ایم اسلم اوڈ
محفلین
برصغیر کے شہداءناموس رسالت میں غازی علم الدین شہید کا تذکرہ زبان زد عام ہے ۔ جو صرف اکیس سال کی عمر میں ایک گستاخ رسول کو قتل کرکے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے فخر کا نشان بن گئے ۔ ایسا ہی ایک سورج 4مئی 2006ءکو غازی علم الدین کی راہوں کے راہی عامر چیمہ کی صورت میں طلوع ہوا۔ عالم اسلام پر طلوع ہونے والے اس دن کا سورج ایک انوکھا پیغام لے کر آیا ۔ غازی عامر عبدالرحمان چیمہ شہید کا نام اس دن ایک ستارہ بن کر ابھرا ۔ جب اس مرد قلندر نے حضرت محمد کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے ڈنمارک کے ایک اخبار کے ایڈیٹر پر قاتلانہ حملہ کرکے اپنے نبی کی ناموس کی حفاظت کے عزم کو پورا کیا ۔ اس ”جرم“ کی پاداش میں وہاں کی پولیس نے عامر چیمہ کو گرفتار کر لیا اور تشدد کرکے اسے شہید کرڈالا ۔ غازی علم الدین ثانی بن کر ابھرنے والا یہ عامر عبدالرحمان چیمہ کون تھا ؟ .... عامر چیمہ راولپنڈی کے ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اپنی تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ۔ ایک ریٹائرڈ پروفیسر نذیر احمد چیمہ کے بیٹے اور جرمنی میں ٹیکسٹائل انجینئر کی تعلیم کے لئے مقیم تھے ۔ جب گستاخانہ کارٹون تنازع میں انہیں گرفتار کیا گیا تو عامر چیمہ کی تعلیم مکمل ہونے میں صرف دو ماہ رہ گئے تھے مگر انہوں نے اپنی حقیقی منزل پالی تھی ۔ وہ ہمیشہ کے لئے امر ہونے اور اصل امتحان میں کامیاب ہونے والے تھے ۔ حالانکہ اگر وہ بھی چاہتے تو اس عالم گیر مسئلے پر ہماری طرح محض چند احتجاج کرکے حالات سے سمجھوتہ کرسکتے اور خاموشی اختیار کرسکتے تھے مگر انہوں نے دنیا کے گمان میں مبتلا رہنے کی بجائے آخرت کی فکر کی اور نبی کی حرمت اور عزت و ناموس پر قربان ہونے کو ترجیح دی ۔ اللہ تعالیٰ کی عبودیت ، دین اور اسلام کی عظمت اور نبی کی حرمت پر اپنے مال و منال اور اپنی جان کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا ۔ اور اس طرح شہیدان ناموس رسالت کی کہکشاں میں ایک اور نئے تابندہ ستارے کا اضافہ ہوگیا ۔
آج ہم میں سے کتنے ہیں جو غازی عامر چیمہ شہید کو یاد رکھے ہوئے ہیں ۔ عامر چیمہ کو ہمارے ہاں بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اپنے حقیقی ہیروز کی بے قدری کی جاتی ہے اور کچھ عرصہ انہیں یاد رکھنے کے بعد بھلا دیا جاتا ہے ۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو روز اول ہی سے محسن کش ثابت ہوئے ہیں ۔ جن افراد نے ہمارے لئے .... ہماری بقا کے لئے قربانیاں دیں ، انہیں ہم کچھ ہی عرصہ یاد رکھنے کے بعد بھلا دیتے ہیں ۔
غازی عامر چیمہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔ دو سال قبل جب انہوں نے ڈنمارک کے اخبارات میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے اخبار کے ایڈیٹر کو قتل کرنے کی کوشش کی تو وہاں کی پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا اور تشدد کرکے شہید کرڈالا۔ اس وقت پاکستانی عوام نے اس مرد مجاہد کے ساتھ بے حد لگاﺅ اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا اور غازی علم الدین ثانی کا لقب دیا ۔ عامر چیمہ کے والدین کے ساتھ بہت انسیت کا مظاہرہ کیا گیا ۔ دور دور سے عامر چیمہ کے خوش قسمت والدین کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگوں نے سفر کیا اور ان کے ہاتھوں اور منہ کو عقیدت کے ساتھ چوم کر اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کیا ۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا لوگ عامر چیمہ کے بھولتے گئے اور آج عامر چیمہ کی شہادت کو صرف دو سال کا عرصہ ہی بیتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عامر چیمہ نے کتنا عظیم کارنامہ سرانجام دے کر پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کیا ۔ ایک دفعہ میں نے ایک دوست پروفیسر سے کہا کہ ان کے ادارے کی لائبریری میں عامر چیمہ کے حوالے سے کتب کا بھی اضافہ ہونا چاہئے تو پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے ....؟؟؟ پھر مجھے انہیں یاد دلانا پڑا کہ عامر چیمہ کون تھا ۔ اسی طرح ایک مرتبہ عامر چیمہ شہید کی سوانح حیات پر ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ ایک دوست نے استفسار کیا کونسی کتاب پڑھ رہے ہو ۔ میں نے جواب دیا عامر چیمہ شہید کے حالات زندگی کے متعلق کتاب ہے تو حیرانی کے ساتھ پوچھنے لگا وہ کون ہے .... ؟؟؟ کیا روشن خیالی کی یلغار سے ہماری آنکھیں اس قدر چندھیا گئی ہیں کہ قوم اپنے شہید بیٹوں کی قدر کرنا بھول جائے ؟ یا ہم دنیا داری میں اتنے مگن ہوگئے ہیں کہ اپنے اصلی ہیروز کو بھول جائیں ؟ میں یہ سمجھتا ہوں کی میڈیا کو اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ دور میں میڈیا نے پوری دنیا میں ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ یہ تعلیم کا ایک ذریعہ بن گیا ہے ۔ ہمارے طالبعلم جو بات کتابوں میں نہیں پاتے وہ میڈیا انہیں ذہن نشین کرا دیتا ہے ۔ ہر اہم ایشو اور ہر دن کی اہمیت میڈیا بھرپور طریقے سے باور کراتا ہے ۔ ویلنٹائن ڈے ، بسنت ، یوم مئی اور اہم دن خصوصی پروگرامات کا انعقاد کرکے نئی نسلوں کی ذہنی آبیاری کی جاتی ہے لیکن نجانے کیوں شہیدان ناموس رسالت کے حوالے سے میڈیا نے اپنا فرض ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کیا ۔ ہماری نئی نسلوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ غازی علم الدین شہید کون تھا ، ہمارے میڈیا کو بھی غازی علم الدین اور عامر چیمہ کا یوم شہادت یاد نہیں حالانکہ میڈیا کے ذریعے ان شہداءکا تذکرہ عام کرکے قوم کے نوجوانوں کو اپنے ہیرو کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے کہ یہ وہ مبارک ذاتیں ہیں صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہداءکے اس مشکبو قافلے کے رکن بن گئے جو حرمت رسول کے تحفظ کی خاطر متاع جگر لٹا کر سرخرو ہوئے ۔
عامر چیمہ شہید غازی علم الدین کے جانشین اور سچے عاشق رسول تھے ۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی میں مقیم تھے اور ایک روشن اور سہانا مستقبل ان کا منتظر تھا ۔ لیکن انہوں نے اپنی زندگی اور تمام خواب سمیٹ کر حضور کے قدموں میں نچھاور کردیئے ۔ غازی علم الدین کی طرح عامر چیمہ شہید بھی ہمارے ہیرو ہیں اور ان کی زندگی ایک روشن ستارہ بن کر چمکی جو محبان رسول کو راہ دکھا گئی ۔ عامر چیمہ تو وہ نوجوان تھا کہ جب جہالت اور تعصب کے گھپ اندھیروں نے روشنی کے میناروں پر جست لگائی .... جب ناپاک ذہنوں نے اپنی خباثت کا اظہار نبی کے متعلق گستاخانہ خاکے شائع کرکے کیا .... جب امت مسلمہ کا ہرفرد تڑپ اٹھا تھا .... جب محمد کی محبت سے سرشار ہر فرد کے دل پر قیامت بیت گئی .... جب مسلم حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا .... جب دو ارب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے بھی گستاخان رسول اس روئے زمین پر بڑے فخر سے چل رہے تھے .... ان حالات کے گھپ اندھیروں میں یہ شیر دل نوجوان بجلی بن کر کوندا .... غیرت ایمانی کی ایک ہی کڑک اور تکبیر کے نعرے کی ایک ہی گونج نے گستاخوں کے دل دہلا دیئے اور پوری امت مسلمہ کا فرض ادا کرتے ہوئے تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نوجوان نے گستاخ رسول کو مزہ چکھا دیا ۔ مگر عامر چیمہ سیکورٹی اداروں کے شکنجے میں آگئے جنہوں نے تشدد کرکے انہیں شہید کرڈالا اور یوں شہیدان ناموس رسالت کی کہکشاں میں ایک اور نئے تابندہ ستارے کا اضافہ ہوا ۔ ایک ایسا ستارہ جس کی ضیاءپاشیوں نے بہت سے دلوں میں حب رسول کی دبی چنگاری کو شعلہ بنا دیا ۔یوں یورپ سے اٹھنے والے توہین رسالت کے طوفان کے آگے اس نوجوان نے تن تنہا بند باندھا اور جان پر کھیل گیا ۔
مقام افسوس ہے کہ آج ہمارے نصاب کی کسی بھی کتاب میں یہ بات درج نہیں ہے کہ شہدائے ناموس رسالت ہمارے لئے حب رسول کا معیار اور روشنی کے مینار ہیں کہ جن سے پھوٹنے والی حب رسول کی کرنیں آج بھی بہت سے دلوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف لارہی ہیں ۔ یہ ہمارے دلوں میں بستے اور یادوں میں مہکتے ہیں ۔ انکا حرمت رسول پر جان دینے کا جذبہ ہر سچے مسلمان کے خون میں زندگی کی حرارت بن کر گردش کرنا چاہئے ۔ آج کے طالبعلم کو یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کروائے جانے کی ضرورت ہے کہ ناموس رسالت کا مشن دو ارب مسلمانوں کا مشن ہے اور حرمت رسول کے دفاع کے لئے اب یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کی نظروں میں حرمت رسول کی حفاظت سے بڑھ کر اور کسی چیز اہمیت نہیں ہونی چاہئے ۔ نیز ان شہادتوں سے حب نبی کے تحفظ کے لئے بہنے والے لہو کی آبیاری سے حرمت رسول کی خاطر کٹنے والے سروں کی ایک فصل تاریخ اسلامی میں لہلہا اٹھی اور آج ہمیں تاریخ کا ہر موڑ انہی شہیدان وفا کے لہو سے معطر محسوس ہوتا ہے ۔ اور مادہ پرستی کے اس دور میں بھی انہی شہیدوں کے جانشین غازی علم الدین کی شکل میں تو کبھی غازی عبدالقیوم اور عامر چیمہ شہید کے روپ میں ابوجہل کے بدبخت پیروکاروں کے لئے موت کا پیغام ہیں ۔
آج تاریخ کے یہ جھروکے نصاب تعلیم کی بجائے صرف تاریخ کی کتب تک محدود ہیں کہ حب رسول کا شعلہ ہردور میں ہر مسلمان کے سینے میں فروزاں رہا ہے ۔ حضرت معاذ اور معوذؓ سے حضرت زیاد بن سکن تک .... حضرت خبیبؓ سے حضرت حبیب بن زید انصاری تک .... حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے صلاح الدین ایوبی تک .... اور غازی علم الدین شہیدؓ سے غازی عامر عبدالرحمان چیمہ تک .... فدائیان ناموس رسالت کی ایک ایسی تابندہ کہکشاں ہے جس پر آسمان کی رفعتیں بھی ناز کرتی ہیں ۔ تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ ہر دور میں یہ ستارے امت کے قلب کو منور کرنے کا ذریعہ بنتے رہے ہیں ۔ غرض کہ فدائیان ناموس رسالت کا ایک گلشن ہے جس کا ہر پھول رنگ و خوشبو میں اپنی مثال آپ ہے ۔ آج مغربی تہذیب کی چکاچوند اور ”روشن خیالی“ کے جلووں نے جہاں مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی پاکیزہ اور باحیاءتہذیب سے بہت دور کردیا ہے وہاں عامر چیمہ جیسے نوجوان نے جان کی قربانی دے کر ثابت کردیا ہے کہ روشن خیالی اور مادیت پرستی کی چکاچوند لہروں میں آج بھی مسلم نوجوان تحفظ حرمت رسول کے لئے بیدار ہیں ۔ مسلمانوں کی ایسی ہی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج کئی مغربی ممالک میں ماہرین نفسیات اس موضوع پر تحقیق کررہے ہیں کہ آخر اسم محمد میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ کوئی بھی مسلمان خواہ کتنا ہی روشن خیال اور اعتدال پسند کیوں نہ ہو شان محمد میں ذرہ بھر گستاخی برداشت نہیں کرسکتا حتیٰ کہ اپنا تابناک مستقبل ، شاندار کیرئیر اور یہاں تک کہ اپنی جان بھی داﺅ پر لگا دیتا ہے ۔
عامر چیمہ کر یوم شہادت کے حوالے تاریخوں میں اختلاف ہے ۔ عام طبقے کے مطابق ان کا یوم شہادت 4 مئی کو تھا جب انہیں جرمنی کی جیل میں شہید کیا گیا جبکہ ان کے والدین کے مطابق ان کا یوم شہادت 13مئی ہے جس روز انہیں سپرد خاک کیا گیا ۔ بہر حال یوم شہادت کوئی بھی ہو یہ مہینہ عامر چیمہ کا ہے ۔ اس مہینے حکومت کو بھی چاہئے اور وہ تنظیمیں جن کے ساتھ عامر چیمہ منسلک رہے ہیں ان کا تو یہ فرض بنتا ہے کہ عامر چیمہ کی یاد میں تعزیتی سیمینارز کا انعقاد کریں ، اور غازی علم الدین کی طرح عامر چیمہ کی قربانی کو بھی زبان زد عام کرنے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اخبارات میں مضامین ، فیچرز ، اور دیگر مختلف ذرائع سے ان کا کردار آج کے نوجوان کے دلوں میں اتارنے کے لئے خصوصی طرز عمل اختیار کریں ۔
پس آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے نوجوانوں کو عامر چیمہ شہید کی عظیم قربانی سے آگاہ کیا جائے اور غازی علم ادلین شہید اور عامر چیمہ شہید سمیت تمام شہیدان ناموس رسالت کے تذکرے تاریخ اور نصابی کتب میں شامل کئے جائیں تاکہ ان کا پیغام معاشرے کے ہر فرد تک پہنچ سکے اور ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے ہر فرد اپنی اپنی سطح پر فرائض انجام دے ۔
ہم حکومت وقت سے بھی بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ عامر چیمہ کے لئے اعلیٰ ترین سول و ملٹری اعزازات کا اعلان کرے کہ یہ ان کا حق ہے ۔ اس کے علاوہ مسلم ممالک متحد ہوکر اقوام متحدہ پر موثر انداز میں دباﺅ ڈال کر توہین انبیا کے انسداد کے لئے قانون سازی کروائیں اور اس سلسلے میں خود بھی ضروی اقدامات کریں ۔ یہی وقت کا تقاضا ہے ۔
http://www.thrpk.org/data1/articles/amircheema1.htm
آج ہم میں سے کتنے ہیں جو غازی عامر چیمہ شہید کو یاد رکھے ہوئے ہیں ۔ عامر چیمہ کو ہمارے ہاں بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اپنے حقیقی ہیروز کی بے قدری کی جاتی ہے اور کچھ عرصہ انہیں یاد رکھنے کے بعد بھلا دیا جاتا ہے ۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو روز اول ہی سے محسن کش ثابت ہوئے ہیں ۔ جن افراد نے ہمارے لئے .... ہماری بقا کے لئے قربانیاں دیں ، انہیں ہم کچھ ہی عرصہ یاد رکھنے کے بعد بھلا دیتے ہیں ۔
غازی عامر چیمہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔ دو سال قبل جب انہوں نے ڈنمارک کے اخبارات میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے اخبار کے ایڈیٹر کو قتل کرنے کی کوشش کی تو وہاں کی پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا اور تشدد کرکے شہید کرڈالا۔ اس وقت پاکستانی عوام نے اس مرد مجاہد کے ساتھ بے حد لگاﺅ اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا اور غازی علم الدین ثانی کا لقب دیا ۔ عامر چیمہ کے والدین کے ساتھ بہت انسیت کا مظاہرہ کیا گیا ۔ دور دور سے عامر چیمہ کے خوش قسمت والدین کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگوں نے سفر کیا اور ان کے ہاتھوں اور منہ کو عقیدت کے ساتھ چوم کر اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کیا ۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا لوگ عامر چیمہ کے بھولتے گئے اور آج عامر چیمہ کی شہادت کو صرف دو سال کا عرصہ ہی بیتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عامر چیمہ نے کتنا عظیم کارنامہ سرانجام دے کر پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کیا ۔ ایک دفعہ میں نے ایک دوست پروفیسر سے کہا کہ ان کے ادارے کی لائبریری میں عامر چیمہ کے حوالے سے کتب کا بھی اضافہ ہونا چاہئے تو پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے ....؟؟؟ پھر مجھے انہیں یاد دلانا پڑا کہ عامر چیمہ کون تھا ۔ اسی طرح ایک مرتبہ عامر چیمہ شہید کی سوانح حیات پر ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ ایک دوست نے استفسار کیا کونسی کتاب پڑھ رہے ہو ۔ میں نے جواب دیا عامر چیمہ شہید کے حالات زندگی کے متعلق کتاب ہے تو حیرانی کے ساتھ پوچھنے لگا وہ کون ہے .... ؟؟؟ کیا روشن خیالی کی یلغار سے ہماری آنکھیں اس قدر چندھیا گئی ہیں کہ قوم اپنے شہید بیٹوں کی قدر کرنا بھول جائے ؟ یا ہم دنیا داری میں اتنے مگن ہوگئے ہیں کہ اپنے اصلی ہیروز کو بھول جائیں ؟ میں یہ سمجھتا ہوں کی میڈیا کو اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ دور میں میڈیا نے پوری دنیا میں ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ یہ تعلیم کا ایک ذریعہ بن گیا ہے ۔ ہمارے طالبعلم جو بات کتابوں میں نہیں پاتے وہ میڈیا انہیں ذہن نشین کرا دیتا ہے ۔ ہر اہم ایشو اور ہر دن کی اہمیت میڈیا بھرپور طریقے سے باور کراتا ہے ۔ ویلنٹائن ڈے ، بسنت ، یوم مئی اور اہم دن خصوصی پروگرامات کا انعقاد کرکے نئی نسلوں کی ذہنی آبیاری کی جاتی ہے لیکن نجانے کیوں شہیدان ناموس رسالت کے حوالے سے میڈیا نے اپنا فرض ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کیا ۔ ہماری نئی نسلوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ غازی علم الدین شہید کون تھا ، ہمارے میڈیا کو بھی غازی علم الدین اور عامر چیمہ کا یوم شہادت یاد نہیں حالانکہ میڈیا کے ذریعے ان شہداءکا تذکرہ عام کرکے قوم کے نوجوانوں کو اپنے ہیرو کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے کہ یہ وہ مبارک ذاتیں ہیں صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہداءکے اس مشکبو قافلے کے رکن بن گئے جو حرمت رسول کے تحفظ کی خاطر متاع جگر لٹا کر سرخرو ہوئے ۔
عامر چیمہ شہید غازی علم الدین کے جانشین اور سچے عاشق رسول تھے ۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی میں مقیم تھے اور ایک روشن اور سہانا مستقبل ان کا منتظر تھا ۔ لیکن انہوں نے اپنی زندگی اور تمام خواب سمیٹ کر حضور کے قدموں میں نچھاور کردیئے ۔ غازی علم الدین کی طرح عامر چیمہ شہید بھی ہمارے ہیرو ہیں اور ان کی زندگی ایک روشن ستارہ بن کر چمکی جو محبان رسول کو راہ دکھا گئی ۔ عامر چیمہ تو وہ نوجوان تھا کہ جب جہالت اور تعصب کے گھپ اندھیروں نے روشنی کے میناروں پر جست لگائی .... جب ناپاک ذہنوں نے اپنی خباثت کا اظہار نبی کے متعلق گستاخانہ خاکے شائع کرکے کیا .... جب امت مسلمہ کا ہرفرد تڑپ اٹھا تھا .... جب محمد کی محبت سے سرشار ہر فرد کے دل پر قیامت بیت گئی .... جب مسلم حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا .... جب دو ارب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے بھی گستاخان رسول اس روئے زمین پر بڑے فخر سے چل رہے تھے .... ان حالات کے گھپ اندھیروں میں یہ شیر دل نوجوان بجلی بن کر کوندا .... غیرت ایمانی کی ایک ہی کڑک اور تکبیر کے نعرے کی ایک ہی گونج نے گستاخوں کے دل دہلا دیئے اور پوری امت مسلمہ کا فرض ادا کرتے ہوئے تمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نوجوان نے گستاخ رسول کو مزہ چکھا دیا ۔ مگر عامر چیمہ سیکورٹی اداروں کے شکنجے میں آگئے جنہوں نے تشدد کرکے انہیں شہید کرڈالا اور یوں شہیدان ناموس رسالت کی کہکشاں میں ایک اور نئے تابندہ ستارے کا اضافہ ہوا ۔ ایک ایسا ستارہ جس کی ضیاءپاشیوں نے بہت سے دلوں میں حب رسول کی دبی چنگاری کو شعلہ بنا دیا ۔یوں یورپ سے اٹھنے والے توہین رسالت کے طوفان کے آگے اس نوجوان نے تن تنہا بند باندھا اور جان پر کھیل گیا ۔
مقام افسوس ہے کہ آج ہمارے نصاب کی کسی بھی کتاب میں یہ بات درج نہیں ہے کہ شہدائے ناموس رسالت ہمارے لئے حب رسول کا معیار اور روشنی کے مینار ہیں کہ جن سے پھوٹنے والی حب رسول کی کرنیں آج بھی بہت سے دلوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف لارہی ہیں ۔ یہ ہمارے دلوں میں بستے اور یادوں میں مہکتے ہیں ۔ انکا حرمت رسول پر جان دینے کا جذبہ ہر سچے مسلمان کے خون میں زندگی کی حرارت بن کر گردش کرنا چاہئے ۔ آج کے طالبعلم کو یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کروائے جانے کی ضرورت ہے کہ ناموس رسالت کا مشن دو ارب مسلمانوں کا مشن ہے اور حرمت رسول کے دفاع کے لئے اب یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کی نظروں میں حرمت رسول کی حفاظت سے بڑھ کر اور کسی چیز اہمیت نہیں ہونی چاہئے ۔ نیز ان شہادتوں سے حب نبی کے تحفظ کے لئے بہنے والے لہو کی آبیاری سے حرمت رسول کی خاطر کٹنے والے سروں کی ایک فصل تاریخ اسلامی میں لہلہا اٹھی اور آج ہمیں تاریخ کا ہر موڑ انہی شہیدان وفا کے لہو سے معطر محسوس ہوتا ہے ۔ اور مادہ پرستی کے اس دور میں بھی انہی شہیدوں کے جانشین غازی علم الدین کی شکل میں تو کبھی غازی عبدالقیوم اور عامر چیمہ شہید کے روپ میں ابوجہل کے بدبخت پیروکاروں کے لئے موت کا پیغام ہیں ۔
آج تاریخ کے یہ جھروکے نصاب تعلیم کی بجائے صرف تاریخ کی کتب تک محدود ہیں کہ حب رسول کا شعلہ ہردور میں ہر مسلمان کے سینے میں فروزاں رہا ہے ۔ حضرت معاذ اور معوذؓ سے حضرت زیاد بن سکن تک .... حضرت خبیبؓ سے حضرت حبیب بن زید انصاری تک .... حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے صلاح الدین ایوبی تک .... اور غازی علم الدین شہیدؓ سے غازی عامر عبدالرحمان چیمہ تک .... فدائیان ناموس رسالت کی ایک ایسی تابندہ کہکشاں ہے جس پر آسمان کی رفعتیں بھی ناز کرتی ہیں ۔ تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ ہر دور میں یہ ستارے امت کے قلب کو منور کرنے کا ذریعہ بنتے رہے ہیں ۔ غرض کہ فدائیان ناموس رسالت کا ایک گلشن ہے جس کا ہر پھول رنگ و خوشبو میں اپنی مثال آپ ہے ۔ آج مغربی تہذیب کی چکاچوند اور ”روشن خیالی“ کے جلووں نے جہاں مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی پاکیزہ اور باحیاءتہذیب سے بہت دور کردیا ہے وہاں عامر چیمہ جیسے نوجوان نے جان کی قربانی دے کر ثابت کردیا ہے کہ روشن خیالی اور مادیت پرستی کی چکاچوند لہروں میں آج بھی مسلم نوجوان تحفظ حرمت رسول کے لئے بیدار ہیں ۔ مسلمانوں کی ایسی ہی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج کئی مغربی ممالک میں ماہرین نفسیات اس موضوع پر تحقیق کررہے ہیں کہ آخر اسم محمد میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ کوئی بھی مسلمان خواہ کتنا ہی روشن خیال اور اعتدال پسند کیوں نہ ہو شان محمد میں ذرہ بھر گستاخی برداشت نہیں کرسکتا حتیٰ کہ اپنا تابناک مستقبل ، شاندار کیرئیر اور یہاں تک کہ اپنی جان بھی داﺅ پر لگا دیتا ہے ۔
عامر چیمہ کر یوم شہادت کے حوالے تاریخوں میں اختلاف ہے ۔ عام طبقے کے مطابق ان کا یوم شہادت 4 مئی کو تھا جب انہیں جرمنی کی جیل میں شہید کیا گیا جبکہ ان کے والدین کے مطابق ان کا یوم شہادت 13مئی ہے جس روز انہیں سپرد خاک کیا گیا ۔ بہر حال یوم شہادت کوئی بھی ہو یہ مہینہ عامر چیمہ کا ہے ۔ اس مہینے حکومت کو بھی چاہئے اور وہ تنظیمیں جن کے ساتھ عامر چیمہ منسلک رہے ہیں ان کا تو یہ فرض بنتا ہے کہ عامر چیمہ کی یاد میں تعزیتی سیمینارز کا انعقاد کریں ، اور غازی علم الدین کی طرح عامر چیمہ کی قربانی کو بھی زبان زد عام کرنے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اخبارات میں مضامین ، فیچرز ، اور دیگر مختلف ذرائع سے ان کا کردار آج کے نوجوان کے دلوں میں اتارنے کے لئے خصوصی طرز عمل اختیار کریں ۔
پس آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے نوجوانوں کو عامر چیمہ شہید کی عظیم قربانی سے آگاہ کیا جائے اور غازی علم ادلین شہید اور عامر چیمہ شہید سمیت تمام شہیدان ناموس رسالت کے تذکرے تاریخ اور نصابی کتب میں شامل کئے جائیں تاکہ ان کا پیغام معاشرے کے ہر فرد تک پہنچ سکے اور ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے ہر فرد اپنی اپنی سطح پر فرائض انجام دے ۔
ہم حکومت وقت سے بھی بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ عامر چیمہ کے لئے اعلیٰ ترین سول و ملٹری اعزازات کا اعلان کرے کہ یہ ان کا حق ہے ۔ اس کے علاوہ مسلم ممالک متحد ہوکر اقوام متحدہ پر موثر انداز میں دباﺅ ڈال کر توہین انبیا کے انسداد کے لئے قانون سازی کروائیں اور اس سلسلے میں خود بھی ضروی اقدامات کریں ۔ یہی وقت کا تقاضا ہے ۔
http://www.thrpk.org/data1/articles/amircheema1.htm