فلک شیر
محفلین
یہاں سے آگے شہر ہے، کچھ آگے۔
لیکن نہیں، اس سے پہلے مجھے دائیں جانب، ایک عمر رسیدہ جوڑا شام کے چند لمحے ہوا خوری کے لیے پٹڑی کے ساتھ پیدل چلتے اپنی طرف آتا دکھائی دے رہا ہے۔ شاید وہ رک گئے ہیں۔ خاتون کچھ جڑی بوٹیاں چھانٹ رہی ہیں، جب کہ بڑے میاں پٹڑی پر بیٹھ کر اردگرد پڑے پتھروں سے نشانہ بازی کر رہے ہیں۔ جب قریب کے پتھر دور پھینک چکے، تو دور سے کچھ چپٹے سیدھے پتھر قریب لا کر ڈھیر کر دیے اور پھر سے اپنا ہاتھ سیدھا کرنے لگے۔ بڑی بی اپنی مطلوبہ بوٹی ڈھونڈ چکی ہیں، اب اپنی ہتھیلی پر اسے رکھ کر بزرگوار کو معائنہ کروا رہی ہیں۔ اب دونوں شہر کی طرف واپس چل پڑے ہیں، قدم کچھ سست ہیں، شاید وجود یہاں راحت میں تھا اور نادانستہ مزاحمت کر رہا ہے۔
بائیں طرف انیسویں صدی کے آخری دہائیوں میں کسی لوہا ڈھالنے کی بھٹی سے نکلا فولادی شہتیر کئی حصوں میں منقسم، مگر لکڑی کے دو بھاری تختوں کے ذریعے متحد ڈٹا ہوا ہے، پٹڑی کے برعکس زنگ ابھی اس کے رگ و پے میں سرایت نہیں کر سکا۔ بیسیوں بار کالے گورے، چھوٹے بڑے بچے اور جوان ان تختوں پہ بیٹھے دیکھے ہیں اور انہیں مایوسی، سکون، بے تعلقی اور کبھی تعلق میں شرابور پایا ہے۔ گواہی ان تختوں کا منصب اور منصوبہ نہیں، ورنہ کیا عمدگی سے پورا کر سکتے۔
ہاں، پٹڑی جو دور سے سیدھی سلیٹ لگتی ہے، قریب آنے پہ اس میں جابجا بل دکھائی دیتے ہیں، بالکل آدم زاد کی طرح۔ یہ ریل گاڑی ہے اور گاہے ہاتھ میں آلاتِ استقامت پکڑے کچھ رجالِ کار، جو اسے سیدھا رکھتے ہیں، جیسے انسان کے باب میں روزگار و فتن و آلام ہیں۔
شہر کے قریب اسٹیشن ہے، پابلو نرودا کی نظم کے ویران اسٹیشن جیسا ایک قصباتی اسٹیشن، جہاں زیادہ گاڑیاں نہیں رکتیں، ٹکٹ گھر بالعموم مقفل رہتا ہے۔ اداسی اسٹیشن کے درودیوار پہ ایسے لٹکی ہے، جیسے نہ بکنے والی تصاویر مصور کے کمرے میں لاوارث بچوں کی طرح دیوار ہا پہ جالوں میں اٹی اور لٹکی ہوتی ہیں۔ ویرانی پرانے بنچوں پہ مستقل قابض ہے، درگاہوں کی تاریکی کی طرح، جن کی عزت کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ڈرا بھی جاتا ہے۔ بس یہاں سفر کا مترادف قیام ہے ۔
اس سے کچھ آگے شہر ہے، کچھ آگے۔
فلک شیر
20 نومبر 2020ء
لیکن نہیں، اس سے پہلے مجھے دائیں جانب، ایک عمر رسیدہ جوڑا شام کے چند لمحے ہوا خوری کے لیے پٹڑی کے ساتھ پیدل چلتے اپنی طرف آتا دکھائی دے رہا ہے۔ شاید وہ رک گئے ہیں۔ خاتون کچھ جڑی بوٹیاں چھانٹ رہی ہیں، جب کہ بڑے میاں پٹڑی پر بیٹھ کر اردگرد پڑے پتھروں سے نشانہ بازی کر رہے ہیں۔ جب قریب کے پتھر دور پھینک چکے، تو دور سے کچھ چپٹے سیدھے پتھر قریب لا کر ڈھیر کر دیے اور پھر سے اپنا ہاتھ سیدھا کرنے لگے۔ بڑی بی اپنی مطلوبہ بوٹی ڈھونڈ چکی ہیں، اب اپنی ہتھیلی پر اسے رکھ کر بزرگوار کو معائنہ کروا رہی ہیں۔ اب دونوں شہر کی طرف واپس چل پڑے ہیں، قدم کچھ سست ہیں، شاید وجود یہاں راحت میں تھا اور نادانستہ مزاحمت کر رہا ہے۔
بائیں طرف انیسویں صدی کے آخری دہائیوں میں کسی لوہا ڈھالنے کی بھٹی سے نکلا فولادی شہتیر کئی حصوں میں منقسم، مگر لکڑی کے دو بھاری تختوں کے ذریعے متحد ڈٹا ہوا ہے، پٹڑی کے برعکس زنگ ابھی اس کے رگ و پے میں سرایت نہیں کر سکا۔ بیسیوں بار کالے گورے، چھوٹے بڑے بچے اور جوان ان تختوں پہ بیٹھے دیکھے ہیں اور انہیں مایوسی، سکون، بے تعلقی اور کبھی تعلق میں شرابور پایا ہے۔ گواہی ان تختوں کا منصب اور منصوبہ نہیں، ورنہ کیا عمدگی سے پورا کر سکتے۔
ہاں، پٹڑی جو دور سے سیدھی سلیٹ لگتی ہے، قریب آنے پہ اس میں جابجا بل دکھائی دیتے ہیں، بالکل آدم زاد کی طرح۔ یہ ریل گاڑی ہے اور گاہے ہاتھ میں آلاتِ استقامت پکڑے کچھ رجالِ کار، جو اسے سیدھا رکھتے ہیں، جیسے انسان کے باب میں روزگار و فتن و آلام ہیں۔
شہر کے قریب اسٹیشن ہے، پابلو نرودا کی نظم کے ویران اسٹیشن جیسا ایک قصباتی اسٹیشن، جہاں زیادہ گاڑیاں نہیں رکتیں، ٹکٹ گھر بالعموم مقفل رہتا ہے۔ اداسی اسٹیشن کے درودیوار پہ ایسے لٹکی ہے، جیسے نہ بکنے والی تصاویر مصور کے کمرے میں لاوارث بچوں کی طرح دیوار ہا پہ جالوں میں اٹی اور لٹکی ہوتی ہیں۔ ویرانی پرانے بنچوں پہ مستقل قابض ہے، درگاہوں کی تاریکی کی طرح، جن کی عزت کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ڈرا بھی جاتا ہے۔ بس یہاں سفر کا مترادف قیام ہے ۔
اس سے کچھ آگے شہر ہے، کچھ آگے۔
فلک شیر
20 نومبر 2020ء
آخری تدوین: