طارق شاہ
محفلین
غزل
شیخ آخر یہ صُراحی ہے، کوئی خُم تو نہیں
اور بھی، بیٹھے ہیں محِفل میں تمہی تم تو نہیں
ناخُدا ہوش میں آ، ہوش تِرے گُم تو نہیں
یہ تو ساحِل کے ہیں آثار ، تلاطُم تو نہیں
ناز و انداز و ادا ، ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی !
تیری تصویر میں سب کُچھ ہے تکلّم تو نہیں
دیکھ، انجام محبّت کا بُرا ہوتا ہے !
مجھ سے دُنیا یہی کہتی ہے بس اِک تم تو نہیں
مسکراتے ہیں سلیقے سے چمن میں غُنچے
تم سے سیکھا ہُوا، اندازِ تبسّم تو نہیں
اب یہ منصُور کو دی جاتی ہے نا حق سولی
حق کی پُوچھو! تو وہ اندازِ تکلم تو نہیں
چاندنی رات کا ، کیا لُطف قمرؔ کو آئے
لاکھ تاروں کی ہو بہتات، مگر تم تو نہیں
قمر ؔجلالوی