طارق شاہ
محفلین
غزل
بتاؤں کِس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں
کہ کل پلکوں سے ٹُوٹی نیند کی کرچیں سمیٹی ہیں
سفر مَیں نے سمندر کا کِیا کاغذ کی کشتی میں
تماشائی نِگاہیں اِس لیے بیزار اِتنی ہیں
خُدا میرے! عطا کرمجھ کو گویائی، کہ کہہ پاؤں
زمِیں پر رات دِن جو باتیں ہوتی مَیں نے دیکھی ہے
تُو اپنے فیصلے سے وقت! اب آگاہ کر مجھ کو
گھڑی کی سوئیاں کب سے اِس اِک نقطے پہ ٹھہری ہیں ہیں
جتن تیرا، کہ پہونچایا ہے مجھ کو موت کے منہ تک
مِری آنکھیں، کہ اِس کو زِیست کا زِینہ سمجھتی ہیں
شہریارؔ
(نیند کی کرچیں )