آ گیا میں۔۔۔۔
شہر پھر بے اماں ہوا لوگو
نظرِ آہ و فغاں ہوا لوگو
///نذرِ؟ فنی طور پر درست ہے۔
کون کس کو سنائے غم اپنا
عدل عبرت نشاں ہوا لوگو
///درست
میں چلا تو اکیلا تھا کتنا
ساتھ اس کے جہاں ہوا لوگو
///کیا وہی بات کہنا چاہ رہے ہو؟
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
لیکن بات تو بنی نہیں۔ یوں ہے تو محض اس شعر کی نقل ہی ہے۔۔ لیکن شاید یہ بھی کہنا نہیں چاہ رہے ہو، کہ دوسرے مصرعے میں ’اس کے‘ ہے۔ مطلب تو تم جانو، لیکن استعمال کے لحاظ سے یوں کہو
میں چلا تو اکیلا تھا کتنا (بشرطیکہ مطلب وہی ہو جو غالباً مجروح کا ہے)
روبرو اسکے کون بولے گا
جو بولا وہ زیاں ہوا لوگو
’بولا‘ غلط استعمال ہوا ہے۔ واؤ گرنا جائز نہیں یہاں۔ اور ’زیاں‘ ؟ یہ اسم ہے راجا۔ کسی ’کا‘ زیاں ہوتا ہے، کوئی خود زیاں نہیں ہوتا، یہ شعر بدل ہی دو۔
لوگ مطلب کے ہی ملے سارے
دوست کوئی کہاں ہوا لوگو
///قافیہ کی مجبوری ہے ورنہ ’کہاں‘ کا محل نہیں۔ ’کب کسی کا‘ کا محل ہے۔اچھا تو نہیں، چلنے دیا جا سکتا ہے۔
دیکھی کس نے بہار گلشن میں
سال سارا خزاں ہوا لوگو
/// خزاں وقت کو تو نہیں کہتے، ہاں موسم خزاں وقت ہوتا ہے، جو آ سکتا ہے۔ خزاں تو بہار کی طرح مؤنث ہے۔ اس لئے دوسرا مصرع تو غلط ہی ہے، اس کو بدلو۔۔ پہلا مصرع بھی ’کھ کس‘ آتا ہے۔ ی گرتی ہے اور کھ اگلے لفظ کے کاف سے مل جاتا ہے ۔ اس کو یوں کہہ سکتے ہو
کس نے دیکھی بہار گلشن میں۔
لیکن یہ تب ہی جب دوسرا مصرع جو تم کہو، وہ اس معنی کا متقاضی ہو۔
مر گیا کون راہ میں اس کی
علم اس کو کہاں ہوا لوگو
///درست ہے۔
یاد کس کی لگی ستانے پھر
شام کا جب سماں ہوا لوگو
/// پہلا مصرع یوں کہو تو بہتر ہے
یاد پھر کس کی دل دکھانے لگی
’لگی ستانے‘ کی نشست درست نہیں لگتی،
خاک اڑتی ہے جسم کی میرے
بوجھ جاں کا گراں ہوا لوگو
///دونوں مصرعوں میں ربط؟ بحر میں ہے، لیکن ‘بوجھ جاں‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ مطلب کے حساب سے بھی جب جسم خاک میں بدل گیا تو گراں کہاں ہوا، آسانی سے اٹھ سکتا ہے نا۔۔
دھول تھا پیر کی کبھی میرے
آج جو آسماں ہوا لوگو
///اچھا شعر ہے لیکن وہی الفاظ کی نشست۔۔ یوں کر دو
میرے پیروں کی دھول تھا جو کبھی
آج وہ آسماں ہوا لوگو
پہنچ کر کے فصیلِ یاراں تک
قتل سب کارواں ہوا لوگو
۔///پہنچ کر کے‘ مطلب۔۔ ’جوں ہی پہنچے‘ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی شعر میں معنی پیدا تو نہیں ہوتا۔۔ فصیل یاراں؟ یا محض ’یار‘۔ یہ تو دوسرا واضح کر کے کہو۔
رہزنِ شہر کو ذرا دیکھو
شہر کا پاسباں ہوا لوگو
///بحر کے اعتبار سے درست۔ ویسے کوئ خاص بات نہیں کہی گئی۔
بات کرنا جسے نہیں آتا
شاہ کا رازداں ہوا لوگو
///’بات کرنی جسے نہیں آتی‘ درست محاورہ ہے، یہ بھی بہت عمدہ شعر تو نہیں۔
لفظ خود ہی مچل پڑے لب پر
جب خدا مہرباں ہوا لوگو
///درست ہے۔۔
تھا حقیقت کبھی جو، وہ راجا
آج اک داستاں ہوا لوگو
/// اس میں بھی الفاظ کی نشست ٹھیک نہیں۔ یوں کہو
وہ حقیقت تھا جو کبھی راجا
یا
جو کہ راجا کبھی حقیقت تھا
استادِ محترم، آپکے احکامات کیمطابق کچھ شعروں کو تبدیل کر دیا ہے، لیکن کچھ اشعار کی تشریح کر کے غزل پیش کر رہا ہوں، شاید آپ میرے اشعار کے مطالب سمجھ نہیں پائے، یا پھر جلدی میں دھیان میں نہیں آئے، اگر کوئی گستاخی ہو تو معاف کیجیئے گا، میرا خیال ہیکہ اشعار کی تشریح اور شعر کہنے کا مطلب و مقصود سمجھانا گستاخی کے زمرے میں یقینن نہیں آتا ہوگا۔ شکریہ۔
شہر پھر بے اماں ہوا لوگو
نذ رِ آہ و فغاں ہوا لوگو
کون کس کو سنائے غم اپنا
عدل عبرت نشاں ہوا لوگو
میں چلا تو اکیلا تھا کتنا
ساتھ اسکے جہاں ہوا لوگو
( شاعر کہتا ہیکہ جب میں منزل کی طرف چلا تو بالکل اکیلا تھا، اور جب وہ چلا تو اسکے ساتھ سارا جہان، بہت سے لوگ چل پڑے، شعر میں شاعر اپنی تنہائی اور بے بسی کا ذکر کر رہا ہے۔)
روبرو اسکے کون بولے گا
جو بھی بولا زیاں ہوا لوگو
( شاعر کہتا ہیکہ جابر کے سامنے کون بولے گا جس نے بھی کوشش کی یا بولا اسکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، بلاوجہ یا بے گناہ مر جانا جان کا زیاں ہونا نہیں کیا؟ )
لوگ مطلب کے ہی ملے سارے
دوست کوئی کہاں ہوا لوگو
کسنےدیکھی بہار گلشن میں
سال سارا خزاں ہوا لوگو
( شاعر کہہ رہا ہیکہ گلشن میں بہار تو کسی نے دیکھی ہی نہیں، ساری عمر ( عمر کو سال سے تشبیع دی ہے) دکھوں اور غموں میں ہی گذری ہے، سال مذکر ہے سو اسکے اعتبار سے تو درست جملہ ہے، اور خزاں ہونے سے مراد ہیکہ پورا سال خزاں کے سوا کوئی اور موسم تو آیا ہی نہیں)
مر گیا کون راہ میں اس کی
علم اس کو کہاں ہوا لوگو
شمع یادوں کی جل اٹھی پھر سے
شام کا جب سماں ہوا لوگو
( اس شعر کا پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے)
خاک اڑتی ہے جسم کی میرے
بار جاں کا گراں ہوا لوگو
( شاعر اتنا اکتا گیا ہیکہ اب جان کے بار سے بھی بدن ٹوٹا جاتا ہے، جینا محال ہو گیا ہے، ذرا غور کریں، ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اپنی جان کا بار اٹھانابھی یعنی اپنا وزن اٹھانا بھی محال ہوجاتا ہے)
پیر کی دھول تھا کبھی میرے
آج جو آسماں ہوا لوگو
( اس شعر کا پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے)
پہنچتے ہی فصیلِ یاراں تک
قتل سب کارواں ہوا لوگو
( اس شعر کے پہلے مصرع سے " کر کے" نکال دیا ہے، شاعر کے کہنے کا مطلب ہیکہ جن کو وہ یار اور دوست سمجھتا تھا انکے گھر تک قافلہ پہنچا تو انہوں نے ہی قتل کر دیایعنی جنہیں اپنا سمجھ کر مدد کے لیئے انکی جانب لپکا تھا وہی دشمن نکلے، جیسے کوفہ والوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو دعوت دیکر دوست بنکر بلوایا اور پھر خاموش تماشائی بن گئے اور وہ قافلے سمیت کربل میں قتل ہوگئے، دوستوں کی ستمگری کا ذکر کیا ہے)
رہزنِ شہر کو ذرا دیکھو
شہر کا پاسباں ہوا لوگو
بات کرنی جسے نہیں آتی
شاہ کا رازداں ہوا لوگو
لفظ خود ہی مچل پڑے لب پر
جب خدا مہرباں ہوا لوگو
اک حقیقت تھا جوکبھی راجا
آج بس داستاں ہوا لوگو
( اس شعر کا بھی پہلا مصرعہ تبدیل کر دیا ہے)
امید ہیکہ آپ مجھ ناسمجھ و کم علم کی تشریح کو کافی حد تک سمجھ گئے ہونگے۔تفصیلی جواب کا منتظر رہوں گا۔شکریہ۔