ندیم جاویدعثمانی
محفلین
مُجھے مُردہ خانے کے اس تختہ نُما فرش پر پڑے ہوئے پورےبارہ گھنٹے ہوُچکے تھے اور اس دوران اس کمرے میں ہسپتال کا عملہ نجانے کتنی بار آتا اور جاتا رہا مگر اب تک کوئی بھی ایسا خُدا کا بندہ نہیں آیا تھا جس کو مُجھ پر میری حالت پر کوئی رحم آتا۔۔۔۔۔۔۔۔ رحم سے میری مُراد یہ قطعی نہیں کے وہ بس میری ہی فکر شروع کردیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گو میرا جسم زخموں سے چورنہیں تھا اور نہ ہی میرے ہاتھ پیرٹوٹے ہوئے تھے۔۔۔۔ مگر اُنھیں کم از کم اتنا تو سوچنا چاہئیے تھا کہ اس شخص کو مرے ہوئے تیرہ گھنٹے کا وقت گُذر چُکا ہے۔۔۔ جہاں مُجھے مارا گیا تھا وہاں میرا بے جان جسم پورے ایک گھنٹے پڑا رہا تھا اور اب بارہ گھنٹے مُجھے ہسپتال کے مردہ خانے پڑے ہوئے ہوگئے تھے! دوسری لاشوں کے ساتھ نجانے کیا صورتِ حال ہوتی ہوگی مگر شاید یہاں پڑی ہوئی لاشوں میں وہ واحد لاش تھا جس کے مردہ جسم کے ہمراہ کل سے اُس کی روح کو بھی ساتھ ساتھ پھرنا پڑرہا تھا۔۔۔۔ میرا جسم ایک طرف پڑا ہوا تھا اور میری روح ایک جانب بیٹھی ہوئی دوسری لاشوں کا بغور جائزہ لینے میں مصروف تھی!
اور اب میری روح ان لاشوں کے درمیان بیٹھی ہوئی کل سے اپنے ہونے والے سارے واقعات کو سوچ رہی تھی جو کسی فلم کی مانند میری آنکھوں کے سامنے ناچ رہے تھے!
کل شام کو جو میں نے گہرے رنک گی سُرمئی قمیض پہنی تھی اُس کومیرے جسم سے بہہ کر خُشک ہونے والے خون نے اب سیاہ بنا دیا تھا!
ابھی رہا تھا کہ مُردہ خانے کا دروازہ کُھلا اور ہسپتال کے دومُلازم اسٹریچر پرایک اور مُردہ شخص کو لے آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ دونوں میرے قریب کھڑے اس شخص کےمرُدہ جسم کو رکھنے کے لئیے جگہ دیکھ رہے تھے تبھی اُن میں سے ایک شخص بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابے رحمت یہاں تو پہلے سے ہی یہ گیارہ لوگ پڑے ہیں اب اس کو کہاں ڈالوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمت کو شاید اُس مُردہ شخص کے جسم کو کہیں رکھنے سے زیادہ اپنی سگریٹ سُلگانے کی فکر تھی تبھی اُس نے اُس شخص کے پوچھے جانے والے سوال کے بدلے میں سوال کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار تیری جیب میں ماچس پڑی ہے؟ جواب میں دوسرے نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار تُجھے بھی بس موقع ملتے ہی اس بتی کو سُلگانے کی فکر لگ جاتی ہے۔۔۔۔ دوسرے نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ ہاں نہ یار وہاں وارڈ میں تو ڈاکٹروں کی وجہ سے موقع نہیں مل پاتا سالوں کو فوراَ سگریٹ کے دھویں کی بدبو آنے لگتی ہے یہاں تو سبھی مُردے پڑے ہیں انھیں سگریٹ کی خوشبو بدبو سے کیا کام؟ اُس کی اس بات پر دوسرے نےشاید اپنی جیب سے ماچس نکال لی تھی تبھی وہ بولا۔۔۔ لے پکڑ اور اب جلدی سے سگریٹ پی کر اس کے لئیے کہیں جگہ بنا ایک تو سالے یہاں کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ روز ہی دسیوں لاوارث لاشیں آجاتی ہیں اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ہمیں اپنے چلنے کے لئیے بھی یہاں جگہ نہیں ملے گی۔۔۔۔ جبکہ دوسرے شخص اپنی سگریٹ جلا کر ہر چیز سے یوں لاتعلق ہو گیا تھا جیسے یہ بات کسی اورسے کہی جارہی ہو۔۔۔۔۔۔ اپنی سگریٹ ختم کرنے کے بعد وہ بولا ہاں چل اب اس کے لئیے بھی جگہ بنادیتے ہیں۔۔۔۔ میں تو دُعاکررہا ہوں کُچھ لاشوں کے والی وارث ہی آجائیں اور ان لاشوں کو لے جائیں تو نئی آنے والی لاشوں کے لئیے کُچھ تو جگہ بنے!
اُس کے بعد جو بچارے مُردے پہلے ہی ایک دوسرے سے جڑے پڑے ہوئے تھے اُنھوں نے اُن کو اور بھی مزید قریب کردیا اور بلاخر وہ اس نئی لاش کے لئیے جگہ بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔۔۔۔ اور اُن کے یوں لاشوں کے ادھر اُدھر کرنے سے میں پریشان ہورہا تھا میں کبھی ادھر ہوتا کبی اُدھر اچانک مُجھے خیال آیا کہ میرا جسم تو وہاں بے جان پڑا ہے اور میری روح سے ان کو کیا پریشانی ہونے والی ہے بس اس خیال سے آتے ہی میں واپس اُسی جگہ پر بیٹھ گیا جو میں نے صبح سے اپنے بیٹھنے کے لئیے مُنتخب کی ہوئی تھی!
تھوڑی دیر بعد ہی وہ اپنے کپڑوں اور ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے بولے چل یار اس کا بندوبست ہوا اب وارڈ چلتے ہیں ایسا نہ کوئی اور لاش آگئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر اُن میں سے اک شخص نے اک موٹی سی گالی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ ابے کبھی تو کُچھ اچھا بول تو یہاں کی حالت دیکھ رہا ہے نہ اگر رات تک ان میں سے یہاں کوئی نہیں گیا توکسی نئی لاش کو تو اپنی ماں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن دونوں کے آجانے کی وجہ سے میری سوچوں کا جو سلسلہ ٹوٹ گیا تھا وہ وہیں سے دوبارہ جُڑگیا مگر اب رہ رہ کر میرے کانوں میں ابھی یہاں سے جانے والے شخص کی وہ بات گونج رہی تھی کہ کسی لاش کا کوئی ولی وارث آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب مُجھے اپنے گھر والوں کا خیال آنے لگا میرے گھر میں اماں اور چھوٹی بہن کے سوا کون تھا اورکراچی سے دور خیر پور میں بیٹھی ہوئی میری ماں اور بہن کو پتا ہی نہیں ہوگا کہ یہاں مُجھ پر کیا قیامت ہی گُذر گئی!
ہم دو بہن بھائی تھےابا کا انتقال ہوچُکا تھا۔۔۔ اماں نے بہت محنت مشقت کرکے ہم دونوں بہن بھائیوں کو پالا تھا۔۔۔۔۔۔ اماں کا بس ایک ہی خواب تھا کہ میٹرک کرنے کے بعد میں فوج میں چلا جاؤں جبکہ میری خواہش تھی کہ جلد سے جلد میٹرک کرکے کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرلوں اماں کی بوڑھے ہاتھوں کو یوں لوگوں کے کپڑے سیتے ہوئے دیکھکر کبھی کبھی میرا دل چرنے لگتا تھا مگروہ ضد کرتی تھی کہ وہ مُجھے فوج میں ہی بھیجھے گی مُجھے پتا تھا کہ اگر میں فوج میں جاتا ہوں تو ہمارے گھرمیں خوشحالی تو شاید آجائے مگر یہ اچھا وقت آنے میں بُہت وقت لے لے گا اسی لئیے کبھی کبھی تو میں چڑ کر اُن سے بولتا اماں آخر فوج میں ایسا کیا رکھا ہے جو تو اسی بات کو پکڑ کر بیٹھ گئی ہےتووہ مُسکراتے ہوئے بولتیں پگلے وطن کا محافظ ہونا کیا بڑی بات ہے اور اس میں تو جان دینے والوں کو بھی شہادت کا درجہ ملتا ہے تو کبھی کبھی تو میں جھلا کر کہدیتا تھا ہاں جو یہاں کے حالات ہوگئے ہیں اُس میں تو ویسے ہی سڑکوں پر لوگ روز شہید ہوتے رہتےہیں فکر نہ کراگر ایسے ہی چلتا رہا تو فوج میں نہ بھی گیا تب بھی تیری یہ خواہش پوری ہوجائے گی!
تو وہ جلدی سے میرے مُنہ پر ہاتھ رکھ دیتی اور بس پھرگھنٹوں کے لئیے مُجھے سے ناراض ہوجاتی کہ کبھی بھی کُچھ بول دیتا ہے پتا نہیں کس لمحے کی گھڑی کیسی ہو اور میں بار بار ہاتھ جوڑ کر اُسے مناتا!
اور پھر آخر میں نے اپنا انٹر ہوتے ہی اماں کوپڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کرنے پر راضی کرہی لیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں جو یہ سمجھتا تھا کہ بس کراچی جاتے ہی مُجھے نوکری مل جائے گی یہ خیال اُس وقت غلط ثابت ہوا جب یہاں ایک آفس سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں مُجھے دھکے کھانے پڑے نجانے کتنی راتیں تو مُجھے پارکوں میں گُذارنا پڑی تھیں مگر پھر خُدا کو مُجھ پر رحم آہی گیا اور مُجھ ایک آفس میں نوکری مل گئی۔۔۔۔۔ نوکری ملتے ہی میں نے ایک ہاسٹل میں رہائش کرلی۔۔۔۔۔ اب میں نوکری بھی کرتا تھا اور پرایئوٹ پڑھ بھی رہا تھا جب میں کراچی سے اس کے ماحول سے اچھی طرح آشنا ہوگیا تو کُچھ عرصے بعد ہی میں نے جومیرے ساتھ آفس میں ہوتا تھا اُس کے توسط سے ایک ایسے کمرے میں رہائش اختیار کرلی تھی جہاں پہلے سے ہی مُختلیف جگہوں سے آئے ہوئے تین اور لڑکے رہ رہے تھے اب اُن میں اک میرا اضافہ ہوگیا تھا مگر اس کا مُجھے یہ فائدہ ہوا کیونکہ یہ کمرہ چار لڑکے استعمال کررہے تھے تو کمرے کا ماہانہ کرایہ ہم چاروں آپس میں برابر تقسیم کرلیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں ہاسٹل کی نسبت کُچھ رقم پس انداز ہونے لگی تھی۔۔ اپنے کمرے اور کھانے پینے کے علاوہ کی جو ساری رقم ہوتی تھی میں اماں کو منی آرڈر کردیتا تھا اور تھوڑے عرصے بعد خود بھی چکر لگا لیتا تھا۔
مُجھے کراچی میں رہتے ہوئے تین سال ہوچُکے تھے ان تین سالوں میں بہت تو نہیں مگر کُچھ لوگ میرے بہت اچھے دوست بن گئے تھے دفتر سے آنے کے بعد فارغ اوقات یا کسی چُھٹی والے دن میں اُن سے ملنے کے لئیے اُن کی طرف چلا جاتا تھا یا وہ یہاں میرے پاس آجاتے تھے۔۔۔ اب تو میں کراچی اور اس کے علاقوں سے اتنا واقف ہوگیا تھا جتنا واقف یہاں کا کوئی عام رہائشی ہوگا مُجھے اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ مُجھے کس وقت باہر نکلنا ہے کب نہیں نکلنا یہی رویہ میرا اُن علاقوں کے لئیے تھا جہاں عموماَ حالات خراب ہی رہتے تھے۔۔۔۔
اب تو کراچی کے حالات خراب ہونا اک معمول کی بات بن گئی تھی ان حالات نے اپنا اتنا عادی کردیا تھا کہ اگر کوئی دن بغیر کوئی خبر سُنے گُذرتا تھا تو یہ خبر عجیب لگنے لگتی تھی کہ آج کراچی میں کُچھ نہیں ہوا!
یہ کل ہی کی تو بات ہے میں اک زندہ شخص تھا اپنی چلتی ہوئی ہر سانس سے لُطف لینے والا شخص میرے گھر اور میری زندگی کے حالات بھی میرے دل کو مُردہ نہیں کرسکے تھے مُجھے اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ میرا کسی بات پر پریشان ہونا کسی پریشانی کو حل نہیں کرسکے گا اپنی تمام پریشانیوں کا حل مُجھے خود ہی نکالنا ہوگا اور یہ تبھی مُمکن تھا جب میں خود اپنی ذہنی حالت کو پُرسکون رکھتا۔۔
یہاں میں کُچھ بہت اچھے دوست بن گئے تھے مگر سلیم کی بات ہی اور تھی اور اُس سے اچھی دوستی کی وجہ ہم دونوں کی ذہنی ہم آہنگی تھی۔۔۔۔۔۔ کل جب مُجھے مارا گیا تو میں سلیم کی بہن کی منگنی کی رسم سے ہی واپس آرہا تھا وہ اورنگی ٹاؤن میں رہتا تھا اور حالات کی وجہ سے میرا اس تقریب میں شریک کو ہونے کو بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا مگر سلیم سے دوستی ایسی تھی کہ مُجھے مجبوراَ نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑا۔۔۔۔۔۔ رات دس بجے کے قریب میں منگنی کی رسم اور کھانے سے فارغ ہوچُکا تو میں نے اُس سے واپسی کی اجازت چاہی حالانکہ وہ بہت روک رہا تھا کہ گھر جا کر اب سونا ہی تو ہے یہیں رُک جا صُبح ساتھ ہی دفتر چلیں گے مگر میں اُس کے اصرار پر بھی نہیں رُکا اُس کے گھر میں بھرے ہوئے مہمانوں سے ہی مُجھے اُلجھن آرہی تھی اور پھر یہاں رات گذارنا میں بھی اُس سے زبردستی اجازت لے کر نکل آیا۔۔
سواگیارہ کے قریب میں اپنے اسٹاپ پر اُتر بھی گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی میں زیادہ دور چلا بھی نہیں ہونگا کہ پیچھے سے دو موٹرسائیکل سواروں نے آکر مُجھے روک لیا اور اب مُجھے اپنی کم بختی اپنے سر پر ناچتی ہوئی نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔ اُن میں سے ایک نے مُجھ پر پستول تان کر موبائل اوربٹوہ نکالنے کے لئیے کہا اور مُجھے پتا تھا میرا بحث کرنا یا ہاتھا پائی کرنا بے کار ہوگا لہذا اُن کے مانگنے پر میں نے دونوں چیزیں چُپ چاپ نکال کر اُن کے ہاتھ میں دے دیں۔۔۔۔۔ شاید اُن کو میرے اس رویے کی توقع نہیں رہی ہوگی وہ یقیناَ میری جانب سے کوئی مزاحمت کا سوچ رہے ہونگے مگر جب اُنھوں نے دیکھا کہ میں نے چُپ چاپ اُن کا مطالبہ پورا کیا ہے تو اُس شخص کی آنکھوں میں اک لمحے کو مُجھے ایک عجب سی اُلجھن دکھائی دی جو میری طرف موٹرسائیکل سے اُتر کر آیا تھا۔۔۔۔۔۔ چند لمحے بعد ہی وہ دونوں واپس اپنی اسکوٹر پر بیٹھے اور واپسی کے لئیے اپنی موٹرسائیکل موڑ لی۔۔۔۔۔ میں ابھی تک پریشانی میں وہیں کھڑا تھا۔۔۔۔۔ جاتے ہوئے نجانے اُنھوں کیا سوچا یا اُن کے ذہن میں کیا بات آئی کے اُس شخص نے جس نے ابھی مُجھ سے میرا موبائل اور بٹوہ لیا تھا پلٹ کر میری جانب فائر کردیا!
اور سینے میں لگنے والی گولی نے چند لمحوں میں میری ہراُس سانس کو ختم کردیا جن سے کبھی میں لمحہ لمحہ لُطف اُٹھاتا تھا۔۔۔۔ اُن کے جانے کے بعد حسب روائت کُچھ لوگ میرے مُردہ جسم کے پاس جمع ہونا شروع ہوگئے۔۔۔۔ اور میرے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی کہ میری جیب میں ایسا کُچھ نہیں تھا جس سے میری شناخت ہوسکتی یہانتک کے میرا شناختی کارڈ بھی اُسی بٹوے میں تھا جو وہ دونوں لڑکے لے گئے۔۔۔۔۔ اور بس میرے وجود کو ایک لاوارث لاش بنتے دیر نہیں لگی اور یوں اب میں یہاں اس مرُدہ خانے میں پڑا ہوا تھا۔
کراچی میرے لئیے بالکل پردیس ہی کی طرح تھا اور جس کمرے میں رہتا تھا میرے وہ دوست میری غیر موجودگی سے یہی سمجھ رہے ہونگے کہ میں سلیم کے پاس ہی رُک گیا ہوں اور پتا نہیں آج صبح وہ دفتر آیا بھی ہوگا یا کل رات کی تقریب کی وجہ سے اُس نے چُھٹی کرلی ہوگی اور جب تک اُنھیں میری غیر موجودگی کا احساس ہوگا یہاں میرے ساتھ نجانے کیا ہوجانا تھا!
میری سوچوں کا یہ تسلسل مردہ خانے کے دروازہ کُھلنے سے ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔ ایک ڈاکٹر وہ دونوں آدمی جو ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں ایک اور شخص کی لاش کو رکھ کر گئے تھے اُن کے ہمراہ دو اور آدمی داخل ہوئے جو ایسے رو رہے تھے اور اب مُجھے اُن پر یہ سوچ کر ترس آرہا تھا کہ یہ دونوں یقیناَ اپنے کسی پیارے کی لاش کو لے جانے کے لئیے آئے ہونگے!
ڈاکٹر نے اُن دونوں وارڈ بوائے میں ایک سے کہا تُم ان کو شناخت کروادو کہ ان لاشوں میں ان کا بھائی ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ دونوں جا کر ایک ایک لاش کو بڑے غور سے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔۔۔۔۔ اور میں بیٹھا دُعا مانگ رہا تھا کہ جس خیال کے تحت یہ یہاں آئے ہیں وہ غلط ثابت ہو اِن کا پیارا زندہ ہو!
چند لمحوں بعد وہ تمام لاشوں سے ہوتے ہوئے مُجھ تک پُہنچ گئے اور اب میری خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ مُجھے یہ یقین ہوچُلا تھا جس شخص کے لئیے یہ دونوں آدمی تمام مردوں کو دیکھتے پھر رہے ہیں وہ کم از کم یہاں تو نہیں ہوسکتا ہے وہ زندہ ہی ہو!
اچانک اُن میں سے ایک میرے پاس آیا اور چند لمحے مُجھے غور سے دیکھا اور اُس نے دوسرے شخص کو آواز لگائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور ادھر آ مصطفی مل گیا!
کون مصطفی کیسا مصطفی میرا نام تو احمد نواز تھا یقیناَ اس کو کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔۔۔۔ مگراس کی آواز لگانے پر وہ شخص جسے منظور پُکارا گیا تھا وہ میرے قریب آیا تو اُس نے میرے وجود سے لپٹ کر یوں دھاڑے مار مار کے رونا شروع کردیا کہ اگر میرا کوئی عزیز بھی میری لاش کی شناخت کو آتا وہ بھی یوں نہیں روتا!
اور اب میں ان دونوں کے متعلق سوچ رہا تھا کہ یا اللہ یہ کون لوگ ہیں؟ مگر یہ گُھتی اتنی جلدی سُلجھنے والی نہیں تھی مگر کم از کم مُجھے اس چیز کا اطمینان ضرور ہوگیا تھا چلو اب کم از کم میرا کفن دفن کا عمل ہوہی جائے گا اور مُجھے بھی دو گز زمیں مل جائے گی ویسے بھی میں بچپن سے سُنتا آرہا تھا کہ مردہ وجود کو زیادہ دیر تک نہیں روکنا چاہئیے اُس کی مٹی اور مُنکر نکیر اُس کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں!
تھوڑی دیر میں ہی ہسپتال کی خانہ پُری کے بعد میرا مُردہ وجود ایک ایمبولینس میں اُن کے ساتھ جا رہا تھا اور پھر ایک گھر آنے پر مُجھے اُتار لیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جس کمرے میں مُجھے لایا گیا وہ تھا تو کسی گھر کا ہی کمرہ جو بُری طرح سے سرد ہو رہا تھا اتنا سرد تو ہسپتال کا وہ سردخانہ بھی نہیں تھا جہاں میں اتنے گھنٹے گُذار آیا تھا اور دوسری حیرت انگیز چیز جو تھی وہ یہ کہ وہاں میرے علاوہ پہلے سے تین لاشیں رکھی ہوئیں تھیں مگر ان کی بھی حالت ہسپتال والی نہیں تھی اُن کو بڑی احتیاط سے رکھا گیا تھا جو سے سجاوٹ کے کوئی نادر نمونے ہوں!
اور تھوڑی دیر قبل تک ہسپتال میں جو شخص رورہے تھے اب ایسے خوش نظر آرہے تھے کہ کوئی قلعہ فتح کرکے آئے ہوں اور میں حیرت زدہ اس تمام صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں وہ دونوں مُجھے وہیں کمرے میں رکھ کر چلے گئے۔۔۔۔۔ اور اب مُجھے کیسے پتا چلے کہ یہ آخر مُجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟ اچانک مُجھے خیال آیا گو میرا جسم نہیں چل پھر سکتا مگر میری روح تو کہیں بھی آ جاسکتی ہے اس خیال کے آتے ہی میں بڑے آرام سے اُس کمرے سے نکلا جہاں مُجھے رکھا گیا تھا اور اُس کے برابر والے کمرے میں آگیا جہاں دو نہیں تین لوگ بیٹھے تھے۔۔۔ میں وہیں اُن کے نذدیک کھڑا ہو کر اُن کی باتیں سُننے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن میں سے ایک بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا نہیں اسحاق بھائی کب تک آئیں گے میں نے ہسپتال جاتے ہوئے اُنھیں فون تو کردیا تھا اور بتابھی دیاتھا انشااللہ آج ہم کامیاب ہی لوٹیں گے مگر اُن کا ابھی تک پتا نہیں موبائل بھی بند آرہا ہے وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ ایک تیرہ چودہ سال کا بچہ کمرے میں تین اور آدمیوں کے ساتھ داخل ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کو دیکھ کر ہی وہ تینوں آدمی جو باتیں کررہے تھے ایکدم پرمسرت انداز میں کھڑے ہوگئے اورایک بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے اسحاق بھائی ابھی ہم بس آپ کی ہی بات کررہے تھے مااشاللہ بڑی لمبی عُمر ہے آپ کی وہ شخص اُس کی اس مُسرت کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے یار میری عُمر کو گولی مارو یہ بتاؤ کسی بندے کا بندوبست ہوا بھی یا نہیں دو دن سے تُم لوگوں نے مُجھے لارے لپوں میں رکھا ہوا ہے وہاں مُجھ پر پارٹی کی طرف سے دباؤ پڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا ہے کل بھی ہماری حریف پارٹی نے دعوی کیا ہے کہ ہماری پارٹی کے کارکنوں کی طرف سے اُن کا اک بندہ مارا گیا ہے حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری طرف سے ایسا کُچھ نہیں ہواپچھلے پندرہ دنوں میں یہ تیسری بار ہوا ہے کہ اُنھوں نے ہم پر یہ الزام لگایا ہے پتا نہیں سالے روز کہاں سے اتنی لاوارث لاشیں لے آتے ہیں!
اور تُم لوگ ہو کہ پچھلے ایک ہفتے کے اندر ایک لاش بھی نہیں دے سکے ہو کہ ہم بھی اُن پر کوئی الزام تراشی کرسکیں۔۔۔۔ اُن میں سے ایک مسمساتے ہوئے بولا اسحاق بھائی ہم تین لوگوں کی لاشیں آپ کو دکھاتو چُکے ہیں آپ کو کوئی سمجھ ہی نہیں آرہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شخص ذرا برہم ہوتے ہوئے بولا وہ لاشیں کہیں سے لگتی ہیں کہ کسی پارٹی کے کارکن ہوں؟ شکل سے چرسی موالی لگ رہے تھے اُن میں سے کسی کو لے جاکر یہ دعوی کیا کہ ہمارایہ کارکن مرا ہے تو دوسری پارٹی ہماری ساکھ کو مزید نقصان پُہنچانے کا موقع ہاتھ آجائے گا ابھی کُچھ ہے تو بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر ایک آدمی بولا ارے ہاں نا اسحاق بھائی آپ اندر جاکر تو دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اُس نے دوسرے شخص کو اشارہ کرتے ہوئے کہا منظور جا ذراصاحب کو لاش دکھا!!
اور پھر وہ شخص جس کو وہ سب لوگ اسحاق بھائی پُکاررہے تھے وہ اُس کمرے میں آگیا جہاں مُجھے رکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُجھے دیکھتے ہی اُس شخص کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اب کُچھ ڈھنگ کا لائے ہو نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں چلتا ہوں رات کو انتظام کرکے رکھنا میرے لڑکے اس کو آکر لے جائیں گے!
اور پھر رات کے اندھیرے میں ہی مُجھے اُس جگہ سے بھی مُنتقل کردیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے دن ہی اُس پارٹی کی جانب سے مُجھے مخالف پارٹی کے ہاتھوں مارے جانے کا دعوی بھی کردیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہیں مُجھے پتا چلا کہ میں تو پچھلے دس سالوں سے اس پارٹی کے ساتھ جُڑا ہوا تھا اور اس پارٹی کا سرگرم کارکن بھی تھا!
اور پھر سینکڑوں دیگر کارکنوں کی اشکبارآنکھوں کے ساتھ میری تدفین بالکل ایسے ہی ہوئی جیسے کسی سرگرم کارکن کو سُپردخاک ہونا چاہئیے تھا!
خود کو قبرمیں رکھے جانے پر میں نے شُکر ادا کیا کم از کم اب مُجھے یہ یقین ہوگیا تھا کہ مُجھے یہاں سے کہیں اور مُنتقل نہیں ہونا پڑے گا!
مگر اب میں اپنی قبر کے باہر کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ میرے وجود کو تو قبر میں اُتار دیا اب میں کہاں جاؤں؟
قبرستان کے ماحول سے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی تدفین نے مُجھے وحشت زدہ بنا کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں قبرستان کے احاطے سے باہر نکل آیا اور اب میرا رُخ اُسی جگہ کی طرف تھا جہاں کُچھ دیر پہلے میرا غُسل ہوا تھا مُجھے کفن میں لپیٹا گیا تھا!
میں وہاں پُہنچا تو وہاں میری ہی یاد میں وہ اسحاق بھائی کھڑے ایک مجمعے سے چینخ چینخ کر خطاب کررہے تھے اور میری شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے اُس پارٹی کو کوس رہے تھے جن کی وجہ سے اُن کا ایک سرگرم کارکن اُن سے جُدا ہوگیا!
آخر میں اپنی اس تقریر کا اختتام کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گو کہ اُن دہشت گردوں نے ہمارے مُصطفی کو ہم سے چھین لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری روح پھر چینخ کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے بھائی میرا نام مصطفی نہیں احمد نواز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ تھے کہ کُچھ سُننے پر ہی تیار نہیں تھے تھک ہار کر میں خود ہی چُپ ہوگیا اور خود بھی اُن کی اُس تقریر کو سُننے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھربولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس ہم نے اور ہماری پارٹی نے یہ طے کیا ہے جیسے مصطفی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابے پھر مصطفی تُم لوگوں کو سُنائی نہیں پڑتا میرا نام احمد نواز ہے!!
ہاں تو میں کہہ رہا تھا مصطفی نہ صرف ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا بلکہ اُس کی یاد میں ہم اپنے علاقے میں اُس کے نام پر ہم ایک چوک بھی بنائیں گے!
اور پھر تین دن بعد ہی اُس علاقے میں میرے نام پر ایک چوک بھی بن گئی " مصطفی شہید چوک" اور اب اس لمحے میں اس چوک پر کھڑا سوچ رہا تھا کاش آج میری اماں یہاں ہوتی تو وہ کتنا خوش ہوتی کہ اُس کے بیٹے کو فوج میں جائے بغیربھی شہادت کا رُتبہ مل گیا ہے!!
ندیم جاوید عُثمانی
اور اب میری روح ان لاشوں کے درمیان بیٹھی ہوئی کل سے اپنے ہونے والے سارے واقعات کو سوچ رہی تھی جو کسی فلم کی مانند میری آنکھوں کے سامنے ناچ رہے تھے!
کل شام کو جو میں نے گہرے رنک گی سُرمئی قمیض پہنی تھی اُس کومیرے جسم سے بہہ کر خُشک ہونے والے خون نے اب سیاہ بنا دیا تھا!
ابھی رہا تھا کہ مُردہ خانے کا دروازہ کُھلا اور ہسپتال کے دومُلازم اسٹریچر پرایک اور مُردہ شخص کو لے آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ دونوں میرے قریب کھڑے اس شخص کےمرُدہ جسم کو رکھنے کے لئیے جگہ دیکھ رہے تھے تبھی اُن میں سے ایک شخص بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابے رحمت یہاں تو پہلے سے ہی یہ گیارہ لوگ پڑے ہیں اب اس کو کہاں ڈالوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمت کو شاید اُس مُردہ شخص کے جسم کو کہیں رکھنے سے زیادہ اپنی سگریٹ سُلگانے کی فکر تھی تبھی اُس نے اُس شخص کے پوچھے جانے والے سوال کے بدلے میں سوال کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار تیری جیب میں ماچس پڑی ہے؟ جواب میں دوسرے نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار تُجھے بھی بس موقع ملتے ہی اس بتی کو سُلگانے کی فکر لگ جاتی ہے۔۔۔۔ دوسرے نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ ہاں نہ یار وہاں وارڈ میں تو ڈاکٹروں کی وجہ سے موقع نہیں مل پاتا سالوں کو فوراَ سگریٹ کے دھویں کی بدبو آنے لگتی ہے یہاں تو سبھی مُردے پڑے ہیں انھیں سگریٹ کی خوشبو بدبو سے کیا کام؟ اُس کی اس بات پر دوسرے نےشاید اپنی جیب سے ماچس نکال لی تھی تبھی وہ بولا۔۔۔ لے پکڑ اور اب جلدی سے سگریٹ پی کر اس کے لئیے کہیں جگہ بنا ایک تو سالے یہاں کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ روز ہی دسیوں لاوارث لاشیں آجاتی ہیں اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ہمیں اپنے چلنے کے لئیے بھی یہاں جگہ نہیں ملے گی۔۔۔۔ جبکہ دوسرے شخص اپنی سگریٹ جلا کر ہر چیز سے یوں لاتعلق ہو گیا تھا جیسے یہ بات کسی اورسے کہی جارہی ہو۔۔۔۔۔۔ اپنی سگریٹ ختم کرنے کے بعد وہ بولا ہاں چل اب اس کے لئیے بھی جگہ بنادیتے ہیں۔۔۔۔ میں تو دُعاکررہا ہوں کُچھ لاشوں کے والی وارث ہی آجائیں اور ان لاشوں کو لے جائیں تو نئی آنے والی لاشوں کے لئیے کُچھ تو جگہ بنے!
اُس کے بعد جو بچارے مُردے پہلے ہی ایک دوسرے سے جڑے پڑے ہوئے تھے اُنھوں نے اُن کو اور بھی مزید قریب کردیا اور بلاخر وہ اس نئی لاش کے لئیے جگہ بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔۔۔۔ اور اُن کے یوں لاشوں کے ادھر اُدھر کرنے سے میں پریشان ہورہا تھا میں کبھی ادھر ہوتا کبی اُدھر اچانک مُجھے خیال آیا کہ میرا جسم تو وہاں بے جان پڑا ہے اور میری روح سے ان کو کیا پریشانی ہونے والی ہے بس اس خیال سے آتے ہی میں واپس اُسی جگہ پر بیٹھ گیا جو میں نے صبح سے اپنے بیٹھنے کے لئیے مُنتخب کی ہوئی تھی!
تھوڑی دیر بعد ہی وہ اپنے کپڑوں اور ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے بولے چل یار اس کا بندوبست ہوا اب وارڈ چلتے ہیں ایسا نہ کوئی اور لاش آگئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر اُن میں سے اک شخص نے اک موٹی سی گالی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ ابے کبھی تو کُچھ اچھا بول تو یہاں کی حالت دیکھ رہا ہے نہ اگر رات تک ان میں سے یہاں کوئی نہیں گیا توکسی نئی لاش کو تو اپنی ماں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن دونوں کے آجانے کی وجہ سے میری سوچوں کا جو سلسلہ ٹوٹ گیا تھا وہ وہیں سے دوبارہ جُڑگیا مگر اب رہ رہ کر میرے کانوں میں ابھی یہاں سے جانے والے شخص کی وہ بات گونج رہی تھی کہ کسی لاش کا کوئی ولی وارث آجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب مُجھے اپنے گھر والوں کا خیال آنے لگا میرے گھر میں اماں اور چھوٹی بہن کے سوا کون تھا اورکراچی سے دور خیر پور میں بیٹھی ہوئی میری ماں اور بہن کو پتا ہی نہیں ہوگا کہ یہاں مُجھ پر کیا قیامت ہی گُذر گئی!
ہم دو بہن بھائی تھےابا کا انتقال ہوچُکا تھا۔۔۔ اماں نے بہت محنت مشقت کرکے ہم دونوں بہن بھائیوں کو پالا تھا۔۔۔۔۔۔ اماں کا بس ایک ہی خواب تھا کہ میٹرک کرنے کے بعد میں فوج میں چلا جاؤں جبکہ میری خواہش تھی کہ جلد سے جلد میٹرک کرکے کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرلوں اماں کی بوڑھے ہاتھوں کو یوں لوگوں کے کپڑے سیتے ہوئے دیکھکر کبھی کبھی میرا دل چرنے لگتا تھا مگروہ ضد کرتی تھی کہ وہ مُجھے فوج میں ہی بھیجھے گی مُجھے پتا تھا کہ اگر میں فوج میں جاتا ہوں تو ہمارے گھرمیں خوشحالی تو شاید آجائے مگر یہ اچھا وقت آنے میں بُہت وقت لے لے گا اسی لئیے کبھی کبھی تو میں چڑ کر اُن سے بولتا اماں آخر فوج میں ایسا کیا رکھا ہے جو تو اسی بات کو پکڑ کر بیٹھ گئی ہےتووہ مُسکراتے ہوئے بولتیں پگلے وطن کا محافظ ہونا کیا بڑی بات ہے اور اس میں تو جان دینے والوں کو بھی شہادت کا درجہ ملتا ہے تو کبھی کبھی تو میں جھلا کر کہدیتا تھا ہاں جو یہاں کے حالات ہوگئے ہیں اُس میں تو ویسے ہی سڑکوں پر لوگ روز شہید ہوتے رہتےہیں فکر نہ کراگر ایسے ہی چلتا رہا تو فوج میں نہ بھی گیا تب بھی تیری یہ خواہش پوری ہوجائے گی!
تو وہ جلدی سے میرے مُنہ پر ہاتھ رکھ دیتی اور بس پھرگھنٹوں کے لئیے مُجھے سے ناراض ہوجاتی کہ کبھی بھی کُچھ بول دیتا ہے پتا نہیں کس لمحے کی گھڑی کیسی ہو اور میں بار بار ہاتھ جوڑ کر اُسے مناتا!
اور پھر آخر میں نے اپنا انٹر ہوتے ہی اماں کوپڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کرنے پر راضی کرہی لیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں جو یہ سمجھتا تھا کہ بس کراچی جاتے ہی مُجھے نوکری مل جائے گی یہ خیال اُس وقت غلط ثابت ہوا جب یہاں ایک آفس سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں مُجھے دھکے کھانے پڑے نجانے کتنی راتیں تو مُجھے پارکوں میں گُذارنا پڑی تھیں مگر پھر خُدا کو مُجھ پر رحم آہی گیا اور مُجھ ایک آفس میں نوکری مل گئی۔۔۔۔۔ نوکری ملتے ہی میں نے ایک ہاسٹل میں رہائش کرلی۔۔۔۔۔ اب میں نوکری بھی کرتا تھا اور پرایئوٹ پڑھ بھی رہا تھا جب میں کراچی سے اس کے ماحول سے اچھی طرح آشنا ہوگیا تو کُچھ عرصے بعد ہی میں نے جومیرے ساتھ آفس میں ہوتا تھا اُس کے توسط سے ایک ایسے کمرے میں رہائش اختیار کرلی تھی جہاں پہلے سے ہی مُختلیف جگہوں سے آئے ہوئے تین اور لڑکے رہ رہے تھے اب اُن میں اک میرا اضافہ ہوگیا تھا مگر اس کا مُجھے یہ فائدہ ہوا کیونکہ یہ کمرہ چار لڑکے استعمال کررہے تھے تو کمرے کا ماہانہ کرایہ ہم چاروں آپس میں برابر تقسیم کرلیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں ہاسٹل کی نسبت کُچھ رقم پس انداز ہونے لگی تھی۔۔ اپنے کمرے اور کھانے پینے کے علاوہ کی جو ساری رقم ہوتی تھی میں اماں کو منی آرڈر کردیتا تھا اور تھوڑے عرصے بعد خود بھی چکر لگا لیتا تھا۔
مُجھے کراچی میں رہتے ہوئے تین سال ہوچُکے تھے ان تین سالوں میں بہت تو نہیں مگر کُچھ لوگ میرے بہت اچھے دوست بن گئے تھے دفتر سے آنے کے بعد فارغ اوقات یا کسی چُھٹی والے دن میں اُن سے ملنے کے لئیے اُن کی طرف چلا جاتا تھا یا وہ یہاں میرے پاس آجاتے تھے۔۔۔ اب تو میں کراچی اور اس کے علاقوں سے اتنا واقف ہوگیا تھا جتنا واقف یہاں کا کوئی عام رہائشی ہوگا مُجھے اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ مُجھے کس وقت باہر نکلنا ہے کب نہیں نکلنا یہی رویہ میرا اُن علاقوں کے لئیے تھا جہاں عموماَ حالات خراب ہی رہتے تھے۔۔۔۔
اب تو کراچی کے حالات خراب ہونا اک معمول کی بات بن گئی تھی ان حالات نے اپنا اتنا عادی کردیا تھا کہ اگر کوئی دن بغیر کوئی خبر سُنے گُذرتا تھا تو یہ خبر عجیب لگنے لگتی تھی کہ آج کراچی میں کُچھ نہیں ہوا!
یہ کل ہی کی تو بات ہے میں اک زندہ شخص تھا اپنی چلتی ہوئی ہر سانس سے لُطف لینے والا شخص میرے گھر اور میری زندگی کے حالات بھی میرے دل کو مُردہ نہیں کرسکے تھے مُجھے اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ میرا کسی بات پر پریشان ہونا کسی پریشانی کو حل نہیں کرسکے گا اپنی تمام پریشانیوں کا حل مُجھے خود ہی نکالنا ہوگا اور یہ تبھی مُمکن تھا جب میں خود اپنی ذہنی حالت کو پُرسکون رکھتا۔۔
یہاں میں کُچھ بہت اچھے دوست بن گئے تھے مگر سلیم کی بات ہی اور تھی اور اُس سے اچھی دوستی کی وجہ ہم دونوں کی ذہنی ہم آہنگی تھی۔۔۔۔۔۔ کل جب مُجھے مارا گیا تو میں سلیم کی بہن کی منگنی کی رسم سے ہی واپس آرہا تھا وہ اورنگی ٹاؤن میں رہتا تھا اور حالات کی وجہ سے میرا اس تقریب میں شریک کو ہونے کو بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا مگر سلیم سے دوستی ایسی تھی کہ مُجھے مجبوراَ نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑا۔۔۔۔۔۔ رات دس بجے کے قریب میں منگنی کی رسم اور کھانے سے فارغ ہوچُکا تو میں نے اُس سے واپسی کی اجازت چاہی حالانکہ وہ بہت روک رہا تھا کہ گھر جا کر اب سونا ہی تو ہے یہیں رُک جا صُبح ساتھ ہی دفتر چلیں گے مگر میں اُس کے اصرار پر بھی نہیں رُکا اُس کے گھر میں بھرے ہوئے مہمانوں سے ہی مُجھے اُلجھن آرہی تھی اور پھر یہاں رات گذارنا میں بھی اُس سے زبردستی اجازت لے کر نکل آیا۔۔
سواگیارہ کے قریب میں اپنے اسٹاپ پر اُتر بھی گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی میں زیادہ دور چلا بھی نہیں ہونگا کہ پیچھے سے دو موٹرسائیکل سواروں نے آکر مُجھے روک لیا اور اب مُجھے اپنی کم بختی اپنے سر پر ناچتی ہوئی نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔ اُن میں سے ایک نے مُجھ پر پستول تان کر موبائل اوربٹوہ نکالنے کے لئیے کہا اور مُجھے پتا تھا میرا بحث کرنا یا ہاتھا پائی کرنا بے کار ہوگا لہذا اُن کے مانگنے پر میں نے دونوں چیزیں چُپ چاپ نکال کر اُن کے ہاتھ میں دے دیں۔۔۔۔۔ شاید اُن کو میرے اس رویے کی توقع نہیں رہی ہوگی وہ یقیناَ میری جانب سے کوئی مزاحمت کا سوچ رہے ہونگے مگر جب اُنھوں نے دیکھا کہ میں نے چُپ چاپ اُن کا مطالبہ پورا کیا ہے تو اُس شخص کی آنکھوں میں اک لمحے کو مُجھے ایک عجب سی اُلجھن دکھائی دی جو میری طرف موٹرسائیکل سے اُتر کر آیا تھا۔۔۔۔۔۔ چند لمحے بعد ہی وہ دونوں واپس اپنی اسکوٹر پر بیٹھے اور واپسی کے لئیے اپنی موٹرسائیکل موڑ لی۔۔۔۔۔ میں ابھی تک پریشانی میں وہیں کھڑا تھا۔۔۔۔۔ جاتے ہوئے نجانے اُنھوں کیا سوچا یا اُن کے ذہن میں کیا بات آئی کے اُس شخص نے جس نے ابھی مُجھ سے میرا موبائل اور بٹوہ لیا تھا پلٹ کر میری جانب فائر کردیا!
اور سینے میں لگنے والی گولی نے چند لمحوں میں میری ہراُس سانس کو ختم کردیا جن سے کبھی میں لمحہ لمحہ لُطف اُٹھاتا تھا۔۔۔۔ اُن کے جانے کے بعد حسب روائت کُچھ لوگ میرے مُردہ جسم کے پاس جمع ہونا شروع ہوگئے۔۔۔۔ اور میرے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی کہ میری جیب میں ایسا کُچھ نہیں تھا جس سے میری شناخت ہوسکتی یہانتک کے میرا شناختی کارڈ بھی اُسی بٹوے میں تھا جو وہ دونوں لڑکے لے گئے۔۔۔۔۔ اور بس میرے وجود کو ایک لاوارث لاش بنتے دیر نہیں لگی اور یوں اب میں یہاں اس مرُدہ خانے میں پڑا ہوا تھا۔
کراچی میرے لئیے بالکل پردیس ہی کی طرح تھا اور جس کمرے میں رہتا تھا میرے وہ دوست میری غیر موجودگی سے یہی سمجھ رہے ہونگے کہ میں سلیم کے پاس ہی رُک گیا ہوں اور پتا نہیں آج صبح وہ دفتر آیا بھی ہوگا یا کل رات کی تقریب کی وجہ سے اُس نے چُھٹی کرلی ہوگی اور جب تک اُنھیں میری غیر موجودگی کا احساس ہوگا یہاں میرے ساتھ نجانے کیا ہوجانا تھا!
میری سوچوں کا یہ تسلسل مردہ خانے کے دروازہ کُھلنے سے ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔ ایک ڈاکٹر وہ دونوں آدمی جو ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں ایک اور شخص کی لاش کو رکھ کر گئے تھے اُن کے ہمراہ دو اور آدمی داخل ہوئے جو ایسے رو رہے تھے اور اب مُجھے اُن پر یہ سوچ کر ترس آرہا تھا کہ یہ دونوں یقیناَ اپنے کسی پیارے کی لاش کو لے جانے کے لئیے آئے ہونگے!
ڈاکٹر نے اُن دونوں وارڈ بوائے میں ایک سے کہا تُم ان کو شناخت کروادو کہ ان لاشوں میں ان کا بھائی ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ دونوں جا کر ایک ایک لاش کو بڑے غور سے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔۔۔۔۔ اور میں بیٹھا دُعا مانگ رہا تھا کہ جس خیال کے تحت یہ یہاں آئے ہیں وہ غلط ثابت ہو اِن کا پیارا زندہ ہو!
چند لمحوں بعد وہ تمام لاشوں سے ہوتے ہوئے مُجھ تک پُہنچ گئے اور اب میری خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ مُجھے یہ یقین ہوچُلا تھا جس شخص کے لئیے یہ دونوں آدمی تمام مردوں کو دیکھتے پھر رہے ہیں وہ کم از کم یہاں تو نہیں ہوسکتا ہے وہ زندہ ہی ہو!
اچانک اُن میں سے ایک میرے پاس آیا اور چند لمحے مُجھے غور سے دیکھا اور اُس نے دوسرے شخص کو آواز لگائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظور ادھر آ مصطفی مل گیا!
کون مصطفی کیسا مصطفی میرا نام تو احمد نواز تھا یقیناَ اس کو کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔۔۔۔ مگراس کی آواز لگانے پر وہ شخص جسے منظور پُکارا گیا تھا وہ میرے قریب آیا تو اُس نے میرے وجود سے لپٹ کر یوں دھاڑے مار مار کے رونا شروع کردیا کہ اگر میرا کوئی عزیز بھی میری لاش کی شناخت کو آتا وہ بھی یوں نہیں روتا!
اور اب میں ان دونوں کے متعلق سوچ رہا تھا کہ یا اللہ یہ کون لوگ ہیں؟ مگر یہ گُھتی اتنی جلدی سُلجھنے والی نہیں تھی مگر کم از کم مُجھے اس چیز کا اطمینان ضرور ہوگیا تھا چلو اب کم از کم میرا کفن دفن کا عمل ہوہی جائے گا اور مُجھے بھی دو گز زمیں مل جائے گی ویسے بھی میں بچپن سے سُنتا آرہا تھا کہ مردہ وجود کو زیادہ دیر تک نہیں روکنا چاہئیے اُس کی مٹی اور مُنکر نکیر اُس کی راہ دیکھ رہے ہوتے ہیں!
تھوڑی دیر میں ہی ہسپتال کی خانہ پُری کے بعد میرا مُردہ وجود ایک ایمبولینس میں اُن کے ساتھ جا رہا تھا اور پھر ایک گھر آنے پر مُجھے اُتار لیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جس کمرے میں مُجھے لایا گیا وہ تھا تو کسی گھر کا ہی کمرہ جو بُری طرح سے سرد ہو رہا تھا اتنا سرد تو ہسپتال کا وہ سردخانہ بھی نہیں تھا جہاں میں اتنے گھنٹے گُذار آیا تھا اور دوسری حیرت انگیز چیز جو تھی وہ یہ کہ وہاں میرے علاوہ پہلے سے تین لاشیں رکھی ہوئیں تھیں مگر ان کی بھی حالت ہسپتال والی نہیں تھی اُن کو بڑی احتیاط سے رکھا گیا تھا جو سے سجاوٹ کے کوئی نادر نمونے ہوں!
اور تھوڑی دیر قبل تک ہسپتال میں جو شخص رورہے تھے اب ایسے خوش نظر آرہے تھے کہ کوئی قلعہ فتح کرکے آئے ہوں اور میں حیرت زدہ اس تمام صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں وہ دونوں مُجھے وہیں کمرے میں رکھ کر چلے گئے۔۔۔۔۔ اور اب مُجھے کیسے پتا چلے کہ یہ آخر مُجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟ اچانک مُجھے خیال آیا گو میرا جسم نہیں چل پھر سکتا مگر میری روح تو کہیں بھی آ جاسکتی ہے اس خیال کے آتے ہی میں بڑے آرام سے اُس کمرے سے نکلا جہاں مُجھے رکھا گیا تھا اور اُس کے برابر والے کمرے میں آگیا جہاں دو نہیں تین لوگ بیٹھے تھے۔۔۔ میں وہیں اُن کے نذدیک کھڑا ہو کر اُن کی باتیں سُننے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن میں سے ایک بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا نہیں اسحاق بھائی کب تک آئیں گے میں نے ہسپتال جاتے ہوئے اُنھیں فون تو کردیا تھا اور بتابھی دیاتھا انشااللہ آج ہم کامیاب ہی لوٹیں گے مگر اُن کا ابھی تک پتا نہیں موبائل بھی بند آرہا ہے وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ ایک تیرہ چودہ سال کا بچہ کمرے میں تین اور آدمیوں کے ساتھ داخل ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کو دیکھ کر ہی وہ تینوں آدمی جو باتیں کررہے تھے ایکدم پرمسرت انداز میں کھڑے ہوگئے اورایک بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے اسحاق بھائی ابھی ہم بس آپ کی ہی بات کررہے تھے مااشاللہ بڑی لمبی عُمر ہے آپ کی وہ شخص اُس کی اس مُسرت کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے یار میری عُمر کو گولی مارو یہ بتاؤ کسی بندے کا بندوبست ہوا بھی یا نہیں دو دن سے تُم لوگوں نے مُجھے لارے لپوں میں رکھا ہوا ہے وہاں مُجھ پر پارٹی کی طرف سے دباؤ پڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا ہے کل بھی ہماری حریف پارٹی نے دعوی کیا ہے کہ ہماری پارٹی کے کارکنوں کی طرف سے اُن کا اک بندہ مارا گیا ہے حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری طرف سے ایسا کُچھ نہیں ہواپچھلے پندرہ دنوں میں یہ تیسری بار ہوا ہے کہ اُنھوں نے ہم پر یہ الزام لگایا ہے پتا نہیں سالے روز کہاں سے اتنی لاوارث لاشیں لے آتے ہیں!
اور تُم لوگ ہو کہ پچھلے ایک ہفتے کے اندر ایک لاش بھی نہیں دے سکے ہو کہ ہم بھی اُن پر کوئی الزام تراشی کرسکیں۔۔۔۔ اُن میں سے ایک مسمساتے ہوئے بولا اسحاق بھائی ہم تین لوگوں کی لاشیں آپ کو دکھاتو چُکے ہیں آپ کو کوئی سمجھ ہی نہیں آرہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شخص ذرا برہم ہوتے ہوئے بولا وہ لاشیں کہیں سے لگتی ہیں کہ کسی پارٹی کے کارکن ہوں؟ شکل سے چرسی موالی لگ رہے تھے اُن میں سے کسی کو لے جاکر یہ دعوی کیا کہ ہمارایہ کارکن مرا ہے تو دوسری پارٹی ہماری ساکھ کو مزید نقصان پُہنچانے کا موقع ہاتھ آجائے گا ابھی کُچھ ہے تو بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر ایک آدمی بولا ارے ہاں نا اسحاق بھائی آپ اندر جاکر تو دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اُس نے دوسرے شخص کو اشارہ کرتے ہوئے کہا منظور جا ذراصاحب کو لاش دکھا!!
اور پھر وہ شخص جس کو وہ سب لوگ اسحاق بھائی پُکاررہے تھے وہ اُس کمرے میں آگیا جہاں مُجھے رکھا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُجھے دیکھتے ہی اُس شخص کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اب کُچھ ڈھنگ کا لائے ہو نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں چلتا ہوں رات کو انتظام کرکے رکھنا میرے لڑکے اس کو آکر لے جائیں گے!
اور پھر رات کے اندھیرے میں ہی مُجھے اُس جگہ سے بھی مُنتقل کردیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے دن ہی اُس پارٹی کی جانب سے مُجھے مخالف پارٹی کے ہاتھوں مارے جانے کا دعوی بھی کردیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہیں مُجھے پتا چلا کہ میں تو پچھلے دس سالوں سے اس پارٹی کے ساتھ جُڑا ہوا تھا اور اس پارٹی کا سرگرم کارکن بھی تھا!
اور پھر سینکڑوں دیگر کارکنوں کی اشکبارآنکھوں کے ساتھ میری تدفین بالکل ایسے ہی ہوئی جیسے کسی سرگرم کارکن کو سُپردخاک ہونا چاہئیے تھا!
خود کو قبرمیں رکھے جانے پر میں نے شُکر ادا کیا کم از کم اب مُجھے یہ یقین ہوگیا تھا کہ مُجھے یہاں سے کہیں اور مُنتقل نہیں ہونا پڑے گا!
مگر اب میں اپنی قبر کے باہر کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ میرے وجود کو تو قبر میں اُتار دیا اب میں کہاں جاؤں؟
قبرستان کے ماحول سے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی تدفین نے مُجھے وحشت زدہ بنا کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں قبرستان کے احاطے سے باہر نکل آیا اور اب میرا رُخ اُسی جگہ کی طرف تھا جہاں کُچھ دیر پہلے میرا غُسل ہوا تھا مُجھے کفن میں لپیٹا گیا تھا!
میں وہاں پُہنچا تو وہاں میری ہی یاد میں وہ اسحاق بھائی کھڑے ایک مجمعے سے چینخ چینخ کر خطاب کررہے تھے اور میری شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے اُس پارٹی کو کوس رہے تھے جن کی وجہ سے اُن کا ایک سرگرم کارکن اُن سے جُدا ہوگیا!
آخر میں اپنی اس تقریر کا اختتام کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گو کہ اُن دہشت گردوں نے ہمارے مُصطفی کو ہم سے چھین لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری روح پھر چینخ کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے بھائی میرا نام مصطفی نہیں احمد نواز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ تھے کہ کُچھ سُننے پر ہی تیار نہیں تھے تھک ہار کر میں خود ہی چُپ ہوگیا اور خود بھی اُن کی اُس تقریر کو سُننے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھربولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس ہم نے اور ہماری پارٹی نے یہ طے کیا ہے جیسے مصطفی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابے پھر مصطفی تُم لوگوں کو سُنائی نہیں پڑتا میرا نام احمد نواز ہے!!
ہاں تو میں کہہ رہا تھا مصطفی نہ صرف ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا بلکہ اُس کی یاد میں ہم اپنے علاقے میں اُس کے نام پر ہم ایک چوک بھی بنائیں گے!
اور پھر تین دن بعد ہی اُس علاقے میں میرے نام پر ایک چوک بھی بن گئی " مصطفی شہید چوک" اور اب اس لمحے میں اس چوک پر کھڑا سوچ رہا تھا کاش آج میری اماں یہاں ہوتی تو وہ کتنا خوش ہوتی کہ اُس کے بیٹے کو فوج میں جائے بغیربھی شہادت کا رُتبہ مل گیا ہے!!
ندیم جاوید عُثمانی