شہنشاہ رباعیات امجد حیدرآبادی
امجد اپنا تعارف یوں کرواتے ہیں۔
سید احمد حسین ہوں امجد ہوں
حسان الہند ثانی سرمد ہوں
کیا پوچھتے ہو حسب ونسب کو مرے
میں بندہ لم یلد ولم یولد ہوں
پروفیسر محمد علی اسد کی تحقیق کے مطابق تاریخ ولادت دوشنبہ 7 رجب 1305 یا 1306 ہجری قرار پاتی ہے۔ آپ کے والد کا نام رحیم علی جو بڑے خدا ترس بزرگ تھے۔
28 ستمبر 1908ء رودموسیٰ میں طغیانی آگئی، حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی آبادیوں کو بہا لے گئی۔ ہزاروں خانماں برباد ہوگئے۔ امجد کے چار نفوس ( والدہ، بیوی، بچی اور خود امجد) پر مشتمل خاندان میں سوائے امجد کے کوئی نہ بچا۔
امجد کے اساتذہ میں مولوی عبدالواہاب بہاری، مولوی سعید الدین سہارنپوری، علامہ سناد الملک شوستری حکیم سید بادر الدین کے نام ملتے ہیں۔ آپ نے جامعہ نظامیہ میں چھ سال تعلیم حاصل کی۔
نثر میں ان کی یاد گار پانچ کتابیں اور دو رسالے ہیں۔ جمال امجد،حکایات امجد، حج امجد، پیام امجد، میاں بیوی کی کہانی، ایوب کی کہانی وغیرہ۔
امجد بحثیت شاعر اونچا مقام رکھتے ہیں۔ بالخصوص امجد کی رباعیات قرآن و حدیث کی ترجمانی کرتی ہیں۔
امجد حیدرآبادی کی چند رباعیات پیش خدمت ہیں ملاحظہ ہوں۔
ہر چیز مسبب سبب سے مانگو
منت سے لجاجت سے ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھلاتے ہو
گر بندے ہو رب کے تو رب سے مانگو
اس سینے میں کائنات رکھ لی میں نے
کیا ذکر صفات ذات رکھ لی میں نے
ظالم سہی جاہل سہی، نادان سہی
سب کچھ سہی تیری بات رکھ لی میں نے
نہ اب دور شباب باقی ہے
نہ اب دور شراب باقی ہے
ہو چکیں ختم لذتیں امجد
اب لذتوں کا عذاب باقی ہے
جب اپنی خطاؤں پر میں شرماتا ہوں
ایک خاص سرور قلب میں پاتا ہوں
توبہ کرتا ہوں جب گناہ سے امجد
پہلے سے زیادہ پاک ہو جاتا ہوں
واجب ہی کو ہے دوام، باقی فانی
قیوم کے لئے قیام باقی فانی
کہنے کو تو زمین و آسمان سب کچھ ہے
باقی ہے اس کا نام باقی فانی
ہم باقی سب ہے فانی اللہ اللہ
ہے کون ہمارا ثانی اللہ اللہ
رحمت سے ہماری نا امیدی توبہ
اللہ سے یہ بد گمانی اللہ اللہ
مندرجہ بالا رباعیات سے اندازہ ہوگیا کہ امجد کو رباعیات کہنے میں کس قدر قدرت تھی یہی وجہ ہے کہ ارض ہند و پاک کے تمام ادباء و شعراء نے آپ کو شہنشاہ رباعیات مانا ہے۔
ان کی شعری یاد گارریاض امجد اول، دوم رباعیات امجد اول، دوم و سوم خرقہ امجد وغیرہ۔
آپ کی وفات شب پنجشنبہ 12 شوال 1380 ھ میں ہوئی۔
آپ کی مزار پر یہ رباعی کندہ ہے۔
بندہ پہنچا ہے اپنے مولا کے حضور
اغفرلہ و ارحمہ یا رب غفور
تاریخ کی جو کی فکر ہاتف نے
کہدے ہجری میں آہ امجد مغفور
ماخوذ : بیسویں صدی میں دکن کی علمی، دینی، اصلاحی و ادبی شخصیتیں
مولف : مولانا مفتی محمد شریف نظامی