بیدار کرنے کی آس میں حضرت اقبال لکھتے ہیں

عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور ، دل کا نور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے ، جس میں حور نہیں
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں
ایک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے
ایک جنوں ہے کہ با شعور نہیں
ناصبوری ہے زندگی دل کی
آہ ! وہ دل کہ جو ناصبور نہیں
بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں

حضرت اقبال کی اس مشہور غزل میں ناصبوری ( بے چینی ) کو دل کی زندگی کہا گیا ہے ۔ دل بینا کی ایک مخصوص خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ اچھائی کو اپناتا ہے اور برائی سے دور بھاگتا ہے ۔ دل بینا کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھلائی کرے اور دوسروں کو بھلائی کرنے میں مدد دے اور برائی کو روکے اور دوسروں کو بھی برائی کو روکنے میں مدد دے ۔ کیونکہ زندگی تو یہی ہے جو بھلائی پھیلانے اور برائی ختم کرنے میں صرف ہو ۔ دل ہر وقت نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کے لیے بے چین رہے ۔ یہی جنوں دراصل باشعور جنوں ہے ۔

ہم میں سے کئ ایک " اہل دل " ایسے ہیں جو دنیا میں برپا فسق و فجور کو رات دن دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی اپنے دلوں کو پرسکون پاتے ہیں ۔ اپنے دل کے اس سکون کو وہ روحانت سمجھ بیٹھے ہیں ۔ کون ہے جو ان کے " نادان دل " کو یقین دلاے کہ اس عزاب کی گھڑی میں یہ سکون روحانی نہیں بلکہ شیطانی ہے ۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ،


محمد شمیل قریشی نے کہا:
جاوید بھائي ۔ کیوں نہیں ۔ اس لیے ہی تو میں نے یہاں پر یہ ڈور شروع کی ہے کہ میں یہاں پر آپ سب ساتھیوں کو اپنے شہر بہاولپور کی سیر کرواؤں ۔

ایسے انسان کو بھلا کون زندہ کہے گا ؟ جو سانس تو لے لیکن اس کا دل مردہ ہو ۔ ایسے انسان کو بھلا کون شخص کہے گا ؟ جس کی شخصیت کی خودغرضی اور لالچ نے دھجیاں بکھیر دی ہوں ۔ ایسے انسان میں روح کی موجودگی کا کون ثبوت دیگا ؟ جس کی روح کی روحانیت کو نفسانی خواہشات کی اندھی تقلید نے مجروح کر دیا ہو ۔

روح ، روح سے لگاو رکھتی ہے ۔ اسی طرح روحانیت ، روحانیت کو پہچانتی ہے اور اس سے قربت حاصل کرنے میں ایسے ایسے مقام طے کرتی ہے جن کی موجودگی کو بے روح ، نیم مردا دل کبھی سمجھ نہیں پایا ۔ جو دل ، شہر محبت میں بسی اس روحانت کو پہچانتا ہے ، ہم اسے دل بینا کہتے ہیں ۔

۔

بھائی شمیل، واقعی آپ کامضمون پڑھنے سے تعلق رکھتاہے اورواقعی آجکل کے دورمیں انسان کہتاہے کہ وہ اپنی جنم بھومی کوبھول جائے لیکن جب وہ اکیلے میں بیٹھتاہے اوراس کواپنابچپن، بچپن کے دوست اوروہ حالات یادآتے ہیں توبے اختیارانسان یہ سوچنے پرمجبورہوجاتاہے جنم بھومی انسان کوکبھی نہیں بھولتی کیونکہ اس کے ساتھ انسان کاجسم اور روح کاتعلق ہوتاہے۔

والسلام
جاویداقبال
 
211111590_42ff1d5348_o.jpg

یہ تصویر بہاولپور کے مشہور کالج ، ایس ای کالج بہاولپور کی ہے ۔ یہ کالج ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے قائم ہے ۔ یہ تصویر میں نے آج صبح ہی کھینچی ہے ۔

اس کالج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ کالج میرا اور احمد ندیم قاسمی صاحب ( مرحوم ) کا مشترکہ کالج بھی ہے ۔ یعنی وہ بھی میری طرح اس میں زیر تعلیم رہے ہیں ۔ میں نے یہیں ایف ایس سی کی اور یہیں ہی بی ایس سی کی ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
زبردست شمیل بھیا، میرے 4 کزنز صادق پبلک سکول میں پڑھ چکے ہیں۔ شاید یہ کالج اسی کی کوئی ترقی یافتہ شکل ہے
 
211130715_7f420de2c2_o.jpg

یہ میرے کالج کا بیالوجی ( زولوجی ) بلاک ہے ۔ میں یہاں کی بیالوجی سوسائٹی کا صدر بھی تھا ۔ اور زولوجی میرا سب سے پسندیدہ مضمون ہے ۔

211129664_170e5b2c98.jpg

یہ وہ خاص بالکنی ہے جہاں بیٹھ کر میں اسباق یاد کیا کرتا تھا ۔ اور میرے زولوجی کے پروفیسر جب بھی چائے بناتے تو وہ مجھے چا‌ئے ضرور آفر کرتے تھے ۔ جب میں نے دسمبر ٹیسٹ میں ٹاپ کیا تھا تو مجھے یہیں ٹریٹ دی گئی تھی ۔
 
211154923_872a5dd709_o.jpg

میرے شہر بہاولپور کا یہ چھوٹا سا چوک " لائبریری چوک " کہلاتا ہے ۔ یہ چوک پتا نہیں کیوں مجھے اپنی جانب کشش کرتا ہے ۔ میں جب میٹرک میں تھا تو میں اس چوک پر بنے اس سنگ مرمر کے چبوترے پر بیٹھ جایا کرتا تھا اور ٹھنڈی ہوا کا لطف لیتا تھا ۔ اور اب ابھی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اب ایسا کرتے ہوئے تھوڑی سی شرم سی آتی ہے ۔
 
211169998_4376125d48_o.jpg

211170396_24a3de5e1e_o.jpg

" بہاول ویکٹوریا ہسپتال " برصغیر کے بڑے ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے جو 1906 میں قائم کیا گیا تھا ۔ میں نے اس ہسپتال کے ایڈمینیسٹریشن بلاک کی تصویر یہاں پر شامل کی ہے ۔ ۔ اسی وجہ سے کچھ پرانا پرانا سا محسوس ہو رہا ہے ۔ ورنہ یہ بہت جدید ہے ۔ اس ہسپتال کی تاریخی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے یہ حصہ ویسا ہی رکھا گیا ہے جیسا کہ اس وقت تھا جب آج سے 100 سال پہلے اس کو تیار کیا گیا تھا ۔ یہ اس سال اپنی سو سالہ تقریبات منا رہا ہے ۔
 
211201852_c2d5f46b50_o.jpg

" قائد اعظم میڈیکل کالج " کو کون نہیں جانتا ۔ پاکستان کے بڑے بڑے میڈیکل کالجوں میں اس کا نام آتا ہے ۔ پر کوئي شاید یہ نہیں جانتا ہو گا کہ میری اب تک کی ساری زندگی اس کالج میں ہی موجود " میڈیکل کالونی " میں ہی گزر گئی ۔ مجھے بچپن میں تین بار کیڈ نیپ کیا گیا اور مشکل سے چھڑوایا گیا تو امی جان نے مجھے میڈیکل کالونی سے تو کیا گھر سے باہر جانے پر پابندی لگا دی ۔ ور میں پھر کبھی بھی گھر سے باہر نہیں نکلا ۔

مزے کی بات ہے کہ جب میں پہلی بار کالج میں ایف ایس سی میں گیا تو وہاں پر اردو کے ایک پروفیسر نے سب طالب علموں سے انٹرویو وغیرہ لیے اور میری باری آنے پر بھی مجھے سے بہت سی باتیں کئیں اورمجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ سر میں میڈیکل کالونی میں بنگلہ نمبر فلاں میں رہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ جو ایک گاینا کالوجیسٹ ہیں ، بنگلہ نمبر (قریبی) میں بیس سال سے رہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ قریشی صاحب کا کوئي بچہ نہیں ہے ۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میں کتنا ہی گھر میں بند رہا ہوں اور لوگوں کو میری موجودگی کا کبھی بھی علم نہیں ہوا ۔
 
211221589_57998508d6_o.jpg

211221791_198c30334b_o.jpg

اپنے پسند کی کافی پینی ہو تو بھلا " لا ٹا سکا " سے بہتر کوئی اور جگہ مجھے نہیں دکھتی ۔

211223762_4932df5ee7_o.jpg

اور جب فاسٹ فوڈ کی بات ہو تو " فور سیزنز " سے بھڑ کر بہاولپور میں کوئي اور جگہ ہو گی ؟
 

زیک

مسافر
شمیل: میں بہاولپور ایک دفعہ صرف ایک دن کے لئے گیا تھا اور میڈیکل کالج ہی میں دن گزرا۔

آپ کی یہ اچھی کاوش ہے۔ ٹساویر کا اپنا ہی مزا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں‌ بھی دو تین بار گیا ہوں، ایک بار تو لال سوہانرا پارک تک ہی گئے، دوسری بار اسی میڈیکل کالج گیا تھا، ابو کے کوئی پرانے ریکارڈ چاہیئے تھے، تیسری بار بھی اسی طرح ایک دن کا چکر لگا، میڈیکل کالج کی حد تک
 
اب مجھے نیند آ رہی میں اور ویسے بھی مجھے کل دوبارہ سے شہر میں جا کر مزید تصاویر کھینچ کر لانی ہیں تو اب اجازت دیں ۔

قیصرانی بھائي اور زکریا بھائي : آپ لوگوں کی اس قدر خیال رکھنے کا بہت بہت شکریہ ۔ امید ہے کہ آپ کو بھی میری تصاویری کہانی پسند آئے گی ۔ :p
 

ماوراء

محفلین
زبردست شمیل۔ بہت اچھی کاوش ہے۔
میری کزن جو کہ رہتی تو اسلام آباد میں ہے لیکن وہ آجکل " قائد اعظم میڈیکل کالج " میں پڑھ رہی ہے۔ اسی بہانے میں نے اس کا کالج بھی دیکھ لیا۔
 
Top