ناصر کاظمی :::: شہر سنسان ہے کدھر جائیں :::: Nasir Kazmi

طارق شاہ

محفلین


dlq2.jpg


غزل


شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں

رات کتنی گزُر گئی لیکن
اتنی ہمّت نہیں ، کہ گھر جائیں

یوں تِرے دھیان سے لرزتا ہُوں
جیسے پتّے ہوا سے ڈر جائیں

اُن اجالوں کی دُھن میں ‌پھرتا ہُوں
چَھب دِکھاتے ہی جو گزُر جائیں

رین اندھیری ہے اور کنارہ دُور
چاند نکلے تو، پار اُتر جائیں

ناصرکاظمی
 
خوبصورت انتخاب۔

"رات کتنی گزُر گئی لیکن
اتنی ہمّت نہیں ، کہ گھر جائیں"

شاید اسی لیے :)

ناصر ہم کو رات ملا تھا تنہا اور اداس
وہي پراني باتيں اُس کي، وہي پرانا روگ
- ناصر
 

طارق شاہ

محفلین
خوبصورت انتخاب۔

"رات کتنی گزُر گئی لیکن
اتنی ہمّت نہیں ، کہ گھر جائیں"

شاید اسی لیے :)

ناصر ہم کو رات ملا تھا تنہا اور اداس
وہي پراني باتيں اُس کي، وہي پرانا روگ
- ناصر
ناصر کاظمی صاحب کی کیا بات ہے جناب !

تشکّر اظہار خیال کے لئے :):)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھپ جاتی ہیں آئینہ دِکھا کر تِری یادیں
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں

تو جیسے مِرے پاس ہے اور محوِ سُخن ہے
محفل سی جما دیتی ہیں اکثر تیری یادیں

میں کیوں نہ پھروں تپتی دوپہروں میں ہراساں
پھرتی ہیں تصوّر میں کھُلے سر تِری یادیں

جب تیز ہوا چلتی ہے بستی میں سرِ شام
برساتی ہیں اطراف سے پتھر تیری یادیں

ناصر کاظمی
 
آخری تدوین:
Top