غزل قاضی
محفلین
شہر ِ جمال کے خس و خاشاک ہوگئے
اب آئے ہو جب آگ سے ہم خاک ہوگئے
ہم سے فروغ ِ خاک نہ زیبائی آب کی
کائی کی طرح تہمت ِ پوشاک ہو گئے
پیراہن ِ صبا تو کسی طور سِل گیا
دامان ِ صد بہار مگر چاک ہو گئے
اے ابر ِخاص! ہم پہ برسنے کا اَب خیال
جل کر ترے فراق میں جَب راکھ ہو گئے
قائم تھے اپنے عہد پہ یہ دیدہ ہائے غم
کیا یاد آگیا ہے کہ نمناک ہو گئے
اَب تک جنوں ہی اپنا اثاثہ رہا مگر
تُجھ سے ملے تو صاحب ِ ادراک ہو گئے
خوشبو تو بن نہ پائے سو کچھ ہم سے بےہنر
اے موجہء صبا ترے پیچاک ہو گئے
پروین شاکر
( انکار )
اب آئے ہو جب آگ سے ہم خاک ہوگئے
ہم سے فروغ ِ خاک نہ زیبائی آب کی
کائی کی طرح تہمت ِ پوشاک ہو گئے
پیراہن ِ صبا تو کسی طور سِل گیا
دامان ِ صد بہار مگر چاک ہو گئے
اے ابر ِخاص! ہم پہ برسنے کا اَب خیال
جل کر ترے فراق میں جَب راکھ ہو گئے
قائم تھے اپنے عہد پہ یہ دیدہ ہائے غم
کیا یاد آگیا ہے کہ نمناک ہو گئے
اَب تک جنوں ہی اپنا اثاثہ رہا مگر
تُجھ سے ملے تو صاحب ِ ادراک ہو گئے
خوشبو تو بن نہ پائے سو کچھ ہم سے بےہنر
اے موجہء صبا ترے پیچاک ہو گئے
پروین شاکر
( انکار )