انتہا
محفلین
شہزادہ مسرت
آسکر وائلڈ
شہر کے وسط میں ایک بلند و بالا ستون کے اوپرخوش دل اور شاد کام شہزادے کا سنہری بت نصب تھا جس میں زروجواہر جڑے ہوئے تھے۔ ایک چڑیا شام کو اس بت کے قدموں میں آکر اتری ، سوچا رات یہیں بسر کر لی جائے۔ ستون اونچا ہے ، ہوا تازہ ہے اور گھونسلا سنہری ہے ۔ چڑیا سونے ہی والی تھی کہ پانی کی ایک بوند اس پر گری۔ مطلع صاف تھا ، بادل کا نام و نشان تک نہ تھا، پھر یہ پانی کا قطرہ چہ معنی ؟ دو قطرے اور گرے تو اسے پتا چلا کہ اس بلندی پر نصب خوشیوں کے شہزادے کے بت کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔چڑیا نے وجہ پوچھی تو جواب ملا، جب میں زندہ تھا اور ایک انسان کا دل اپنے سینہ میں رکھتا تھا ان دنوں مجھے پتا ہی نہ تھا کہ آنسو کیا ہوتے ہیں۔تمام آسائشیں محل میں موجود تھیں۔ رنج و غم کا محل میں داخلہ ممنوع تھا۔ میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ فصیل کے دوسری طرف کیا ہے۔ مجھے سب لوگ مسرت کا خوش نصیب شہزادہ کہتے تھے اور میں نے زندگی اسی طور بسر کی۔ مرنے کے بعد لوگوں نے مجھے اس بلندی پر ایک بت کے طور نصب کر دیا۔ یہاں سے مجھے زندگی کی ساری مکروہ اور بدنما صورتیں نظر آ رہی ہیں۔ اس کے باوجود کہ میرا دل سیسے کا ہے، لوگوں کا دکھ اور تکلیف دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ہیں۔چڑیا اور شہزادے کی دوستی ہوگئی اور دونوں نے مل کر پروگرام بنایا کہ غریبوں کی مدد کی جائے ۔ شہزادے نے تجویز پيش کی میرے بت پر جتنے ہیرے اور موتی لگے ہوئے ہیں تم وہ سب اتار کر غریبوں میں تقسیم کر دو۔ شہزادے کی خواہش کے مطابق چڑیا پہلے تلوار میں لگے ہوئے موتی اور ہیرے باری باری اتارتی ہے اور چونچ میں رکھ کر غریبوں کے سامنے ڈال آتی ہے۔ ایک ایک کر کے وہ ہیرے موتی تقسیم کر تی رہی یہاں تک صرف دو ہیرے بچ گئے کہ جو شہزادے کی آنکھوں میں نصب تھے۔ شہزادے نے کہا ، یہ بھی دے آؤ۔ چڑیا نے وہ ہیرے نکالے اور انہیں بھی تقسیم کر آئی۔ شہزادہ اندھا ہو گیا۔ پھر شہزادے کے اصرار پر چڑیا بت کے اوپر مڑھے ہوئے سونے کے پرت کے ٹکڑے چونچ سے کھرچ کھرچ کر بھوک اور سردی سے نڈھال فقیروں اور بچوں کے سامنے ڈالنے لگی۔ اس کام میں چڑیا کو اتنی محنت کرنی پڑی کہ بالآخر وہ خود تھکن اور سردی سے مر گئی۔ جوں ہی وہ مری، بدنما بت کے اندر سیسے کا دل شق ہوگیا۔ شہر کے میئر نے فیصلہ کیا کہ یہ بت اب بدصورت ہو گیا ہے اور یہاں اچھا نہیں لگتا، لہذا اسے یہاں سے ہٹا دیاجائے۔ چنانچہ بت اتار کر بھٹی میں ڈال دیا گیا۔ سیسے کا دل بھٹی میں بھی نہ پگھلا تو فاؤنڈری والوں نے اسے دھات کا حقیر ٹکڑا سمجھ کر کوڑے میں پھینک دیا جہاں پہلے ہی ایک مردہ چڑیا پڑی ہوئی تھی۔
خدا نے ایک فرشتے کو حکم دیا کہ اس شہر میں جو سب سے قیمتی دو چیزیں نظر آئیں وہ لے آؤ۔ فرشتہ کوڑے کے ڈھیر سے دھات کا دل اور مردہ چڑیا اٹھا لایا۔ خدا نے کہا تمہارا انتخاب بالکل درست ہے۔ یہ چڑیا جنت کے باغوں میں ہمیشہ چہکتی رہے گی اور یہ مسرتوں کا شہزادہ شہر زریں میں ہمیشہ ہماری ثنا کرتا رہے گا۔ ( آسکر وائلڈ)