طارق شاہ
محفلین
غزلِ
سُورج کا سفر ختم ہُوا، رات نہ آئی
حصّے میں مِرے، خوابوں کی سوغات نہ آئی
موسم پہ ہی ہم کرتے رہے تبصرہ تا دیر
دِل جس سے دُکھیں ایسی کوئی بات نہ آئی
یُوں ڈور کو ہم وقت کی پکڑے تو ہُوئے تھے
اک بار مگر چُھوٹی تو پھر ہات نہ آئی
ہمراہ کوئی اور نہ آیا تو گِلہ کیا
پرچھائیں بھی جب میری مرے ساتھ نہ آئی
ہر سمت نظر آتی ہیں بے فصل زمِینیں
اِمسال بھی اِس شہر میں برسات نہ آئی
شہریار
******
آخری تدوین: