شہنشاہ سخن مرزا غالب کے فارسی کلام پر ناقدانہ نظر

راشد اشرف

محفلین
شہنشاہ سخن مرزا غالب کے فارسی کلام پر ناقدانہ نظر
سید عارف شاہ گیلانی

مدینہ پبلیشنگ کمپنی، کراچی، سن اشاعت: 1970

کل صفحات: 429


اس مقالے کے عوض پی ایچ ڈی کی ڈگری 1947 میں بمبئی یونیورسٹی سے حاصل کی گئی تھی، مصنف بعد ازاں کراچی چلے آئے تھے جہاں سے 1970 میں اس کے زیر نظر اردو ترجمے کی اشاعت ہوئی۔ مقدمے میں مصنف نے اپنی زندگی کا دلچسپ احوال بھی لکھا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مقالہ "خشک" نہیں ہے۔ اسلوب اپنی جانب توجہ مبذول کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ابتدائی پونے دو سو صفحات میں غالب کے حالات زندگی اس قدر دلچسپ پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں کہ قاری ایک ہی نشست میں پڑھتا چلا جائے۔


مذکورہ مقالہ شہر کراچی میں عنقا ہے۔ دبستانوں کا دبستان (تین جلدیں) کے مولف جناب احمد حسین صدیقی نے چند روز قبل راقم الحروف کو عنایت کیا تو خیال آیا کہ کیوں نہ اسے محققین غالب کے لیے پیش کیا جائے۔ 400 سے زائد صفحات کو اسکین کرنا ایک دشوار کام تھا لیکن اگر یہ کسی ایک کے بھی کام آسکا تو یہ محنت وصول سجھی جائے گی۔ صدیقی صاحب مصنف کی تلاش میں سرگرداں رہے، خیال تھا کہ ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے شخص کے احوال کو دبستانوں کا دبستان کی تیسری جلد میں محفوظ کردیا جائے لیکن صد حیف کہ مصنف اس وقت تک انتقال کرچکے تھے اور ان کی اولاد نے صدیقی صاحب کی اس کوشش کو درخور اعتنا نہ جانا۔ اور اپنے والد سے متعلق معلومات کی فراہمی میں سرے سے دلچسپی نہ لی۔


کیسے کیسے لوگ اس شہر کی مٹی مں مدفون ہیں اور کیسے کیسے عالمانہ کام وہ کرگئے ہیں، اس بات کا اندازہ اس مقالے کے عمومی اور کتاب کی ابتدا میں بقلم خود لکھے گئے صنف کے حالات زندگی کو پڑھ کر ہوتا ہے۔


یہ دلچسپ و نایاب کتاب پیش خدمت ہے, امید ہے مرزا نوشہ پر تحقیق کرنے والوں کے لیے سود مند ثابت ہوگی۔

 

تلمیذ

لائبریرین
۔
کیسے کیسے لوگ اس شہر کی مٹی مں مدفون ہیں اور کیسے کیسے عالمانہ کام وہ کرگئے ہیں،
سو فیصد متفق، راشد صاحب۔
امر واقعی یہ ہے کہ ایسے نابغوں نے اپنی زندگی میں جو محنت دیانتداری اور صدق دل سے کی ہوتی ہے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور قدرت اس دار فانی سے ان کے کوچ کر جانے کے بعد بھی ان کی قدر افزائی کے سامان پیدا کر تی رہتی ہے۔ اور اس کار خیرمیں آپ جیسے لوگوں کو وسیلہ بناتی ہے۔چنانچہ یقیناً آپ بھی صلے کے حقدار ہیں۔
بڑے خاصے کی چیز ڈھونڈی ہے آپ نے۔ جزاک اللہ!
ہماری محفل کی ایک پرانی رکن ہیں، جویریہ مسعود۔ یہاں پر@جیہ کے نام سے آتی ہیں۔ غالب مرحوم کے بارے میں انہیں خاص دلچسپی اور ان کے کلام سے متعلق خاصا علم رکھتی ہیں۔ میں انہیں ٹیگ کررہا ہوں امید ہے وہ اس مقالے کو پڑھ کر محظوظ ہوں گی۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت شکریہ راشد صاحب۔۔۔ ڈاؤنلوڈ پر لگا رکھا ہے۔۔ ابھی پڑھتا ہوں۔۔۔ :)

غالب کی شخصیت پر ویسے تو بہت کچھ لکھا گیا ہے۔۔ لیکن اس ضمن میں
غالب کی تخلیقی شخصیت کے چند پہلو از ڈاکٹر انوار احمد
اٹھارہ سو ستاون اور غالب کی عملیت پسندی از ڈاکٹر خالد اقبال یاسر
غالب کے بعض بیانات کا تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر محمد یار گوندل
بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔۔
 

جیہ

لائبریرین
سو فیصد متفق، راشد صاحب۔
امر واقعی یہ ہے کہ ایسے نابغوں نے اپنی زندگی میں جو محنت دیانتداری اور صدق دل سے کی ہوتی ہے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور قدرت اس دار فانی سے ان کے کوچ کر جانے کے بعد بھی اس کی قدر افزائی کے سامان پیدا کر تی رہتی ہے۔ اور اس کار خیرمیں آپ جیسے لوگوں کو وسیلہ بناتی ہے۔چنانچہ یقیناً آپ بھی صلے کے حقدار ہیں۔
بڑے خاصے کی چیز ڈھونڈی ہے آپ نے۔ جزاک اللہ!
ہماری محفل کی ایک پرانی رکن ہیں، جویریہ مسعود۔ یہاں پر@جیہ کے نام سے آتی ہیں۔ غالب مرحوم کے بارے میں انہیں خاص دلچسپی اور ان کے کلام سے متعلق خاصا علم رکھتی ہیں۔ میں انہیں ٹیگ کررہا ہوں امید ہے وہ اس مقالے کو پڑھ کر محظوظ ہوں گی۔
شکریہ محترم۔ آپ کی بات سے بالکل متفق ہوں۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے غالب کے فارسی کلام سے قطعی نا بلد ہوں اس کی وجہ میری فارسی زبان سے ناواقفیت اور سوات میں فارسی دیوان کی نادستیابی ہے۔ البتہ غالب کے کلیات فارسی خطوط مع اردو ترجمہ میرے پاس ہے جسے دو دفعہ پڑھ چکی ہوں۔

یہ کتاب مین ڈاونلوڈ کر رہی ہوں پڑھنے کی چیز ہوگی۔ ٹیگ کرنے اور توجہ دلانے کے لئے از حد شکر گزار ہوں۔
 

راشد اشرف

محفلین
تلمیذ
بہت شکریہ آپ کا۔ یہ تحریر اپنی جانب کھینچتی ہے۔ عارف شاہ گیلانی کی تصویر بھی آپ نے دیکھی ہوگی۔ کچھ کچھ ابن انشاء کی جھلک آتی ہے ان میں۔خدا غریق رحمت کرے۔
کاش میں الفاظ میں اس لمحے کو بیان کرسکتا کہ جب 75 سالہ احمد حسین صدیقی صاحب فرط مسرت سے اس کتاب کو ہاتھ میں تھامے کمرے سے برآمد ہوئے تھے۔
"صاحب! اسے دیکھیے، کیسا کام ہوا تھا ۔ ۔ ۔اور میں نے اسے برسوں پہلے ایم اے جناح روڈ پر واقع فلاں دکان سے جب خریدا تھا تو یہ اس کا وہاں موجود آخری نسخہ تھا"

اس وقت میں نے سرسری نظر سے دیکھا تھا۔ گھر آ کر پڑھنا شروع کیا تو جیسے اسی میں کھو کر رہ گیا۔ پھر بے اختیار صدیقی صآحب کو فون کرکے کہا کہ آپ نے خزانہ مہیا کیا ہے اور اب آپ کے توسط سے اسے ہزارہا لوگ پڑھیں گے اور استفادہ کریں گے۔
 
Top