محمد اظہر نذیر
محفلین
شہزادیاں
شہزادی تو شہزادی ہی ہوتی ہے، اب وہ محل میں پیدا ہو یا جھونپڑی میں۔ حسن محلوں کا محتاج ہر گز نہیں ورنہ تو حسین لڑکیاں صرف محلوں میں ہی پیدا ہوا کرتیں۔ شہزادی بھی پیدا ہو گئی، ایک معمولی گھرانے میں۔ اُس پورے محلے والوں نے اپنی زندگیوں کی قسم کھا کر کہا کہ اتنی حسین بچی زندگی بھر میں کبھی کہیں دیکھی نہ تھی، نہ جھونپڑیوں میں، نہ محلوں میں۔
جوان ہوتی گئی تو مانو کہ حسن کو چار چاند لگتے چلے گئے، اور ہر گزرتے برس کے ساتھ یہ چار چاند پہلے سے بھی زیادہ غضب ڈھاتے جا رہے تھے۔ گھر والوں کا بس نہ چلتا تھا کہ اُسے دُنیا کی نظروں سے کہیں دور لے جائیں اور صرف پھولوں اور کلیوں کے بیچ اُس کی پرورش کریں، پر کہاں خواہشیں اور کہاں زمانے کے سرد و گرم۔ حقیقت اُن کا منہ چڑاتی رہی
سفید رنگت، سفید ایال، اور سفید برف جیسی دُم، طاقتور تیز رفتار براق گھوڑا کان کھڑے کئے بگٹٹ بھاگتا ہوا، اور سوار مشاقی سے اُسے رانوں میں دبائے عبا کی اُڑان سے بے خبر صرف اور صرف اُسی پر نظریں جمائے قریب آتا جا رہا تھا۔ جیسے ہی گھوڑا شہزادی کے قریب پہنچا سوار نے نیچے جھکتے ہوئے ایک ہاتھ اُس کی کمر میں ڈال دیا اور اُسے اُچک لیا، پھر بڑی احتیاط کے ساتھ گھوڑے پر اپنے آگے بٹھا لیا۔
ماں کے جھنجھوڑنے پر ہی وہ اُٹھی تھی اور بُرا سا منہ بنا کر انگڑائی لی تھی۔ ماں نے ایک دم اُسے اوڑھنی سے جیسے لپیٹ ہی دیا، شائد وہ خود کو ایسا کر کے اُس حقیقت سے آنکھیں چُرانا چاہتی تھی کہ بیٹی اب جوانی کی اُس حد میں داخل ہو چُکی ہے جہاں اب قابو سے باہر ہوئی کہ تب ہوئی۔
’’ ماں چھُٹی والے دن تو سو لینے دیا کرو‘‘ بیزاری سے اُٹھتے ہوئے شہزادی نے کہا تھا، اتنا اچھا سپنا جو دیکھ رہی تھی۔
’’ چلو جلدی سے کوٹھی میں جاؤ، اُن کے مہمان آنے والے ہیں ایک دو دن میں، کُچھ ہاتھ بٹاؤ، کتنے احسان ہیں ہم پر مسز شیرازی کے‘‘۔ اور یہ بات تھی بھی سچ کیونکہ شہزادی کے ابا کے ایک حادثہ کا شکار ہو جانے کے بعد وہ مسز شیرازی ہی تھیں جنہوں نے اس بے آسرا خاندان کو سہارا دیا تھا اور کوٹھی کے پیچھے بنے کوارٹر میں جو پائیں باغ کے کونے پر واقع تھا، وہاں ماں بیٹی اور نانی کو رہنے کی اجازت دے دی تھی کہ اب ان کے گھر میں کوئی بھی مرد زندہ نہیں بچا تھا۔
شہزادی نے جلدی جلدی منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کوٹھی کی جانب قدم بڑھائے، شہلا جو کہ مسز شیرازی کی بیٹی تھی اُسے دیکھتے ہی خوش ہو گئی، دیکھو شہزادی میں کیسی لگ رہی ہوں؟ عام شکل پر بھی عمدہ لباس زیب تن کر لیا جائے تو لڑکیاں شہزادی ہی لگتی ہیں۔ ’’ بالکُل شاہ ذادی لگ رہی ہیں‘‘ شہزادی نے کہا تھا۔ پھر شہلا نے ایک کے بعد ایک کوئی چھ سات جوڑے باری باری پہن کر اُسے دکھائے تھے اور پھر دو تین گھنٹوں میں ایک جوڑے پر اتفاق ہو ہی گیا جس میں شہلا زیادہ حسین لگ رہی تھی۔ کسی کام میں ہاتھ بٹانے کی نوبت ہی نہ آئی تھی کہ آتے ساتھ ہی شہلا نے گھیر لیا تھا۔ مسز شیرازی نے خاموشی سے سارے کام خدامہ سے کروا لیئے تھے۔
نانی کے ساتھ اُن کا ہاتھ پکڑ کر بازار میں چلتے وہ خوابوں کا شہزادہ اُسے نظر آ ہی گیا، وہی سفید براق گھوڑا اور اُس پر بیٹھا کڑیل جوان جو کسی بھی شاہ ذادے سے کم نہیں لگ رہا تھا، سیاہ گھنگھریالے، چھوٹے چھوٹے بال، کثرتی جسم مانو جس میں بجلیاں بھری ہوتی ہیں، صرف لباس پولیس کا پہنے ہوئے تھا۔ نگاہیں ملیں اور بہت کُچھ کہہ گئیں، نانی اس گُفتگُو سے بے خبر سبزی والے سے بھاؤ تاؤ کرتی رہیں۔
اُسے پتہ بھی نہ چلا تھا کہ وہ جوان اُس کا خاموشی سے پیچھا کرتا ہوا گھر تک آ گیا تھا، اور ایسا کرنے کیلئے نہ جانے کہاں چھوڑ آیا تھا گھوڑے کو۔ وہ تو نانی کو اندر چھوڑ کر شہلا سے ملنے جا رہی تھی جس کا پیغام اُسے ماں نے دیا تھا۔ ابھی وہ باہر نکلی ہی تھی کہ سامنے نظر پڑی، وہ اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ وردی میں ملبوس کھڑا تھا، مُسکُراہٹ کا تبادلہ ہوا ہی تھا کہ اُس کے کانوں میں شہلا کی آواز آئی جو اُس کا انتظار کرتے کرتے وہیں چلی آئی تھی، وہ اُسی جوڑے میں ملبوس تھی جسے اُن دونوں نے مل کر فائنل کیا تھا محمانوں کی آمد پر پہننے کو، سپاہی کو دیکھ کر شہلا ٹھٹھک گئی۔ وہ بھی کُچھ پریشان سا وہاں سے چلا گیا۔
’’ کیا ہوا شہلا ‘‘ شہزادی نے پوچھا تھا
’’ کُچھ نہیں، بس وہ مہمان یوں ہی تھے، ایسے ہی اتنی تیاری کی، یہی تمہیں بتانا تھا‘‘ اور شہزادی سمجھ گئی کہ آنے والا اُسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
دن پر دن گزرتے گئے شہزادی اُس بازار کے کئی چکر بھی لگا آئی پر وہ ملا نہیں، زندگی اپنی ڈگر پہ چلتی رہی۔
پھر ایک دن اُس نے سُنا کہ شہلا کی شادی طے ہو گئی ہے، سبھی گھر والوں کے ساتھ وہ بھی مبارکباد دینے گئی مسز شیرازی اور شہلا کو۔ وہاں پتہ چلا کہ جھٹ پٹ بیاہ کا معاملہ ہے ، کیونکہ دُلہا کے گھر والوں کو جلدی ہے۔ شہلا بے حد خوش تھی، ایسی کہ جیسے دُنیا جہاں کی دولت اُس نے پا لی ہو۔
پھر وہ دن بھی آ پہنچا کہ بارات آنے کا غُلغُلہ بُلند ہوا اور لڑکیاں شہزادی سمیت دُلہا کو دیکھنے بالکونی میں بھاگ کر کھڑی ہو گئیں، سبھی نے دُلہا کو دیکھتے ہی چیخیں ماری تھیں خوشی سے، لیکن شہزادی تو بیہوش ہی ہو گئی، اُسے جلدی سے وہاں سے اُٹھوا کر اُس کے گھر لے جایا گیا، جہاں نانی نے اُس کا سر گود میں رکھا اور پانی کے چھینٹے مارے، ماں گھبراہٹ میں کبھی پاؤں دباتیں اور کبھی سینے پر ہاتھ پھیرتیں۔ آخر اُسے ہوش آ ہی گیا
’’ کیا ہوا شہزادی تُمہیں؟ ‘‘ نانی نے فورا ہی سوال داغا تھا
’’ نانی مجھے شہزادی نہ کہا کریں، شہزادیاں صورت سے نہیں، بخت سے ہوتی ہیں‘‘ اُس نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی
شہزادی تو شہزادی ہی ہوتی ہے، اب وہ محل میں پیدا ہو یا جھونپڑی میں۔ حسن محلوں کا محتاج ہر گز نہیں ورنہ تو حسین لڑکیاں صرف محلوں میں ہی پیدا ہوا کرتیں۔ شہزادی بھی پیدا ہو گئی، ایک معمولی گھرانے میں۔ اُس پورے محلے والوں نے اپنی زندگیوں کی قسم کھا کر کہا کہ اتنی حسین بچی زندگی بھر میں کبھی کہیں دیکھی نہ تھی، نہ جھونپڑیوں میں، نہ محلوں میں۔
جوان ہوتی گئی تو مانو کہ حسن کو چار چاند لگتے چلے گئے، اور ہر گزرتے برس کے ساتھ یہ چار چاند پہلے سے بھی زیادہ غضب ڈھاتے جا رہے تھے۔ گھر والوں کا بس نہ چلتا تھا کہ اُسے دُنیا کی نظروں سے کہیں دور لے جائیں اور صرف پھولوں اور کلیوں کے بیچ اُس کی پرورش کریں، پر کہاں خواہشیں اور کہاں زمانے کے سرد و گرم۔ حقیقت اُن کا منہ چڑاتی رہی
سفید رنگت، سفید ایال، اور سفید برف جیسی دُم، طاقتور تیز رفتار براق گھوڑا کان کھڑے کئے بگٹٹ بھاگتا ہوا، اور سوار مشاقی سے اُسے رانوں میں دبائے عبا کی اُڑان سے بے خبر صرف اور صرف اُسی پر نظریں جمائے قریب آتا جا رہا تھا۔ جیسے ہی گھوڑا شہزادی کے قریب پہنچا سوار نے نیچے جھکتے ہوئے ایک ہاتھ اُس کی کمر میں ڈال دیا اور اُسے اُچک لیا، پھر بڑی احتیاط کے ساتھ گھوڑے پر اپنے آگے بٹھا لیا۔
ماں کے جھنجھوڑنے پر ہی وہ اُٹھی تھی اور بُرا سا منہ بنا کر انگڑائی لی تھی۔ ماں نے ایک دم اُسے اوڑھنی سے جیسے لپیٹ ہی دیا، شائد وہ خود کو ایسا کر کے اُس حقیقت سے آنکھیں چُرانا چاہتی تھی کہ بیٹی اب جوانی کی اُس حد میں داخل ہو چُکی ہے جہاں اب قابو سے باہر ہوئی کہ تب ہوئی۔
’’ ماں چھُٹی والے دن تو سو لینے دیا کرو‘‘ بیزاری سے اُٹھتے ہوئے شہزادی نے کہا تھا، اتنا اچھا سپنا جو دیکھ رہی تھی۔
’’ چلو جلدی سے کوٹھی میں جاؤ، اُن کے مہمان آنے والے ہیں ایک دو دن میں، کُچھ ہاتھ بٹاؤ، کتنے احسان ہیں ہم پر مسز شیرازی کے‘‘۔ اور یہ بات تھی بھی سچ کیونکہ شہزادی کے ابا کے ایک حادثہ کا شکار ہو جانے کے بعد وہ مسز شیرازی ہی تھیں جنہوں نے اس بے آسرا خاندان کو سہارا دیا تھا اور کوٹھی کے پیچھے بنے کوارٹر میں جو پائیں باغ کے کونے پر واقع تھا، وہاں ماں بیٹی اور نانی کو رہنے کی اجازت دے دی تھی کہ اب ان کے گھر میں کوئی بھی مرد زندہ نہیں بچا تھا۔
شہزادی نے جلدی جلدی منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کوٹھی کی جانب قدم بڑھائے، شہلا جو کہ مسز شیرازی کی بیٹی تھی اُسے دیکھتے ہی خوش ہو گئی، دیکھو شہزادی میں کیسی لگ رہی ہوں؟ عام شکل پر بھی عمدہ لباس زیب تن کر لیا جائے تو لڑکیاں شہزادی ہی لگتی ہیں۔ ’’ بالکُل شاہ ذادی لگ رہی ہیں‘‘ شہزادی نے کہا تھا۔ پھر شہلا نے ایک کے بعد ایک کوئی چھ سات جوڑے باری باری پہن کر اُسے دکھائے تھے اور پھر دو تین گھنٹوں میں ایک جوڑے پر اتفاق ہو ہی گیا جس میں شہلا زیادہ حسین لگ رہی تھی۔ کسی کام میں ہاتھ بٹانے کی نوبت ہی نہ آئی تھی کہ آتے ساتھ ہی شہلا نے گھیر لیا تھا۔ مسز شیرازی نے خاموشی سے سارے کام خدامہ سے کروا لیئے تھے۔
نانی کے ساتھ اُن کا ہاتھ پکڑ کر بازار میں چلتے وہ خوابوں کا شہزادہ اُسے نظر آ ہی گیا، وہی سفید براق گھوڑا اور اُس پر بیٹھا کڑیل جوان جو کسی بھی شاہ ذادے سے کم نہیں لگ رہا تھا، سیاہ گھنگھریالے، چھوٹے چھوٹے بال، کثرتی جسم مانو جس میں بجلیاں بھری ہوتی ہیں، صرف لباس پولیس کا پہنے ہوئے تھا۔ نگاہیں ملیں اور بہت کُچھ کہہ گئیں، نانی اس گُفتگُو سے بے خبر سبزی والے سے بھاؤ تاؤ کرتی رہیں۔
اُسے پتہ بھی نہ چلا تھا کہ وہ جوان اُس کا خاموشی سے پیچھا کرتا ہوا گھر تک آ گیا تھا، اور ایسا کرنے کیلئے نہ جانے کہاں چھوڑ آیا تھا گھوڑے کو۔ وہ تو نانی کو اندر چھوڑ کر شہلا سے ملنے جا رہی تھی جس کا پیغام اُسے ماں نے دیا تھا۔ ابھی وہ باہر نکلی ہی تھی کہ سامنے نظر پڑی، وہ اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ وردی میں ملبوس کھڑا تھا، مُسکُراہٹ کا تبادلہ ہوا ہی تھا کہ اُس کے کانوں میں شہلا کی آواز آئی جو اُس کا انتظار کرتے کرتے وہیں چلی آئی تھی، وہ اُسی جوڑے میں ملبوس تھی جسے اُن دونوں نے مل کر فائنل کیا تھا محمانوں کی آمد پر پہننے کو، سپاہی کو دیکھ کر شہلا ٹھٹھک گئی۔ وہ بھی کُچھ پریشان سا وہاں سے چلا گیا۔
’’ کیا ہوا شہلا ‘‘ شہزادی نے پوچھا تھا
’’ کُچھ نہیں، بس وہ مہمان یوں ہی تھے، ایسے ہی اتنی تیاری کی، یہی تمہیں بتانا تھا‘‘ اور شہزادی سمجھ گئی کہ آنے والا اُسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
دن پر دن گزرتے گئے شہزادی اُس بازار کے کئی چکر بھی لگا آئی پر وہ ملا نہیں، زندگی اپنی ڈگر پہ چلتی رہی۔
پھر ایک دن اُس نے سُنا کہ شہلا کی شادی طے ہو گئی ہے، سبھی گھر والوں کے ساتھ وہ بھی مبارکباد دینے گئی مسز شیرازی اور شہلا کو۔ وہاں پتہ چلا کہ جھٹ پٹ بیاہ کا معاملہ ہے ، کیونکہ دُلہا کے گھر والوں کو جلدی ہے۔ شہلا بے حد خوش تھی، ایسی کہ جیسے دُنیا جہاں کی دولت اُس نے پا لی ہو۔
پھر وہ دن بھی آ پہنچا کہ بارات آنے کا غُلغُلہ بُلند ہوا اور لڑکیاں شہزادی سمیت دُلہا کو دیکھنے بالکونی میں بھاگ کر کھڑی ہو گئیں، سبھی نے دُلہا کو دیکھتے ہی چیخیں ماری تھیں خوشی سے، لیکن شہزادی تو بیہوش ہی ہو گئی، اُسے جلدی سے وہاں سے اُٹھوا کر اُس کے گھر لے جایا گیا، جہاں نانی نے اُس کا سر گود میں رکھا اور پانی کے چھینٹے مارے، ماں گھبراہٹ میں کبھی پاؤں دباتیں اور کبھی سینے پر ہاتھ پھیرتیں۔ آخر اُسے ہوش آ ہی گیا
’’ کیا ہوا شہزادی تُمہیں؟ ‘‘ نانی نے فورا ہی سوال داغا تھا
’’ نانی مجھے شہزادی نہ کہا کریں، شہزادیاں صورت سے نہیں، بخت سے ہوتی ہیں‘‘ اُس نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی