قمر جلالوی ::::: شیخ آخر یہ صُراحی ہے، کوئی خُم تو نہیں ::::: Qamar Jalalvi

طارق شاہ

محفلین



غزل

شیخ آخر یہ صُراحی ہے، کوئی خُم تو نہیں
اور بھی، بیٹھے ہیں محِفل میں تمہی تم تو نہیں

ناخُدا ہوش میں آ، ہوش تِرے گُم تو نہیں
یہ تو ساحِل کے ہیں آثار ، تلاطُم تو نہیں

ناز و انداز و ادا ، ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی !
تیری تصویر میں سب کُچھ ہے تکلّم تو نہیں

دیکھ، انجام محبّت کا بُرا ہوتا ہے !
مجھ سے دُنیا یہی کہتی ہے بس اِک تم تو نہیں

مسکراتے ہیں سلیقے سے چمن میں غُنچے
تم سے سیکھا ہُوا، اندازِ تبسّم تو نہیں

اب یہ منصُور کو دی جاتی ہے نا حق سولی
حق کی پُوچھو! تو وہ اندازِ تکلم تو نہیں

چاندنی رات کا ، کیا لُطف قمرؔ کو آئے
لاکھ تاروں کی ہو بہتات، مگر تم تو نہیں

قمر ؔجلالوی
 

سیما علی

لائبریرین
نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے
کہو کیسے کوئی محبت چھپالے
کرے کیا کوئی جو وہ آئیں یکا یک
نگاہوں کو روکے یا دل کو سنبھالے
چمن والے بجلی سے بولے نہ چالے
غریبوں کے گھر بے خطا پھونک ڈالے
قیامت ہیں ظالم کی نیچی نگاہیں
خدا جانے کیا ہو جو نظریں اٹھالے
کروں ایسا سجدہ وہ گھبرا کے کہ دیں
خدا کے لیےاب تو سر کو اٹھا لے
تمہیں بندہ پرور ہمیں جانتے ہیں
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
بس اتنی سی دوری یہ میں ہوں یہ منزل
کہاں آکے پھوٹے ہیں پاؤں کے چھالے
قمؔر میں ہوں مختار تنظیمِ شب کا
ہیں میرے ہی بس میں اندھیرے اجالے

استاد قمر ؔجلالوی
 

سیما علی

لائبریرین
مرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا

نشیمن ہو نہ ہو یہ تو فلک کا مشغلہ ٹھہرا
کہ دو تنکے جہاں پر دیکھنا بجلی گرا دینا

میں اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے
کوئی فریاد والا آ رہا ہے راستہ دینا

اجازت ہو تو کہہ دوں قصۂ الفت سر محفل
مجھے کچھ تو فسانہ یاد ہے کچھ تم سنا دینا

میں مجرم ہوں مجھے اقرار ہے جرم محبت کا
مگر پہلے تو خط پر غور کر لو پھر سزا دینا

ہٹا کر رخ سے گیسو صبح کر دینا تو ممکن ہے
مگر سرکار کے بس میں نہیں تارے چھپا دینا

یہ تہذیب چمن بدلی ہے بیرونی ہواؤں نے
گریباں چاک پھولوں پر کلی کا مسکرا دینا

قمرؔ وہ سب سے چھپ کر آ رہے ہیں فاتحہ پڑھنے
کہوں کس سے کہ میری شمع تربت کو بجھا دینا

استاد قمر ؔجلالوی
 

سیما علی

لائبریرین
بارش میں عہد توڑ کے گر مے کشی ہوئی
توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی

پیش آئے لاکھ رنج اگر اک خوشی ہوئی
پروردگار یہ بھی کوئی زندگی ہوئی

اچھا تو دونوں وقت ملے کوسیئے حضور
پھر بھی مریض غم کی اگر زندگی ہوئی

اے عندلیب اپنے نشیمن کی خیر مانگ
بجلی گئی ہے سوئے چمن دیکھتی ہوئی

دیکھو چراغ قبر اسے کیا جواب دے
آئے گی شام ہجر مجھے پوچھتی ہوئی

قاصد انہیں کو جا کے دیا تھا ہمارا خط
وہ مل گئے تھے ان سے کوئی بات بھی ہوئی؟

جب تک کہ تیری بزم میں چلتا رہے گا جام
ساقی رہے گی گردش دوراں رکی ہوئی

مانا کہ ان سے رات کا وعدہ ہے اے قمرؔ
کیسے وہ آ سکیں گے اگر چاندنی ہوئ

استاد قمر ؔجلالوی
 

سیما علی

لائبریرین
حالات گلستاں پہ بہت ہم نے نظر کی
اپنوں کے سوا بات کسی سے نہ کی ڈر کی

صیاد کو دیتا ہے پتا نغمۂ بلبل
گلچیں کو بلا لیتی ہے خوشبو گل تر کی

استاد قمر ؔجلالوی
 
Top