عباس رضا
محفلین
سردی بڑے طمطراق سے آئی تھی، کیسی رعونت سے حکم دیا تھا: خبردار! جو ٹھنڈے پانی کو ہاتھ لگایا۔ جو حکم عالی جاہ۔
مجال نہیں تھی ٹھنڈے پانی کی طرف کوئی آنکھ ہی اٹھالے۔ ہر عروج کو زوال ہے، ”سردی کا سورج“ بھی ڈھلنے لگا، کل دیکھا پیٹھ پھیرے جارہی تھی۔ اونہہ! یار اب تو گرم پانی کی ضرورت نہیں رہی۔
”وہ“ ٹھٹھک کر رُک گئی، دل ہی دل میں کہنے لگی: تمہاری خبر نہیں لی تو سردی نام نہیں۔
آہ! گزشتہ رات اس نے شب خون مارا ہے، رات پھر خنکی کی بوچھاڑ رہی اب انگ انگ سے ٹھنڈک رِس رہی ہے۔ کہاں تو نہانے کے لئے گرم پانی کا خیال اور کہاں وضو بھی گرم پانی سے کرنا پڑا۔۔۔
مجال نہیں تھی ٹھنڈے پانی کی طرف کوئی آنکھ ہی اٹھالے۔ ہر عروج کو زوال ہے، ”سردی کا سورج“ بھی ڈھلنے لگا، کل دیکھا پیٹھ پھیرے جارہی تھی۔ اونہہ! یار اب تو گرم پانی کی ضرورت نہیں رہی۔
”وہ“ ٹھٹھک کر رُک گئی، دل ہی دل میں کہنے لگی: تمہاری خبر نہیں لی تو سردی نام نہیں۔
آہ! گزشتہ رات اس نے شب خون مارا ہے، رات پھر خنکی کی بوچھاڑ رہی اب انگ انگ سے ٹھنڈک رِس رہی ہے۔ کہاں تو نہانے کے لئے گرم پانی کا خیال اور کہاں وضو بھی گرم پانی سے کرنا پڑا۔۔۔
یہ وطن عزیز میں شہرِ قائد ہے
آخری تدوین: