ناعمہ عزیز
لائبریرین
آج شہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر کچھ ضروری چیزیں لانے کے لئے اماں کے کہنے پر ان کے ساتھ چل پڑی۔ شہر سے مراد یہاں ہمارے شہر فیصل آباد کے مشہور آٹھ بازار ہیں ۔ رکشے میں بیٹھے ایک بھائی نے ملک کی سیاسی صورت حال پر کچھ یوں تبصرہ کیا
اے یار عمران خان تے پھس گیا آ ، اینے افتخار چوہدری ناں جو پنگا لے لیا اے
راستے میں گرین بیلٹس پر لگے پودوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ تراشا گیا تھا اور ان پر لگے کھنمبوں پر جگہ جگہ پاکستان کےجھنڈے لگے ہوئے تھے ، ساتھ ہی ساتھ ان پودوں کے سہارے کچھ بڑے پوسڑز بھی لگائے گئے تھے جن میں سے کچھ پر سیاسی لیڈروں نے ثواب دارین سمجھ کر لوگوں کو جلسہ عام کی دعوت دی تھی جس پر میں سمجھتی ہوں کہ اگر کھانے کا بندوبست بھی ہوتا تو لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی پر افسوس ہمارے بے عقل سیاسی لوگ ۔۔
کچھ پوسٹرز پر قائد اعظم کی تصویر کے ساتھ نواز شریف کی تصویر اور علامہ اقبال کی تصویر کے ساتھ شہباز شریف کی اور قوی امید ہے کہ نواز انکل اپنے سارے خاندان کے لوگوں قائداعظم کے دور کے سبھی عظیم سیاسی لیڈروں جیسا ہی سمجھتے ہوں گے ۔
وہاں پہنچ کر چاروں طرف نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ہر طرف لوگوں کا سیلاب ہی سیلاب تھا لوگ نعرے لگا رہے تھے ، موٹر سائیکلوں کی بہتاب تھی نعرے لگائے جا رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ سارے راستے ہی بند ہو گئے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی ، یہ سیلاب بس ان آٹھ بازاروں میں زیادہ تھا ، موٹر سائیکلوں کے علاوہ وہاں پولیس اور ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی اپنی اپنی ڈیوٹی پر تھے اور ان کے علاوہ کہیں کہیں میڈیا کے گاڑیاں بھی گرماگرم خبروں کو مرچ مصالحہ لگا کر عوام الناس تک پہنچانے کے لئے سرگرداں تھیں۔ہر طرف پی پی پی کی آوازیں آ رہی تھی اور رہی سہی آوازیں ہر دکان کے سامنے پڑے جرنیٹروں سے آ رہی تھیں جیسے کہہ رہے ہوں کہ "اسی کیوں پچھے رہیے "
مارکیٹ میں ہر دکان پر لوگ اپنی دکانوں سے بے پروا ، غم روز گار سے بے خبر غم سیاست میں ڈوبے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے اپنے لیڈروں کی حمایت اور دوسرے لیڈروں کے بارے میں تبصروں میں مگن تھے ۔ ہر زبان پر عمراخان طاہر القادری اور نواز شریف کا نام تھا ، میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر لوگون نے اتنی تسبیح کی ہوتی تو آج اور کل اٹھارہ کڑور عوام کی بخشش ہو جانی تھی مگر خیر لوگوں کی کشمکش بجا ہے جب نواز شریف پریشان ہو گیا جو کہ وزیر اعظم ہے تو یہ بیچارے تو عام عوام ہیں ۔۔
خیر اپنی ضرورت کی چیزیں لینے کے بعد جب ہم امین پور بازار مین پر پہنچے تو رش کچھ کم ہوااور سر میں سائیں سائیں کی آوازیں آنا بند ہوئیں اور ہوش آیا تو کیا امی نے انگلی سے اشارہ کیا میں نے اس سمت نظر دوڑائی تو کیا دیکھتی ہوں کہ
ایک لمبی داڑھی والے بابا جی چولا پہنے ہاتھ میں لمبی سی تسبیح پکڑے فٹ پاتھ کے کھنمبوں پر لگے "نوے نکور" فلم کے پوسٹرز کھینچ کھینچ کر اتار رہے تھے ۔امی کہنے لگیں
شاید ابھی کوئی لگا کے گیا تھا
پاس کھڑی ایک لڑکی بولی "اسلام کے ٹھیکدار"
خیر خدا خدا کر کے رکشہ ملا اور خدا کر شکر ادا کر کے بیٹھ گئے ۔ رات میں ایک موٹر سائیکل پر ون وہیلنگ کرتے ہوئے ایک لڑکے کو دیکھ کر امی کے اس تبصرے پر ہنسی آگئی
"اینوں بندہ لا لوے موٹر سائیکل توں تے پنچ ست چھتر مارے"
گھر پہنچے اور حسب ضرورت میں نے بھی شہر میں اتنے رش کا ابو جان کے آگے رونا رویا اور یہ سب لکھنے بیٹھ گئی ۔۔۔
اے یار عمران خان تے پھس گیا آ ، اینے افتخار چوہدری ناں جو پنگا لے لیا اے
راستے میں گرین بیلٹس پر لگے پودوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ تراشا گیا تھا اور ان پر لگے کھنمبوں پر جگہ جگہ پاکستان کےجھنڈے لگے ہوئے تھے ، ساتھ ہی ساتھ ان پودوں کے سہارے کچھ بڑے پوسڑز بھی لگائے گئے تھے جن میں سے کچھ پر سیاسی لیڈروں نے ثواب دارین سمجھ کر لوگوں کو جلسہ عام کی دعوت دی تھی جس پر میں سمجھتی ہوں کہ اگر کھانے کا بندوبست بھی ہوتا تو لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی پر افسوس ہمارے بے عقل سیاسی لوگ ۔۔
کچھ پوسٹرز پر قائد اعظم کی تصویر کے ساتھ نواز شریف کی تصویر اور علامہ اقبال کی تصویر کے ساتھ شہباز شریف کی اور قوی امید ہے کہ نواز انکل اپنے سارے خاندان کے لوگوں قائداعظم کے دور کے سبھی عظیم سیاسی لیڈروں جیسا ہی سمجھتے ہوں گے ۔
وہاں پہنچ کر چاروں طرف نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ہر طرف لوگوں کا سیلاب ہی سیلاب تھا لوگ نعرے لگا رہے تھے ، موٹر سائیکلوں کی بہتاب تھی نعرے لگائے جا رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ سارے راستے ہی بند ہو گئے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی ، یہ سیلاب بس ان آٹھ بازاروں میں زیادہ تھا ، موٹر سائیکلوں کے علاوہ وہاں پولیس اور ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی اپنی اپنی ڈیوٹی پر تھے اور ان کے علاوہ کہیں کہیں میڈیا کے گاڑیاں بھی گرماگرم خبروں کو مرچ مصالحہ لگا کر عوام الناس تک پہنچانے کے لئے سرگرداں تھیں۔ہر طرف پی پی پی کی آوازیں آ رہی تھی اور رہی سہی آوازیں ہر دکان کے سامنے پڑے جرنیٹروں سے آ رہی تھیں جیسے کہہ رہے ہوں کہ "اسی کیوں پچھے رہیے "
مارکیٹ میں ہر دکان پر لوگ اپنی دکانوں سے بے پروا ، غم روز گار سے بے خبر غم سیاست میں ڈوبے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے اپنے لیڈروں کی حمایت اور دوسرے لیڈروں کے بارے میں تبصروں میں مگن تھے ۔ ہر زبان پر عمراخان طاہر القادری اور نواز شریف کا نام تھا ، میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر لوگون نے اتنی تسبیح کی ہوتی تو آج اور کل اٹھارہ کڑور عوام کی بخشش ہو جانی تھی مگر خیر لوگوں کی کشمکش بجا ہے جب نواز شریف پریشان ہو گیا جو کہ وزیر اعظم ہے تو یہ بیچارے تو عام عوام ہیں ۔۔
خیر اپنی ضرورت کی چیزیں لینے کے بعد جب ہم امین پور بازار مین پر پہنچے تو رش کچھ کم ہوااور سر میں سائیں سائیں کی آوازیں آنا بند ہوئیں اور ہوش آیا تو کیا امی نے انگلی سے اشارہ کیا میں نے اس سمت نظر دوڑائی تو کیا دیکھتی ہوں کہ
ایک لمبی داڑھی والے بابا جی چولا پہنے ہاتھ میں لمبی سی تسبیح پکڑے فٹ پاتھ کے کھنمبوں پر لگے "نوے نکور" فلم کے پوسٹرز کھینچ کھینچ کر اتار رہے تھے ۔امی کہنے لگیں
شاید ابھی کوئی لگا کے گیا تھا
پاس کھڑی ایک لڑکی بولی "اسلام کے ٹھیکدار"
خیر خدا خدا کر کے رکشہ ملا اور خدا کر شکر ادا کر کے بیٹھ گئے ۔ رات میں ایک موٹر سائیکل پر ون وہیلنگ کرتے ہوئے ایک لڑکے کو دیکھ کر امی کے اس تبصرے پر ہنسی آگئی
"اینوں بندہ لا لوے موٹر سائیکل توں تے پنچ ست چھتر مارے"
گھر پہنچے اور حسب ضرورت میں نے بھی شہر میں اتنے رش کا ابو جان کے آگے رونا رویا اور یہ سب لکھنے بیٹھ گئی ۔۔۔