شہزاد احمد

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اردو دنیا کا ایک بہت بڑا نام شہزاد احمد، جو اب ہم میں نہیں رہا۔
شیزاد صاحب کو بہت سے لوگوں نے خراجِ تحسین پیش کیا، ان پہ کالمز بھی لکھے۔
میری کوشش ہے کہ میں ان سب کو یہاں جمع کروں۔
اگر آپ کو بھی کچھ ایسا ملتا ہے تو ضرور یہاں دیجیے۔
محمد وارث
الف عین
مزمل شیخ بسمل
مہدی نقوی حجاز
فاتح
الف نظامی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

کيا کوئي اور شہزاد احمد بھي ہے ؟...روزنِ ديوار سے … عطاء الحق قاسمي
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

جب کبھي ميرے فون پر برادرِ عزيز ناصر بشير کا ميسيج آتا ہے ، ميرا دل کسي نامعلوم انديشے سے دھڑکنے لگتا ہے، اس کي بھيجي ہوئي خبريں کئي بار اداس کرنے والي ہوتي ہيں? آج سہ پہر کو فون پر ميسيج کي ٹون سن کر ميں نے فون آن کيا تو ناصر بشير کي طرف سے پيغام درج تھا ”شہزاد احمد انتقال کر گئے“ ? مجھے اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا، ابھي گزشتہ روز فون پر ان سے بات ہو رہي تھي، مجلس فروغِ اردو ادب دوحہ قطر کي جيوري کي طرف سے اس بار مجھے لائف ٹائم اچيومنٹ ايوارڈ (حاصل عمر ايوارڈ) کے لئے نامزد کيا گيا ہے جو نومبر کے مہينے ميں قطر ميں منعقد ہونے والي ايک پاک و ہند تقريب ميں ديا جانا ہے? مجلس کے مقامي منتظم داؤد ملک نے مجھے بتايا کہ مجلس کے فيصلے کے مطابق شہزاد احمد آپ کے فن اور شخصيت پر مقالہ پڑھيں گے? شہزاد احمد کا فون اسي حوالے سے تھا، وہ کہہ رہے تھے ”ميرے پاس تمہاري کچھ کتابيں ہيں، فلاں فلاں نہيں ہيں، وہ مجھے بھجوا دو“ اور ميں انہيں کہہ رہا تھا کہ بھجوانے کي کونسي بات ہے ميں کل خود يہ کتابيں لے کر آپ کے پاس آؤں گا? چنانچہ آج مجھے ان کي طرف جانا تھا، جاؤں گا ضرور کيونکہ ان سے وعدہ کيا ہوا ہے ليکن اب ميرا يہ جانا ان کي نمازِ جنازہ ميں شرکت کے لئے ہے? کل من عليھا فان?
شہزاد احمد سے ميرا تعلق چاليس برس پرانا ہے، اس وقت وہ جوان تھے اور ميں نوجوان تھا? شاعري ميں اعلي? مقام اور مرتبے کے باوجود وہ اپنے ملنے والوں کو يہ احساس نہيں ہونے ديتے تھے کہ وہ کسي اعلي? مسند پر فائز ہيں اور يوں انہيں يہ استحقاق حاصل ہے کہ ان کي يکطرفہ اور غيرمشروط عزت کي جائے? بے تکلفي ان کي فطرت کا خاصہ تھي چنانچہ عمر اور مرتبے کے فرق کے باوجود ميں انہيں اسي طرح مخاطب کرتا تھا جس طرح کسي بے تکلف دوست کو مخاطب کيا جاتا ہے اور ان کا انداز بھي ويسا ہي تھا? يہي رويہ عہد حاضر کے بہت بڑے غزل گو ظفر اقبال کا بھي ہے? اپنے جون ايليا، احمد فراز اور خاطر غزنوي بھي ايسے ہي تھے اور کچھ ايسے ہي ”طور اطوار“ بابائے صحافت وقار انبالوي کے بھي تھے? دراصل اس طرح کے لوگ کسي قسم کے کمپليکس ميں مبتلا نہيں ہوتے? شہزاد بھي کمپليکس فري تھے، جس محفل ميں ہوتے اس ميں اپني خوش بياني سے جان ڈال ديتے? زبردست جملے باز تھے? ايک بار ايک سينئر شاعر نے ان سے کہا ”اوئے شہزاد، تم عينک نہ لگايا کرو، عينک لگا کر تم بجّو لگتے ہو!“ شہزاد نے اس پر ايک بھرپور قہقہہ لگايا اور کہا ”ميں اگر عينک اتار دوں تو مجھے آپ بجّو لگنے لگتے ہيں!“ شہزاد پکے امرتسري تھے، امرتسر ميں کشميري کلچر غالب تھا چنانچہ وہ خود کو ”اعزازي کشميري“ کہتے تھے، محفل ميں جب کسي اجنبي سے ميرا تعاون کراتے تو کہتے ”يہ ميرا استاد گھرانہ ہے“ اوراس کي وضاحت يوں کرتے ”ميں ان کے والد ماجد? سے ايم اے او ہائي اسکول امرتسر ميں پڑھا ہوں اور ميري بيٹي کالج آف ہوم اکنامکس لاہور ميں ان کي اہليہ کي شاگرد رہي ہے!“ مشاعروں ميں شرکت کے لئے دوسرے شہروں ميں جانا ہوتا تو وقت گزاري کے لئے کسي حاضر يا غير حاضر شاعر دوست کي منظوم ہجو گوئي کا سلسلہ شروع ہو جاتا، ہم سب اس ميں حصہ ڈالتے تاہم مقدار اور معيار کے حوالے سے شہزاد کا حصہ سب سے زيادہ ہوتا، ايک دو بار ہم نے خود شہزاد پر ان کي موجودگي ميں طبع آزمائي شروع کر دي اور انہوں نے اس ميں بھي پُرجوش حصہ ليتے ہوئے خود اپني ہجو ميں ايسے ايسے شعر کہے جو کہنے کے لئے بڑے ”جگرے“ کي ضرورت ہوتي ہے? ايک بار اسي طرح کے ايک سفر ميں ايک اجنبي نوجوان بھي ہمارا ہم سفر تھا جو دو افراد والي سيٹ پر شہزاد کے برابر ميں بيٹھا تھا، ميري نشست شہزاد کے پيچھے تھي، ميں ديکھ رہا تھا کہ شہزاد اس نوجوان کے ساتھ فلسفے کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہيں جو اس کي سمجھ سے باہر تھا چنانچہ وہ خاصا مرعوب مگر کنفيوژڈ نظر آ رہا تھا? جب ميں نے صورتحال زيادہ ”گھمبير “ ہوتي ديکھي تو ميں نے شہزاد کو کاندھے سے ہلا کر اپني طرف متوجہ کيا اور کہا ”شہزاد صاحب ، وہ جو يونان ميں سو فسطائي فلسفي ہوتے تھے، وہ سادہ لوح لوگوں کو کيسے چکر ديا کرتے تھے؟“ اس پر شہزاد ہنسي سے لوٹ پوٹ ہو گئے اور يوں اس نوجوان کي جان چھوٹ گئي?
اور ہاں يہ تو شہزاد کي شگفتہ شخصيت کي چند جھلکياں تھيں مگر ان کي شاعري اور ان کا علم؟ بلّے بلّے بلّے ، جب اس کي شاعري کي پہلي چہکار سنائي دي ، اسے ايک بالکل منفرد آواز قرار ديا گيا اور پھر ايک پوري نسل ان کے رنگ ميں رنگتي چلي گئي? اور جہاں تک ان کے علم و فضل کا تعلق ہے ميرے خيال ميں وہ اپنے ہم عصروں ميں سب سے آگے تھے? فلسفہ، سائنس اور نفسيات ان کے خاص موضوعات تھے اور ان موضوعات پر ان کا مطالعہ نہايت وسيع تھا? کلاسيکي شعراء ميں وہ اقبال کے سب سے زيادہ قائل تھے? انہوں نے اقبال کے ليکچرز کا ترجمہ بھي کيا ، سائنسي موضوعات پر ان کے کئي وقيع مضامين بھي موجود ہيں اور انہوں نے ان موضوعات کي حامل کتابوں کے تراجم بھي کئے? تاہم يہ بھي حقيقت ہے کہ علم کي بہتات نے ان کي شاعري کو تھوڑا سا نقصان بھي پہنچايا? مگر تھوڑي بہت لينڈ سلائيڈنگ سے کسي پہاڑ ميں کون سي کمي واقع ہو جاتي ہے؟
سو ہمارے عہد کا ايک نہايت اہم شاعر اور اسکالر ہم سے جدا ہو گيا ہے? وہ 81برس اس دنيا ميں رہا اور اپنے لفظوں سے معاشرے کو خوبصورت بنانے ميں لگا رہا? وہ خود بھي تو بہت خوبصورت تھا اور اس خوبصورت شخص کو آج ہم نے اپنے ہاتھوں سے قبر ميں اتارنا ہے? اس کي جدائي کا غم اپني جگہ ليکن يہ کيا کہ جو جاتا ہے، اسکي جگہ لينے والا کوئي نہيں ہوتا؟ فيض، نديم، جون ايليا، مجيدامجد، ميرا جي، ن م راشد، منير نيازي، ناصر کاظمي ، احمد فراز، شفيق الرحمان، محمد حسن عسکري،پطرس بخاري، قراة العين حيدر اور دوسرے بہت سے چلے گئے، ان کي جگہ کون آيا؟ شہزاد احمد بھي چلا گيا، کيا ہمارے درميان کوئي اور شہزاد احمد ہے؟

 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

شوکت خانم ہسپتال سے شہزاد صاحب تک...چوراہا … حسن نثار
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

مجھے کچھ کچھ اندازہ تھا کہ عمران خان اور اس کي تحريک انصاف نے ن ليگ کے اعصاب کو شکستگي کا شکارکرديا ہے ليکن اب تو مجھے يقين ہوگيا ہے کہ عمران خان نے اس کے اعصاب کو اس بري طرح برباد کرديا ہے کہ انہيں اچھے برے، خير و شر کي تميز بھي باقي نہيں رہي? شوکت خانم کينسر ہسپتال پر اتنا اوچھا وار جو ہسپتال کو تو کوئي نقصان نہيں پہنچا سکے گا ليکن خود ن ليگ کو اس کا جو”تاوان“ ادا کرنا پڑے گا اس کا شايد ن ليگ کے”پروپرائيٹرز“ کو خود بھي اندازہ نہيں? يہ موضوع پہلے ہي زبان زد عام ہے کہ لوڈ شيڈنگ کے حوالہ سے بھي ن ليگ”جاگ پنجابي جاگ تري پگ نوں لگ گيا داغ “ کے ايکشن ري پلے ميں مصروف ہے کيونکہ يہ لوگ کسي بھي قيمت پر………کسي بھي قيمت پر پنجاب کو اپنے ہاتھوں سے نکلتا ہوا نہيں ديکھ سکتے جبکہ پنجاب جتني تيزي کے ساتھ ان کے پنجوں سے نکل رہا ہے اسي حساب سے ان کي فرسٹريشن بڑھتي جارہي ہے ليکن يہ يقينا نہيں جانتے کہ بند مٹھي سے ريت سرکنا شروع ہوجائے تو پھر ہر کوليس بھي زور لگالے تو يہ عمل رکتا نہيں?بدنصيبي کي دلدل ميں دھنسا آدمي ڈوبنے سے بچنے کے لئے بري طرح ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ يہ کوشش دراصل اس کي غرقابي کے پراسيس کو ضربيں لگادے گي? اک اور بات عرض کردو ں کہ لوگوں کو اس حرکت سے بھي کراہت محسوس ہوتي ہے، يہ بات بھي سخت ناگوار گزرتي ہے جب کوئي ن ليگيا يہ بڑھک مارتا ہے کہ کينسر ہسپتال کا پلاٹ نواز شريف نے ديا تھا? يہ پنجاب کا پلاٹ تھا جو پنجاب کے کيا ملک کے اعلي? ترين فلاحي ادارہ کو ديا گيا، اگر يہ نواز شريف کي ذاتي جائيداد تھي تو اور بات ہے ليکن پھر وہي پنجابي محاورہ ياد آتا ہے کہ جب اللہ پاک نے کسي کو سبق سکھانا ہو تو وہ زمين پر آکر اسے لاٹھي نہيں مارتا، صرف اس کي مت مار ديتا ہے…… ن ليگ مسلسل ايسي حرکتيں کررہي ہے جو اس کے لئے پورس کے ہاتھيوں کا سا کام کريں گي?
رہ گئے ہارون الرشيد کے”فيورٹ“ بھاڑے کے ٹٹو وہ بھي جتنا چاہيں کنفيوژن پھيلانے کي کوشش کرديکھيں کہ انتہائي مجبوري اور بے بسي کے عالم ميں ايک طرف عمران خان اور کينسر ہسپتال کي تعريفيں بھي کرتے ہيں ليکن ساتھ ساتھ ووٹرز کو کنفيوژ کرنے کي رفو گرانہ کوشش بھي کررہے ہيں? ان”ايزي لوڈ“ دانش وروں ميں سے کون کس قسم کے جرم ميں اندر رہا?……ضرورت محسوس ہوئي تو اس پر بھي روشني ڈالنا ہوگي? في الحال پوليٹيکل جينئس ذوالفقار علي بھٹو کا اک واقعہ سن ليں?بھٹو صاحب نے فيلڈ مارشل ايوب خان سے اختلاف اور عليحدگي کے بعد جب ايوب خان کے لئے سياسي چيلنج کا روپ دھارنا شروع کيا تو بھٹو صاحب پر بيہودہ اور بوگس قسم کے الزام و مقدمات شروع ہوگئے جس پر بھٹو نے ہنستے ہوئے حقارت کے ساتھ ايوبي حکمت عملي کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا……”يہ بوڑھا بے وقوف فوجي نہيں جانتا کہ جب کسي سياستدان کي شہرت اس کي گلي کا موڑ مڑ جائے تو پھر مکروہ اور غليظ ترين پروپيگنڈا بھي اس کا کچھ نہيں بگاڑ سکتا“?يہ سادہ سي بات ن ليگ کو سمجھ نہيں آرہي کہ بطور سياستدان عمران خان اس کڑي کمان کي مانند ہے جس کا تير اپنے ٹارگٹ کے عين مرکز ميں پيوست ہوچکا? عمران خان کے بازوئے شمشير زن اس ملک کے نوجوان ہيں جنہيں پنجاب اور پاکستان کا واسطہ دے کر مجھے ان سے صرف اتني ہي اپيل کرني ہے کہ ہر نئے غليظ الزام کے جواب ميں مضبوط سے مضبوط تر ہونے کا ثبوت دو اور چٹان کي طرح اس وقت تک ڈٹے رہو جب تک پنجاب کيا پورے پاکستان کو غلاظت کي سياست سے پاک نہ کردو? اس ملک سے اپنا جينوئن حق اور حصہ وصولنا ہے تو ان سياسي نقب زنوں کو قصہ پارينہ بنانا ہوگا اور دنيا کو بتانا ہوگا کہ……”ہميں ہوش آچکا اور ہم ضياء الحق آمريت کي آخري نشاني کو بھي گہرا دفن کرچکے“ ”کالم يہيں تک پہنچا تھا کہ يہ ناقابل يقين خبر ٹي وي سے سنائي دي کہ ن ليگ کے باوقار سردار ذوالفقار علي کھوسہ نے پارٹي رکنيت سے استعفي دے ديا، دوسري طرف ميرے نزديک افضل سندھو کي رخصتي کے بعد پيپلز پارٹي بھي”بيوہ“ ہي سمجھو کہ شايد افضل سندھو پي پي پي ميں سينئر ترين اور بھٹو شہيد کي آخري نشاني تھے? افضل سندھو کي قابليت اور ديانت کو اس کے دشمن بھي کبھي چيلنج نہ کرسکے اور آج وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہيں تو پاگل بھي سمجھ سکتے ہيں کہ کہاني کدھر جارہي ہے ?سردار ذوالفقار کھوسہ جيسا خانداني اور وضعدار آدمي بھي اگر اس قدر”نکونک“ تھا تو ديکھ ليں کہ ن ليگ اور اس کا گوالمنڈي کلچر کيا ہے؟ عجب اتفاق ہے کہ يونيورسٹي دنوں کا ميرا بيحد پيارا دوست اور تگڑا زميندار سردار رجب علي تپافي آج کل ہانسي حويلي بيلي پور ميں ميرا”قيدي“ ہے اور باتوں باتوں ميں گزشتہ روز ہي مجھے بتا رہا تھا کہ”ذوالفقار علي کھوسہ بہت خانداني اور عاليشان آدمي ہے ليکن گندي سياست نے اسے نجانے کن کے ہاتھوں پر بيعت کے لئے مجبور کرديا “سردار کو سياسي بيگار کيمپ سے رہائي مبارک ہو? قارئين کالم يہيں تک پہنچا تھا کہ ايک فون کال نے مجھے کہيں اور پہنچا ديا بلکہ يوں سمجھيں کہ2012سے اٹھا کر 70-1969ميں پھينک ديا ،چشم زدن ميں کتنے عشرے بيت گئے اور ميں ”بيلي پور“ سے لکشمي چوک کي لکشمي بلڈنگ کے اس فلور پر جا پہنچا جہاں ايک ذہين و حسين شخص ہميشہ ميرا منتظر ہوتا حالانکہ عمر ميں ميرے بہت ہي بڑے بھائي جيسا تھا? شہزاد صاحب بہت بڑي سائيکل کمپني کے جنرل منيجر تھے اور ميرے لئے سرتاپا شفقت ،دو تين بار لائل پور ميرے گھر مہمان بھي رہے حالانکہ مشاعرہ منتظمين نے شہر کے بہترين ہوٹل ميں ان کا بندوبست کيا ہوتا تھا ليکن انہيں مير ا گھر ميري ميزباني پسند تھي?ميرا ايک پاؤں نيو کيمپس دوسرا خلاء ميں تھا جب ميں ان کے دفتر گيا تو باتوں باتوں ميں پوچھا”مضمون تيرا اکنامکس ہے اور کرتا ہے تو شاعري، ترا بنے گا کيا؟“ ميں نے کہا”کسي اخبار رسالے ميں ”بھرتي“ کرادو“ شہزاد صاحب نے جانے کسے فون کيا، مجھے اپنا کارڈ ديا اور نسبت روڈ کي طرف روانہ کرديا جہاں کسي زنانہ رسالہ کي ا يڈيٹر ميري منتظر تھي? بدشکل سي عورت، لاؤڈ ميک اپ، اندھيرا سا دفتر، گھٹن زدہ ماحول، عجيب سي بو، غريب سي چائے اور بيہودہ سے بسکٹ……ميں کھوٹے سکے کي طرح شہزاد صاحب کے پاس واپس گيا اور کہا……”ميں نے وہاں جاب نہيں کرنا“ ”ايڈيٹر بدصورت، دفتر بدصورت، ماحول بدصورت، چائے بدصورت“ شہزاد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا”ميں تيرے لئے نوکري کا بندوبست تو کرسکتا ہوں ليکن خوبصورت ايڈيٹر ،خوبصورت دفتر، خوبصورت ماحول اور خوبصورت چائے کا بندوبست ميرے بس سے باہر ہے“يہ تھے شہزاد احمد شہزاد……پھر صرف شہزاد احمد……لازوال شاعر، بے پناہ دانش ور اور ايسا انسان جسے جان لينے کے بعد کوئي بھي کہے گا…”ايسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہيں جسے“

 

محمد بلال اعظم

لائبریرین


شہزاد احمد بھي ہميں چھوڑ گيا... آئينہ…مسعود اشعر
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

ابھي پچھلے جمعہ کي بات ہے ? نيرنگ گيلري ميں شہزاد احمد اپني ايک طويل نظم سنا رہا تھا? پھر سب کي فرمائش پراس نے تين غزليں بھي سنائيں ?نيرنگ گيلري ميں ہر مہينے کے آخري جمعہ کو نير علي دادا ايک محفل بر پا کرتے ہيں جسے انہوں نے بيٹھک کا نام ديا ہے ? کئي سال سے يہ بيٹھک چل رہي ہے ?ر شروع سے ہي اس بيٹھک کي يہ روايت رہي کہ محفل کا اختتام شہزاد احمد کي غزل پر ہو تا?يہ صرف تين دن پہلے ہي کي تو بات ہے ?وہ ہميشہ کي طرح خوش وخرم تھا?ہنسي مذاق ميں برابر کا شريک ?ہنسي ہنسي ميں ہي اس نے ميري ايک بات کي تصحيح بھي کي ?وہي سرخ وسفيد چہرہ ?وہي عينک کے پيچھے سے جھانکتي بڑي بڑي آنکھيں اوران آنکھوں ميں بھري شرارت? اور وہي اس کے ہونٹوں پر کھيلتي مسکراہٹ?کون سوچ سکتا تھا کہ صرف تين دن ميں ہي وہ ہميں چھوڑ جائے گا? دل کا عارضہ تو اسے پچھلے پندرہ بيس سال سے تھا ?مگر وہ اس کا مقابلہ کر رہا تھا? چند دن بيمار رہتا اور ٹھيک ہوتے ہي اپنے کام شروع کر د يتا? ?آج کل وہ مجلس ترقي ادب کا ڈائريکٹر تھا? ليکن اس سے پہلے اس نے انيس بيس سال بے کاري ميں گزارے ?روٹي پلانٹ بند ہو نے کے بعداس کے پاس کوئي ملازمت نہيں تھي ? ليکن جسے ہم اس کي بے کاري کے سال کہتے ہيں وہي اس کے سب سے زيادہ ہ کار آمد سال تھے ? اس عرصے ميں اس نے ملازمت کے لئے در در کي ٹھوکريں نہيں کھائيں?
اس نے سرکاري اور غير سرکاري افسروں کي خوشامديں نہيں کيں ? بلکہ اپني اس نام نہاد بے کاري کے زمانے ميں تخليقي کام کيا? شاعري تو اس کي پہلي محبت تھي? ليکن اس نے فرائيڈ اور يونگ سے لے کر دنيا کے تمام نامور ماہرين نفسيات پر کتابيں لکھيں? اسي عرصے ميں اس نے نفسيات، فلسفے اور سائنس پر کئي کتابوں کے ترجمے بھي کئے ?علامہ اقبال کے خطبات کا ترجمہ يوں تو پہلے بھي ہو چکا تھا ? مگر اس کي زبان مشکل تھي ? شہزاد احمد نے آج کي زبان ميں ان خطبات کا ايک بار پھر تر جمہ کيا ? ادارہ مشعل کے لئے ناظر محمود نے اسٹيفن ہاکنز کي کتاب A Brief History of Time کا ترجمہ کيا تھا ? مگر اصل کتاب کي طرح وہ بھي خاصہ گنجلک تھا? شزاد احمد نے اس پر بھي نظر ثاني کي اور عام پڑھے لکھے آدمي کے لئے اسے آسان بنايا ??يوں تو شہزاد کا مضمون نفسيات اور فلسفہ تھا کہ اس نے ان مضاميں ميں ايم اے کئے تھے ليکن اس نے سائنسي مضامين کا بھي اتني گہرائي کے ساتھ مطا لعہ کيا تھا کہ نظري اور اطلاقي سائنس کے ہر مضمون پر و ہ بلا تکان بول بھي سکتا تھا اور لکھ بھي سکتا تھا ?سائنس پر اس کي اسي گہري نظر کا نتيجہ تھا کہ پاکستان کے واحد نوبيل انعام يافتہ سائنس داں ڈاکٹر عبدالسلام نے بھي اپني کتاب کا اردو ترجمہ شہزاد احمد سے ہي کرايا تھا ?نفسيات، فلسفے اور سائنس پر اس کي کتني کتابيں ہيں ؟ ميں اس وقت ان کي گنتي نہيں کر سکتا? البتہ اس کي شاعري کے تيس مجموعے شائع ہو چکے ہيں ?جيسے ميں کہا?شہزاد کي پہلي محبت شاعري ہي تھي ?اور قيام پاکستان کے بعد ابھرنے والے شاعروں ميں اس کا بڑا نام تھا ?مگر اس نے صرف شاعري کو ہي اپنا تعارف نہيں بنايا ?
مجلس ترقي ادب کا ڈائريکٹر بننے کے بعد اس نے مجلس کي شکل ہي بدل دي تھي ?اس نے يہ شکل ظاہري طور پر بھي بدلي اور باطني طور پر بھي ?ظاہري طور پر اس نے مجلس کي خستہ حال عمارت کي نئي آرائش وزيبائش کرائي ? نير علي دادا کي مدد سے لائبريري اور دوسرے کمروں کو نئے سرے سے آراستہ کيا ? اور باطني طور پر اس نے چند سال ميں اتني تعداد ميں نئي کتابيں چھاپيں جتني تعداد ميں اس سے پہلے اتني کتابيں نہيں چھپي تھيں ? اس نے پراني کتابوں کے نئے ايڈيشن بھي شائع کئے ?مجلس کي پراني کتابيں نسخ ميں چھپي ہوئي تھيں? چو نکہ ہماري آج کي نسل کے لئے نسخ ميں کتاب پڑھنا مشکل ہے اس لئے شہزاد نے يہ کتابيں نستعليق ميں منتقل کرنا شروع کر دي تھيں ? کئي کتابيں نسخ ميں شائع بھي ہو چکي ہيں ? اس کا ارداہ تمام کتابوں کو نستعليق ميں شائع کرنے کا تھا ?اس نے کئي اور بھي کئي منصوبے بنائے تھے ?وہ دوسري زبانوں سے اردو ميں ترجمہ کرنے کے لئے ايک تربيتي کورس بھي شروع کرنے والا تھا ?اس کا مقصد اردو زبان ميں صحيح اور اچھا ترجمہ کرنے والے نو جوانوں کي ايک کھيپ تيار کرنا تھا ?اس سے جب کہا جا تا کہ اس کے لئے فنڈز کہاں سے آئيں گے؟ تو وہ کہتا ”فنڈ لينا ميرا کام ہے? ميں انتظام کر لوں گا “? اور وہ انتظام کر بھي ليتا تھا کہ شاعر اور لکھاري کے ساتھ وہ اچھا منتظم بھي تھا? سچ ہے،، وقت کس کا ساتھ ديتا ہے ?شہزاد بھي ہميں چھوڑ گيا ? مگراس کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہمارے دل ودماغ ميں ہميشہ جگمگاتا رہے گا ?اور پھر اس نے تخليق اور ترجمے کا جو وقيع کام کيا ہے وقت اس کا بھي تو کچھ نہيں بگاڑ سکے گا ?

 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

شہزاد احمد کے شعروں ميں سچائي کي مہک تھي، محمد انور
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

مانچسٹر (پ ر) حلقہ ارباب ذوق برطانيہ سے وابستہ شاعروں اور اديبوں نے عہد حاضر کے نمائندہ شاعر اور مجلس ادب کے ڈائريکٹر شہزاد احمد کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کيا ہے? حلقہ ارباب ذوق کے چيئرپرسن محمد انور نے مرحوم کو خراج تحسين پيش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہار ادب کا ايک حسين پھول ملک عدم کو روانہ ہوگيا? شہزاد احمد کے شعروں ميں سچائي کي مہک تھي? انہوں نے اپنے منفرد اسلوب سے غزل کو ايک نئي تڑپ اور توانائي سے آشنا کيا? جسے عوام الناس ميں بيحد پزيرائي حاصل ہوئي? ان کي وفات سے ادبي دنيا ميں ايک عميک خلا پيدا ہوگيا ہے? اللہ تعالي انہيں کروٹ کروٹ جنت عطا کرے?کاروان ادب برطانيہ کے صدر صابر رضا نے کہا ہے کہ وہ ايک عظيم غزل گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ايک عظيم انسان بھي تھے? بزم خواتين مانچسٹر کي صدر فردوس شاہ نے شہزاد احمد کو بھرپور خراج عقيدت پيش کيا ہے? دريں اثناء يارکشائر ادبي فورم کي صدر غزل انصاري ، روبينہ خان، مانچسٹر کے ممتاز شاعر لياقت علي عہد، زاہد ظفر برطانيہ کے معروف شعراء ڈاکٹر مختار الدين احمد، فيضان عارف، يشب تمنا، ياسمين حبيب، راحت زاہد، فرزانہ نيناں، اشتياق مير اور شمالي انگلستان کے شعرائے کرام اور اديبوں ميں سے شارق خان، سيد نعيم شبي، ڈاکٹر نعيم قريشي، ڈاکٹر نديم جيلاني، گلنار سيد، ڈاکٹر ثروت رحمن، باصر کاظمي کے علاوہ ليور پول شہر ميں ڈاکٹر شہناز سومجي، لطيف راز، بليک برن ميں افضل قريشي، اولڈھم سے انور جمال فاروقي، نغمانہ کنول، راشڈيل سے ڈاکٹر عبدالکريم شکور، صبا نصرت اور ديگر احباب نے گہرے افسوس کا اظہار کيا ہے?
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خدا حافظ۔۔۔احمد شہزاد(ڈاکٹر محمد اجل نیازی)

بدلتے موسموں کا اچھا شاعر ناصر بشیر میرے ساتھ تھا میں نے شہزاد احمد کو خدا حافظ کہا جب اس کا جنازہ دوست قبرستان کی طرف لے جا رہے تھے۔ اس سے پہلے میں نے کبھی شہزاد احمد کو خدا حافظ نہ کہا تھا۔ بدتمیزیوں کو تخلیقی اور تفریحی رنگ دے کر بٹ تمیزیاں بنانے والے ادیب ڈاکٹر یونس بٹ سے ایک بات چیت میں آخری بات کرنے کے لئے کہا تو اس نے آخیر کر دی کہ میں آخری بات کا قائل نہیں ہوں۔ میں تو باتیں کرتے رہنے کو پسند کرتا ہوں۔ دوستوں کو ویلکم کرنا میری خوشی ہے۔ میں کسی کو خدا حافظ کہنا پسند نہیں کرتا۔ مجھے ناصر بشیر نے کہا کہ تم شہزاد پر لکھو گے تو کالم کا عنوان یہی رکھنا ”خدا حافظ شہزاد احمد“ خدا حافظ آدمی اس امید میں کہتا ہے کہ اسے خوش آمدید کہنے کی مہلت بھی ملے گی“ آج کل خوشامد اور خوش آمدید میں فرق مٹ گیا ہے۔ یہ کام تو ہوتا رہتا ہے مگر ہم اس کی خبر نہیں رکھتے۔ ہم باخبر بہت بنتے ہیں مگر اہل خبر نہیں بن سکتے۔ شہزاد باخبر بھی تھا اور اہل خبر بھی تھا اور اہل خبر ہی اہل خیر ہوتے ہیں۔ شہزاد واقعی اہل خیر میں سے تھا۔ اب لکھنے پڑھنے والوں میں اہل خیر کم کم رہ گئے ہیں۔ اس زمانے میں خبر کی ظاہری حیثیت بہت بڑھ گئی ہے اور خیر کی خبر کہیں سے آتی نہیں۔
خبر دینے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ خبر ہوتی کیا ہے۔ بھارتی اداکار راجیش کھنہ مرتا ہے تو ہمارا میڈیا کئی رتوں تک چیختا چلاتا رہتا ہے۔ ایک عالم آدمی چلا گیا ہے تو کوئی پرواہ ہی نہیں۔ شہزاد بے پناہ پڑھے لکھے آدمی تھے۔ آج کل لوگ پڑھے کم اور لکھے زیادہ ہیں۔ میں نے شہزاد کو سراج منیر سے باتیں کرتے سنا اور پھر سجاد کے ساتھ اس کا مکالمہ سنا۔ مکالمہ مکاشفہ اور مراقبہ کا فرق مٹ جاتا تھا۔ وہ نظریاتی آدمی تھا بلکہ روحانی آدمی تھا مگر غیر مذہبی بھی نہ تھا۔
اس سے پہلے بھی وہ موت کی دہلیز کے پار چلا گیا تھا موت کی دہلیز پر تو ہم سب ہیں مگر ہمیں احساس نہیں۔ یہ احساس شہزاد کا تجربہ بنا تھا۔ وہ مر گیا تھا۔ پھر زندہ ہوا۔ پہلے بھی وہ کسی اور زندگی کی تلاش میں گیا تھا اب بھی وہ کسی اور زندگی کی تلاش میں گیا ہے۔ وہ تو زندگی میں کسی اور زندگی کی تلاش میں تھا اور زندگی کی کئی قسمیں ہیں۔ میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم نے کہا تھا کہ تخلیق معلوم سے نامعلوم کی طرف ایک سفر ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا یہ حق اسے ہے جو نامعلوم سے معلوم کی طرف آ جائے۔ موت ایک نامعلوم جہان ہے۔ پھر وہ کب واپس آئے گا۔ وہ آتا رہے گا مگر یہ صرف ان کو پتہ چل جائے گا جو معلوم سے نامعلوم کی طرف جانے کے اہل ہوں گے اور ہم بڑے نااہل ہیں۔ علوم کا ایک ہجوم اس کے اندر تھا مگر وہ اس میں گم نہیں ہو گیا تھا۔ وہ اس بھیڑ میں سے نکلتا تھا تو اس کے معلوم میں نامعلوم کی فراوانی ہوتی تھی۔ وہ نامعلوم شہزادوں کے دیس کا معلوم مسافر تھا۔ وہ زندگی اور موت دونوں کی حقیقتوں کا رازدار تھا۔ اس نے کبھی اپنے آپ کو پوری طرح ظاہر نہ کیا تھا۔ شاید وہ ایسا کر نہ سکتا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو چھپایا بھی نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ زندگی پہیلی ہے اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ زندگی سہیلی بھی ہے۔ ان دونوں کیفیتوں کو سادہ اور آسودہ رشتوں میں اس نے ڈھال لیا تھا۔ وہ محرومیوں اور نعمتوں کو الگ الگ کرکے نہ دیکھتا تھا۔ قرآن کا فیصلہ ہمارے لئے ہے۔
”قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے“
شہزاد اتنے ہنس مکھ بذلہ سنج اور جملہ باز تھے کہ ان کے مقابلے میں بقول ظفر اقبال صرف منیر نیازی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ظفر اقبال نے شہزاد کے لئے دو کالم لکھے ہیں۔ ان کی وابستگی شہزاد کے ساتھ بہت تھی۔ ان کے صاحبزادے آفتاب اقبال نے بھی کالم لکھا۔ انتظار حسین، سجاد میر، طاہر مسعود، خالد احمد، مسعود اشعر، عطاءالحق قاسمی ابھی اور بھی دوست لکھیں گے۔ ناصر بشیر لکھے گا۔ اور کالم کا عنوان ”ویلکم شہزاد احمد ہو گا“ ڈاکٹر شبیہ الحسن ہوتا تو وہ بھی لکھتا۔ اسے شہزاد کے ساتھ نجانے کیا نسبت تھی ہر محفل میں اسے بلاتا۔ ڈاکٹر سلیم اختر اور مجھے بھی یہ اعزاز عطا کرتا۔ شہزاد بہت سینئر تھا بہت بڑا تھا۔ مگر نہ وہ کسی زعم میں رہتا تھا نہ کسی پر رعب جھاڑتا تھا۔ کسی دوسرے آدمی سے اتنا بے تکلفانہ اور دوستانہ تعلق نہ بن سکا۔
ایک دفعہ میری اہلیہ رفعت نے شہزاد اور سنگِ میل والے نیاز احمد کو پکوڑے کھلائے ان کا بیٹا افضال بھی ساتھ تھا۔ وہ ہمیشہ تعریف کرتا تھا اور دوستوں کو پکوڑے کھانے پر اکساتا۔ شہزاد سے رفعت نے گلہ کیا کہ پکوڑے پکا پکا کر میں تھک گئی ہوں۔ شہزاد ہنسے اور کہا میں آپ کے گھر کا پتہ بتا بتا کے تنگ آ گیا ہوں۔ آپ اتنے لذیذ پکوڑے بنانا چھوڑ دیں۔ میری بیوی نے کہا یہ بھی کرکے دیکھ لیا ہے۔ ان پکوڑوں کے لئے آپ کے شاعر ادیب زیادہ تعریفیں کرتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ جنگ والے نہ جانے کس مجہول کنورٹر سے کنورٹ کرتے ہیں کہ وقفے کی جگہ سوالیہ نشان بن جاتا ہے!!
 
Top