طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شہرِجنُوں میں کل تلک جو بھی تھا سب بدل گیا
مرنے کی خُو نہیں رہی جینے کا ڈھب بدل گیا
پَل میں ہَوا مِٹا گئی ، سارے نقوش نُور کے
دیکھا ذرا سی دیر میں، منظرِ شب بدل گیا
میری پُرانی عرض پر غور کیا نہ جائے گا
یُوں ہے، کہ اُس کی بزم میں طرزِ طلب بدل گیا
ساعتِ خُوب وصل کی، آنی تھی آنہیں سکی
وہ بھی تو وہ نہیں رہا، میں بھی تو اب بدل گیا
دُوری کی داستان میں، یہ بھی کہیں پہ درج ہو !
تشنہ لبی تو ہے وہی، چشمۂ لب بدل گیا
میرے سِوا، ہر ایک سے، دُنیا یہ پُوچھتی رہی
مجھ سا جو ایک شخص تھا، پتھر میں کب بدل گیا
شہریار