طارق شاہ
محفلین
غزل
شہریار
کشتی جاں سے اُتر جانے کو جی چاہتا ہے
اِن دِنوں یُوں ہے کہ، مرجانے کو جی چاہتا ہے
گھر میں یاد آتی تھی کل دشت کی وُسعت ہم کو
دشت میں آئے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کوئی صُورت ہو، کہ پِھر آگ رگ و پے میں بہے
راکھ بننے کو، بِکھر جانے کو جی چاہتا ہے
کیسی مجبُوری و لاچاری ہے، اُس کُوچے میں
جا نہیں سکتا، مگر جانے کو جی چاہتا ہے
قُرب پِھر تیرا میسّر ہو، کہ اے راحتِ جاں !
آخری حد سے گُزرجانے کو جی چاہتا ہے
شہریار
(کنور اخلاق محمد خاں)
شہریار
کشتی جاں سے اُتر جانے کو جی چاہتا ہے
اِن دِنوں یُوں ہے کہ، مرجانے کو جی چاہتا ہے
گھر میں یاد آتی تھی کل دشت کی وُسعت ہم کو
دشت میں آئے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کوئی صُورت ہو، کہ پِھر آگ رگ و پے میں بہے
راکھ بننے کو، بِکھر جانے کو جی چاہتا ہے
کیسی مجبُوری و لاچاری ہے، اُس کُوچے میں
جا نہیں سکتا، مگر جانے کو جی چاہتا ہے
قُرب پِھر تیرا میسّر ہو، کہ اے راحتِ جاں !
آخری حد سے گُزرجانے کو جی چاہتا ہے
شہریار
(کنور اخلاق محمد خاں)